Advertisement
Advertisement

کردار نگاری کا سرور کے زمانے میں وہ تصور نہیں تھا جو ناول و افسانہ کے وجود میں آنے کے بعد عام ہوا۔ داستان کے کردار غیبی امداد کے سبب پنپ نہیں پاتے۔ سرور نے کردار نگاری کی طرف توجہ تو کی مگر اسی کمزوری نے فسانہ عجائب کے کرداروں کو اعلی صفات سے محروم رکھا۔ اس داستان کے تین اہم کردار ہیں۔
شہزادہ جان عالم، ملکہ مہر نگار اور انجمن آرا۔

Advertisement

شہزادہ جان عالم

جان عالم فسانہ عجائب کا ہیرو ہے۔ اس کردار میں نشوونما کے بہت امکانات تھے مگر سرور نے اسے مثالی بنانا چاہا جس کے سبب وہ انسانی صفات سے محروم ہو گیا۔ سرور نے اسے ایسا خوبرو بنا کر پیش کیا ہے کہ خود مصنف کے الفاظ میں” نیراعظم چرخ چہارم پر اس کے روعب جمال سے تھراتا اور ماہ کامل باوجود داغ غلامی تاب مشاہدہ نہ لاتا“۔

جان عالم حسن ظاہری کے علاوہ حسن باطنی سے بھی مالا مال ہے۔ کوئی بھی خوبی ایسی نہیں جو اس میں موجود نہ ہو۔ علم و فضل میں شہرہ آفاق ہے، فن سپہ گری ہی نہیں سارے فنون میں طاق ہے۔ لیکن قدم قدم پر محسوس ہوتا ہے کہ غیبی مدد حاصل نہ ہو تو وہ کچھ بھی نہیں کر سکتا بلکہ بعض اوقات تو رونے لگتا ہے۔ قوت فیصلہ سے محروم ہے، کمزور ہے، عقل و دانش سے عاری ہے، ملکہ مہر نگار اسے احمق ازلی کا خطاب دیتی ہے جو درست ہے۔

Advertisement

ملکہ مہر نگار

ملکہ مہر نگار حسن اور ذہانت دونوں دولتوں سے مالا مال ہے۔ وہ دور اندیش بھی ہے، معاملہ فہم بھی، اور وفادار بھی۔ ملکہ مہر نگار، فسانہ عجائب کا ایک ایسا کردار ہے جسے سائیڈ ہیروئن کہا جا سکتا ہے۔ اس کے متحرک کردار کی بناء پر نیرمسعود نے اسے داستان کی ہیروئن قرار دیا ہے۔

Advertisement

سرور نے ملکہ مہر نگار کو نہایت حسین، باوقار، پر تمکنت، با اخلاق، خوش مزاج، مصلح جو، دانشمند، موقع شناس اور باتدبیر دکھایا ہے۔ وہ ایک تارک الدنیا بادشاہ کی بیٹی ہے۔ بیوی کے روپ میں مہر نگار ایک مشرقی عورت ہے۔ اس میں شوہر سے وفاداری کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ داستان میں شروع سے لے کر آخر تک اس کا کردار متحرک ہے۔

انجمن آرا

انجمن آرا کا کردار بھی دلکش ہے مگر ملکہ مہر نگار کی طرح جاندار نہیں۔ملکہ زر نگار کی شہزادی انجمن آراء، جان عالم کی محبوبہ اور داستان کی ہیروئن ہے۔ رجب علی بیگ سرور نے اسے نہایت حسین اور جمیل بتایا ہے۔ لیکن حسین ہونے کے ساتھ وہ ایک با اخلاق، نیک دل اور عالی ظرف خاتون ہے۔

Advertisement

سرور نے انجمن آرا کو نہایت بھولی بھالی اور الھڑ دوشیزہ دکھایا ہے۔ جس میں مشرقی عورت کی شرم و حیا کو ٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ وہ اگرچہ جان عالم پر فریفتہ ہے اور اسے پانا چاہتی ہے لیکن اس کا تذکرہ زبان پر نہیں لاتی۔ اور جب جان عالم سے نکاح کی بابت اس سے پوچھا جاتا ہے تو شرما جاتی ہے جو ہندوستانی عورت کا شیوہ ہے۔

لکھنوی معاشرت رجب علی بیگ سرور کا پسندیدہ موضوع ہے اور فسانہ عجائب میں یہی ان کی توجہ کا مرکز ہے۔ لکھنؤ کی سیر کرانے کے غرض سے سرور نے اس کتاب پر ایک طویل دیباچہ لکھا دس سال تک برابر اس میں اضافے کرتے رہے۔

سرور کی آنکھوں سے سرور کے لکھنؤ کی سیر:
” دکان میں انواع و اقسام کے میوے قرینے سے چنے، روز مرے محاورے ان کے دیکھے نہ سنے۔ کبھی کوئی پکار اٹھی، میاں ٹکے کو ڈھیر لگا دیا ہے، کوئی موزوں طبیعت یہ فقرہ سناتی، مرزا انگور کا ہے رنگتروں میں، کسی طرح سے یہ صدا آتی گنڈیریاں ہیں پونڈے کی۔ ایک طرف تنبولی سرخروئی سے یہ رمزد کنایہ کرتے، بولی ٹھولی چبا چبا کر ہر دم یہ دم بھرتے، مکھی کا منہ کالا، مہوبا کرو کر ڈالا، عبیر ہے نہ گلال ہے، آدھی میں مگھڑ لال ہے، گلیوں میں گجروم یہ آواز آتی شیر مال ہے گھی کی اور دودھ کی نہ مفلس کا دل اچاٹ ہے، ٹکوں کی چاٹ ہے۔ کدھر لینے والے ہیں، نمش کی کلفیاں کے پیالے ہیں۔ کیا خوب بُھنے بُھر بُھرے ہیں، چَنے پَر مل اور مُر مُرے ہیں“۔

Advertisement

Advertisement