قصیدہ کی تعریف، آغاز و ارتقاء

0

”قصیدہ“ اُس نظم کو کہتے ہیں جس میں کسی کی مدح یعنی تعریف کی جائے یا کسی کی ہجو یعنی بُرائی کی جائے۔ بعض محقیقین کا خیال ہے کہ لفظ قصیدہ قصد سے نکلا اور اسکا سبب یہ ہے کہ شاعر ارادہ کر کے کسی کی مدح یا ہجو کرتا ہے۔ بعض نے اس کے معنی ”مغزِ غلیظ“ کے بیان کیے ہیں۔

غزل کی طرح قصیدے کا پہلا شعر بھی ”مطلع“ کہلاتا ہے اور اس کے دونوں مصرعوں میں قافیہ و ردیف ہوتا ہے. بعض قصیدے بغیر ردیف کے ہوتے ہیں۔ باقی اشعار کے دوسرے مصرعوں میں قافیہ و ردیف یا صرف قافیہ ہوتا ہے۔ غزل ہی کی طرح قصیدے میں بھی ”مقطع“ ہوتا ہے لیکن قصیدے میں کچھ چیزیں غزل سے مختلف ہوتی ہیں مثلاً درمیاں میں کئی مطلعے ہو سکتے ہیں اور مقطع ضروری نہیں کہ قصیدے کا آخری شعر ہو۔

قصیدے کی اقسا م

قصیدے کی دو قسمیں ہوتی ہیں :

خطابیہ اور  تمہيدیہ

  • خطابیہ قصیدہ وہ ہے جس میں شاعر تمہید باندھے بغیر مدعا بیان کر دے۔ مطلب یہ کہ اگر قصیدہ مدحیہ ہے تو شاعر ممدوح کو خطاب کرئے اور اس کے اُوصاف کو بیان کرنا شروع کر دے۔ ہجویہ ہے تو براہِ راست اس کی مذمّت کرنے لگے۔ اصل مدعا وعظ و نصیحت ہے تو بلا کسی تمہید کے آغاز ہو جائے۔
  • تمہیدیہ قصیدہ وہ ہے جس میں اصل مدعا سے پہلے تمہید باندھی جائے پہر مدعا بیان کیا جائے۔ یہ تمہید تشبیب یا نسیب کہلاتی ہے اور یہ بہار و خزاں جس میں عشق اور پند و نصیحت کے مضامین پر مشتمل ہو سکتی ہے۔ اسی کی رعایت سے قصیدے کو بہاریہ ، عشقیہ اور وعظیہ کہا جا سکتا ہے۔

قصیدے کے اجزائے ترکیبی

نہ صرف اردو بلکہ عربی اور فارسی میں بھی تمہیدیہ قصائد کا رواج رہا ہے۔ یعنی قصیدہ نگار مدح یا ہجو کرنے سے پہلے تمہید باندھتا ہے پھر اصل موضوع پر آتا ہے۔ تمہیدیہ قصیدے کے عموماً پانچ اجزاء ہوتے ہیں :

١ تشبیب

قصیدے کی تمہید کو تشبیب یا نسیب کہتے ہیں۔ تشبیب کے موضوعات مختلف ہو سکتے ہیں۔ اس میں شباب و شراب کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ بہار کی منظر کشی کی جا سکتی ہے ، تشبیب میں خود ستائی یعنی اپنے اوصاف بیان کرنے کی بھی گنجائش ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ تشبیب پند و نصائح پر مشتمل ہو یا اس میں بے ثباتئی دنیا کا بیان ہو۔ غرض یہ کہ تشبیب کے موضوعات لامحدود ہیں۔

تشبیب کو قصیدے کا سب سے اہم حصّہ خیال کیا جاتا ہے۔ اس لیے شاعروں نے اس پر بہت محنت کی ہے۔ غالبؔ کو اپنی تشبیب پر بڑا ناز تھا انہوں نے بہادر شاہ ظفر کی مدح میں ایک قصیدہ لکھا ہے جس کی تشبیب بہت دلکش ہے۔ پہلی تاریخ کا چاند انھیں ایسا لگتا ہے جیسے کوئی شخص تسلیم بجا لانے کو جھکا ہوا ہے۔ شاعر سوال کرتا ہے کہ اے مہ نو یہ بتا کہ تو جھک کر کسے سلام کر رہا ہے۔

ہاں مہ نو سنیں ہم اسکا نام
جس کو تو جھک کے کر رہا ہے سلام

٢ گریز

تشبیب کے بعد شاعر مدح کی طرف قدم بڑھا تا ہے۔ وہ براہِ راست مدح نہیں کرتا بلکہ بات سے بات پیدا کر کے مدح کی طرف آتا ہے۔ اس بات سے بات پیدا کرنے کو گریز کہتے ہیں۔ غالب کے قصیدے سے تشبیب کی جو مثال اوپر پیش کی جا چکی ہے اس میں شاعر پوچھتا ہے کہ اے مہ نو آخر تو کس کو جھک کے سلام کر رہا ہے۔ جواب نہیں ملتا تو کہتا ہے کہ تو اس کا نام نہیں جانتا تو لے میں بتاتا ہوں۔ وہ تاجدار بہادر شاہ ہے۔

تو نہیں جانتا تو مجھ سے سن
نام شائہنشہ بلند مقام
قبلہ جان و دل بہادر شاہ
مظہر ذوالجلال والاکرام ۔
یہ گریز کی مثال ہوئی .

٣ مدح

اس کے بعد شاعر اپنے ممدوح کی تعریف کرتا ہے اور اس میں خوب مبالغہ سے کام لیتا ہے یہی قصیدے کی خوبی ہے۔ قصیدے میں خاص طور پر مدح کے حصّے میں شاعر پُر شکوہ الفاظ کا استعمال کرتا ہے اس سے مدح میں زور پیدا ہوتا ہے۔ مدح کی مثال ملاحظہ ہو۔

سشہسوارِطریقہ انصاف
نو بہار حدیقہ اسلام
جس کا ہر فعل صورت اعجاز
جس کا ہر قول معنی الہام

٤ مدعا

قصیدے کا چوتھا جز مدّعا یا عرض مطلب ہے یعنی مدح گوئی کے بعد قصيده نگار اپنا مدعا بیان کرتا ہے جیسے غالب نے ایک قطعے میں اپنی مالی مشکلات بیان کرنے کے بعد کہا ہے؀

میری تنخواہ کیجئے ماہ بہ ماہ
تا نہ ہو مجھ کو زندگی دشوار

لیکن یہ قصیدے کا لازمی جز نہیں یعنی یہ ضروری نہیں کہ ہر قصیدے میں شاعر اپنا مدعا بیان کرے۔

٥ دُعا

قصیدے کا آخری جز دعا ہے یعنی شاعر اپنے ممدوح کو درازی عمر یا بلندی اقبال وغیرہ کی دعا دے کر قصیدہ ختم کر دیتا ہے۔ جیسے غالب نے اپنے قصیدے میں بہادر شاہ کو دعا دی کہ تمہاری سلطنت قیامت تک باقی رہے۔

ہے ازل سے روانی آغاز
ہو ابد تک رسائ انجام

اردو ادب میں نیٹ امتحان پاس کرنے کے لئے ان کتب کو خرید کر پڑھیں۔

قصیدے کا آغاز و ارتقاء

قصیدے نے سر زمیں عرب میں جنم لیا اور وہاں بے حد مقبول ہوا لیکن قدیم شعرائے عرب نے قصیدہ گوئی کو جھوٹی خوشامد اور کار بر آری یعنی اپنا کام نکالنے اور انعام پانے کے لیے استعمال نہیں کیا۔ عرب شعراء قصیدے میں اپنے قبیلے ، اپنے گاؤں ، کسی بزرگ یا اپنے محبوب کی تعریف بغیر کسی غرض کے صدقِ دل سے کرتے ہیں۔

اس وقت قصیدے میں جھوٹ اور مبالغے کا بھی گزر نہ تھا اس لئے قصیدہ نگار جو کچھ لکھتا تھا ،سننے اور پڑھنے والے اس پر یقین کرتے تھے۔ لیکن آگے چل کر یہ صورت نہ رہی اور شاعر اپنے حصولِ مطلب کے لیے استعمال کرنے لگے۔ عرب سے یہ صنف ایران پہنچی۔ وہاں کی مخصوص تہذیب نے اسے متاثر کیا نتیجہ یہ کہ قصیدے میں تصنع، بناوٹ ، مبالغہ آرائی اور جھوٹ کا دور دورہ ہو گیا۔

اردو میں قصیدہ نگاری کی شروعات دکن سے ہوئی۔سلطان محمّد قلی قطب شاہ نے ١٦١١ ء کے قریب قصيدے لکھے۔ ان قصائد کی زبان کو دکنی اردو کہنا بجا ہے کیوں کہ ان کے قصائد میں دکنی الفاظ کی کثرت ہے۔ دکن کے قصیدہ گو شعراء میں نصرتیؔ کا نام بھی اہم ہے۔ اس کے بعد شمالی ہند میں سودا نے قصیدہ گوئی میں بڑا نام پیدا کیا اس صنف سے انکی طبیعیت کو خاص مناسبت تھی۔

انھون نے مدحیہ ، ہجو قصائد بھی لکھے اور شہر آشوب بھی کہے۔ قصیدہ نگاری کے لیے جو چیزیں ضروری ہیں مثلاً زور بیان ، شوکت الفاظ،  مضمون نیز پر کشش اور دلچسپ  گریز ، پر جوش اور مبالغہ آمیز مدح وہ سب سوداؔ کے قصیدوں میں موجود ہے۔ لکھنؤ میں مصحفیؔ و انشاءؔ نے بھی بہت سے قصیدے لکھے لیکن عہدِ سوداؔ کے بعد قصیدہ نگاری کا دوسرا اہم نام مومنؔ، ذوقؔ اور غالبؔ کا ہے۔ مومن کسی دربار سے وابستہ نہ تھے نہ انعام و اکرام کے طلبگار تھے لیکن اظہارِ تشکر کے طور پر انھوں نے بھی قصیدے کہے۔

غالب نے کئی قصیدے لکھے اور اس میدان میں بھی اپنا راستہ سب سے الگ نکالا۔ قصيده نگاری میں ان کی توجہ مدح سے زیادہ تشبیب پر رہتی ہے۔ غالب کے قصیدے اپنا انفرادی رنگ رکھتے ہیں لیکن اس عہد کے سب سے اہم قصيده گو ذوقؔ ہیں۔ ان کے قصیدے گہرا علمی رنگ لیے ہوئے ہیں اور ان میں اصطلاحات کا کثرت سے استعمال ہوا ہے۔

منیرؔ شکوہ آبادی ، امیرؔ مینائی اور جلالؔ لکھنوی لکھنؤ اسکول سے تعلق رکھتے ہیں۔ مرثیہ گوئی میں انہیں اعلی مقام حاصل ہے۔ نعتیہ قصیدہ گوئی میں محسنؔ کاکوری نے قابل رشک مقام حاصل کیا۔ قصيدے اس کے بعد بھی کہے گئے لیکن پھر کوئی ایسا قصيده نگار پیدا نہیں ہوا جس کا نام قابلِ ذکر ہو۔