محسن کاکوروی

0

قصیدے میں شاعر کسی کی تعریف یا ہجو کرتا ہے اور وہ جس کی تعریف کرتا ہے اس سے کچھ مادی فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے مگر محسن کاکوروی نے ان تمام سودا زیاں سے ہٹ کر قصیدے میں ایک ایسی شخصیت کی تعریف کی ہے جس کو محسن انسانیت کہا جاتا ہے یعنی آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم- اس طرح انہوں نے نعتیہ قصیدہ گوئی کی بنیاد ڈالی اور اس میں منفرد مقام حاصل کیا اپنے اس حق کے وہ شہنشاہ کہلاتے ہیں انہوں نے اس فن کو اردو شاعری میں جس انداز میں بڑتا ہے اس کی مثال عربی و فارسی شاعری میں نہیں ملتی-

محسن ۱۸۲۳ ۶ میں کاکورہ میں پیدا ہوئے- آپ کے والد مولوی حسن بخش بڑے دیندا اور اللہ والے انسان تھے – وہ خود بھی عشق رسول میں ڈوبے ہوئے تھے لہذا انہوں نے اپنے بیٹے کو بھی یہی تعلیم دی – محسن نے ابتدائی اور ثانوی تعلیم حاصل کرکے وکالت کا امتحان پاس کیا اور اگرہ میں وکالت کرنے لگے – کچھ دنوں بعد آپ آگرہ چھوڑ کر مین پوری چلے گئے اور وکالت کے پیشے سے وابستہ ہو گئے- تصنیف اور تالیف کا شوق بچپن سے تھا اس لئے اسلامی موضوعات پر مضامین لکھتے تھے عشق رسول بچپن سے مزاج میں داخل تھا لہذا جب شاعری کی طرف متوجہ ہوئے تو رسول کی تعریف اور توصیف کو ہی مشق سخن بنایا اسی وجہ سے آپ نے شاعری کو بھی پیش نہیں بنایا – شوخیاں نعت کہتے تھے اور پورے جذبے اور خلوص سے کہتے تھے رسول کی محبت ان کے دل میں اتنی گہری تھی کہ ان کے کلام میں خود بخود اثر آگیا – صبح تجلی اور چراغ کعبہ ان کی بے مثال مثنویاں ہیں جن میں عشق رسول کا جذبہ پوری ادبی چاشنی کے ساتھ موجود ہے – انہہے زبان پر بھی پوری قدرت حاصل تھی اور زیادہ تر مضامین براہ راست قرآن اور حدیث سے نکالتے تھے یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں تلمیحات اور تاریخی حوالے جا بجا پائے جاتے ہیں- ان کا یہ قصیدہ بے حد مقبول ہے-

سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل
برق کاندھوں پہ لاتی ہے صبا گنگا جل

قصیدہ کے اجزائے ترکیبی کے لحاظ سے ان کا یہ قصیدہ اردو قصیدہ نگاری میں مثالی ہے جو کہ فارسی اور عربی موضوعات سے ہٹ کر ہندوستانی موضوعات پر ے – برہمن گوپی کرشن وغیرہ جیسے دلچسپ کردار اور مقامات سے سے مد ح کا پہلو نکالا ہے-

محسن کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ انہیں خواب میں رسول پاک کی زیارت نصیب ہوئی تھی اس لیے وہ نعت کہتے وقت اس میں ڈوب جاتے ہیں – محسن کے کلام میں مشکل الفاظ سے گریز ہے وہ تلمحات تشبیہات و استعارات کو نہایت سا دہ اور دلچسپ طریقے سے استعمال کرتے ہیں – ان کے یہاں ہندوستانی تہذیب اور روایت بھی پورے آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہے اور کلام میں زور پیدا کرنے کے لیے کہیں ہندی الفاظ بھی لے اتے ہیں- ہندوستانی تہذیب کا ایک نمونہ ملاحظہ ہو-

راکھ یاں لے کر سلونی کے برہمن نکلے
تار بارش کا ٹوٹے کوئی ساعت کوئی پل
اب کے میلا تھا ہنڈولے کا بھی گر داب ملا
نہ بچا کوئی محا فہ نہ کوئی رکھ نہ کوئی ہل

عشق کے نعتیہ قصائد کا ایک کمال یہ یے کہ وہ ہندوستانی تہذیب و معاشرت سے اپنے قصیدہ کی تشبیب باندھتے ہیں اور اس کے بعد بڑی خوش اسلوبی سے گریز کرکے نعت محمد کی طرف نکل جاتے ہیں اور یہ گریز اتنا فطری ہوتا ہے کہ محسن کی فنکاری کو تسلیم کرنا پڑتا ہےاور ہم یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ سودا اگر چہ قصیدے کے بادشاہ ہیں مگر تشبیب میں جو ندرت محسن کے ہاں پائی جاتی ہے وہ سودا کے یہاں بھی نہیں ہے-

محسن نے جو تلمیحات استعمال کی ہیں ان کو سمجھنے کے لئے قرآن اور حدیث کا مطالعہ ہونا ضروری ہے کیونکہ کہ یہ تشبیہات بہت زیادہ عام انداز کی نہیں ہے اور یہ انداز ہمیں ان کے علاوہ صرف اقبال کے ہاں ملتا ہے-

حقیقت یہ ہے کہ محسن نے نعت قصیدہ گوئی کی فضا کو لفظی و معنوی معراج عطا کیا ہے – ان کے یہاں ایک طرف لفظوں کی تراش و خراش ہےتو دوسری طرف ان میں زبردست معنویت بھی ہے اور سب سے بڑھکر یہ ہے کہ ان کے نعتیہ قصائد ہمیں عمل کی تحریک دلاتے ہیں-

تحریر ارویٰ شاکر