داستان فسانہ عجائب کا تنقیدی جائزہ

0

سال ١٨١٤ء عیسوی اودھ کی تاریخ میں اور اس کے ساتھ ہی اردو ادب کی تاریخ میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اس سال انگریزوں نے سیاسی مصلحت کے پیش نظر نواب غازی الدین حیدر والی اودھ کو بادشاہت کے منصب پر فائز کر دیا۔ اس کے دو رس نتائج برآمد ہوئے۔ اودھ کے لوگوں نے ہر معاملے میں دہلی سے مختلف راستہ اختیار کیا اور اپنی علیحدہ شناخت بنانے کی کوشش کی۔ اہل کمال نے بھی یہی روش اپنائی۔ شاعروں اور ادیبوں نے ایسی تخلیقات پیش کرنی چاہیں جن میں دبستان دہلی کے اثر کی پرچھائیں تک نظر نہ آئیں۔ اس طرح دبستان لکھنو کی بنیاد پڑی۔ شاعری میں امام بخش ناسخ اور نثر میں رجب علی بیگ سرور دبستان کے بانی کہلائے۔

باغ و بہار کا جواب دینے کے ارادے سے رجب علی بیگ سرور نے” فسانہ عجائب“ کے نام سے ١٨٢٤ء میں ایک داستان لکھی جو ١٨٤٣ء میں پہلی بار شائع ہوئی۔ ڈاکٹر جان گلکرسٹ کی فرمائش پر میر امن فورٹ ولیم کالج کے لیے فارسی قصہ چہار درویش کو” باغ و بہار“ کے نام سے١٨٠٢ء میں آسان اردو میں منتقل کرچکے تھے۔ تحسین کے” نوطرز مرصع“ ان کے پیش نظر تھی۔ یہ قصہ فارسی چہار درویش کا پر تصنع اور پیچیدہ اردو ترجمہ ہے۔

میر امن باغ و بہار کے دیباچے میں فرماتے ہیں کہ” خداوند متعال صاحب مروت، نجیبوں کے قدردان گل صاحب نے (کہ ہمیشہ اقبال ان کا زیادہ جب تک گنگا جمنا بہے) لطف سے فرمایا کہ اس قصے کوٹھیٹھ ہندوستانی گفتگو میں جو اردو کے لوگ ہندو مسلمان، عورت مرد لڑکے بالے خاص و عام آپس میں بولتے چالتے ہیں، ترجمہ کرو۔ موافق حکم حضور کے میں نے بھی اسی محاورے سے لکھنا شروع کیا جیسے کوئی باتیں کرتا ہے“۔

میر امن دلی کے رہنے والے تھے۔ بول چال کی زبان پر قدرت رکھتے تھے اور اس پر فخر کرتے تھے۔ باغ و بہار کے دیباچے میں لکھا ہے کہ جو لوگ دس پانچ سال دلی میں رہے وہ اردو لکھیں گے تو لامحالہ کہیں نہ کہیں چوک ہی جائیں گے پھر فخریہ اپنے بارے میں فرمایا کہ
” جو شخص سب آفتیں سہہ کر دلی کا روڑا ہو کر رہا، اور دس پانچ پشتیں اسی شہر میں گزریں اور اس نے دربار امراوں کے اور میلے ٹھیلے، عرس چھڑیاں، سیر تماشا اور کوچہ گردی اس شہر کی مدت تک کی ہوگی، اور وہاں سے نکلنے کے بعد اپنی زبان کو لحاظ میں رکھا ہوگا، اس کا بولنا البتہ ٹھیک ہے۔ یہ عاجز بھی ہر ایک شہر کی سیر کرتا اور تماشا دیکھتا یہاں تلک پہنچا ہے“۔

یہ فخر و مباہات اور دہلی کی زبان پر ایسا ناز اہل لکھنؤ کو ناگوار کیسے نہ ہوتا۔ سرور نے اس کا جواب لکھا اور مرصع و پرتصنع زبان میں لکھا۔تحسین کی” نو طرز مرصع“ کو بطور نمونہ سامنے رکھا۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق کا ارشاد ہے کہ پر تصنع نثر وہ لکھتا ہے جو سیدھی سادی آسان نثر نہیں لکھ سکتا۔

آج ہم باغ و بہار کو جدید اردو نثر کا سنگ بنیاد قرار دیتے ہیں لیکن سرور کے لکھنو میں زبان کی سادگی کو عجز بیان سمجھا جاتا تھا۔ رنگینی، عبارت آرائی، مشکل الفاظ کی بھرمار، قافیہ پیمائی، استعارہ اور تشبیہ کی کثرت عرضِ ہنر مانی جاتی تھی۔ چنانچہ سرور نے یہی راستہ اپنایا۔ باغ و بہار کا جواب دینے کے لیے یہ سب ضروری بھی تھا۔ میر امن نے درپردہ اہل لکھنؤ پر جو چوٹ کی تھی فسانہ عجائب کے دیباچے میں اس کا بدلہ بھی لے لیا گیا۔

نو طرز مرصع کی تقلید میں سرور نے” فسانہ عجائب“ میں دقیق و رنگین عبارت آرائی کو اپنا مطمع نظر بنایا، اور قافیہ آرائی کا اس پر اضافہ کر دیا۔ سرور نے زبان کے آغاز کی آراستگی کا حد سے زیادہ اہتمام کیا، مقفیٰ اور مسجع عبارت لکھی، عربی فارسی الفاظ کا کثرت سے استعمال کیا، استعارہ تشبیہ سے بہت کام لیا، جا بجا اشعار پیش کیے اور اکثر موقعوں پر رعایت لفظی، صنائع لفظی و معنوی سے عبارت کو بالکل مصنوعی بنا دیا۔

نتیجہ یہ کہ” فسانہ عجائب“ کی زبان بہت ہی بوجھل ہو گئی اور بیشتر مقامات کا سمجھنا دشوار ہو گیا۔ رموز اوقاف اور اضافتیں لگانے کے بعد ہی عبارت کو پڑھنا ممکن ہے اور وہ بھی رک رک کر۔ طرز بیان ہی اس کتاب کی سب سے اہم خصوصیت ہے۔ نمونے کے طور پر اس کی چند سطریں یہاں پیش کی جا رہی ہیں مگر اس طرح توڑ توڑ کر کہ اسٹائل کی خصوصیات واضح ہو جائے:

” عجب شہر گلزار ہے۔ ہر گلی کوچہ دل چسپ باغ و بہار ہے
ہر شخص اپنے طور پر باوضع قطع دار ہے
دو رویہ بازار کس انداز کا ہے
ہر دکان میں سرمایہ نازو نیاز کا ہے“۔

اس زمانے کے لکھنو میں یہ انداز بیان خاص و عام میں مقبول تھا۔ لوگ اسے شوق سے پڑھتے اور سنتے تھے۔ جس طرح آج مشاعروں میں شعروں پر داد دی جاتی ہے اسی طرح فسانہ عجائب کے جملوں پر واہ واہ کا غلغلہ بلند ہوتا تھا مگر آج اس زبان کا پڑھنا اور سمجھنا مشکل ہے۔

سرور سہل زبان لکھنے پر بھی قادر تھے مگر اسے کسر شان خیال کرتے تھے۔ فسانہ عجائب کے بعض حصے آسان اور دلکش زبان میں ہیں مثلاً بندر کی تقریر جس میں دنیا کی بے ثباتی کا بڑا پر اثر بیان ملتا ہے یا چڑی مار کی گفتگو جو بالکل بول چال کی زبان میں ہے۔ جیوتشیوں کی گفتگو میں ہندی الفاظ کی کثرت ہے۔

فسانہ عجائب اپنے زمانے میں ایک بے حد مقبول کتاب رہی ہے۔ لکھنؤ کے علاوہ دلی بھر کے سارے شمالی ہندوستان میں نصف صدی سے زیادہ عرصے تک اس کی پیروی کی جاتی رہی۔ انتہا یہ ہے کہ سرسید جو جدید اردو نثر کے بانی کہے جاتے ہیں انہوں نے١٨٤٧ء میں دہلی کی تاریخی عمارتوں پر اہم تحقیقی مواد جمع کیا اور ایک کتاب” آثارالصنادید“ تیار کی۔ اس کا پہلا ایڈیشن جو مولانا امام بخش صہبائی کے قلم سے لکھا گیا وہ سراسر فسانہ عجائب کی تقلید میں ہے مگر تکلف عبارت آرائی کا یہ کاروبار ماضی کی بھولی داستان کے ایک ورق کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔

ایک طلسمی داستان کی حیثیت سے فسانہ عجائب کو بہرحال ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اس میں ہر طرف جن، دیو، پریاں، جادوگر اور جادو گرنیاں نظر آتی ہیں۔ طلسمی باغ اور جادوئی قلعے بھول بھلیوں سے کم نہیں۔ کوئی ان میں پھنس جائے تو کسی پیر فقیر کی دستگیری کے بنا رہائی نہ پا سکے۔ بلاؤں میں گرفتار ہو جائے تو لوح اصلی سلیمانی یا اسم اعظم کے بغیر نجات نہ ملے۔

ایک اور جادو جابجا نظر آتا ہے۔ انسان کو جادو سے بندر، ہرن یا طوطا بنا دیا جاتا ہے۔ کبھی انسان کا آدھا جسم پتھر کا ہو جاتا ہے۔ یہ ساری چیزیں وہ ہیں جنہیں عقل تسلیم نہیں کرتی۔ اس لیے ان چیزوں کو فوق فطری عناصر کہا جاتا ہے اور ان کے بغیر داستان وجود میں نہیں آسکتی۔ داستانوں کے عروج کا زمانہ وہ تھا جب واقعات کو عقل اور سائنس کی کسوٹی پر نہیں پرکھا جاتا تھا۔ لوگ جادو ٹونے پر یقین رکھتے تھے۔ دیووں اور پریوں کو انسانی تخیل کی پیداوار نہیں بلکہ اصلیت سمجھا جاتا تھا۔ فسانہ عجائب کی مقبولیت کا راز صرف پر تکلف انداز بیان ہی نہیں بلکہ وہ طلسمی ماحول بھی ہے جس کی تفصیل اوپر پیش کی گئی۔

داستان در داستان فسانہ عجائب کی ایک اور خصوصیت ہے۔ اس خصوصیت کے بغیر کوئی داستان داستان کہلانے کی مستحق نہیں۔ طوالت داستان کے لیے ضروری ہے۔ قصے کو طول دینے کے لیے اس میں بہت سے ضمنی قصے جوڑ دیے جاتے تھے۔

یہ تکنیک سرور نے بھی اختیار کی۔ شاہ یمن کا قصہ، پسر مجسٹن کی کہانی اس کی مثالیں ہیں۔ فسانہ عجائب بے شک سرور کے دماغ کی پیداوار ہے لیکن ضمنی قصے اس زمانے کی مقبول داستانوں مثلاً داستان امیر حمزہ، پدماوت، نل ومن، بہاردانش، گلشن نو بہار وغیرہ سے مستعار لیے گئے ہیں۔

داستان کو طول دینے کے لیے قصے میں قصہ جوڑا جاتا ہے اس لیے داستان سے کسی مربوط پلاٹ کا تقاضہ نہیں کیا جاسکتا۔ یہی حال فسانہ عجائب کا ہے کہ اس میں کوئی گھٹا ہوا مربوط پلاٹ موجود نہیں۔