داستان کی تعریف، اجزائے ترکیبی

0

موجودہ زمانہ بھاگم بھاگ کا دور ہے زندگی بہت تیز رفتار ہوگئی ہے ورنہ قصہ سننا اور سنانا انسان کا پسندیدہ مشغلہ رہا ہے۔مگر آج کی یہ تیز رفتار زندگی اس کی اجازت ہی نہیں دیتی۔کسی زمانے میں دن بھر کا تھکا ہارا انسان رات کو دوستوں کے حلقے میں بیٹھتا اور اپنی کہتا، دوسروں کی سنتا، جسے جو یاد ہو سناتا اور کوشش کرتا کہ توجہ کا مرکز بنا رہے۔قصے سے سے دلچسپ اور کونسی چیز ہوسکتی تھی اس طرح قصے نے جنم لیا۔دنیا کی دوسری ترقی یافتہ زبانوں کی طرح اردو میں داستانوں کا سراغ ابتدائی دور سے ہی ملتا ہے۔

جب داستان کو تحریر کا جمع پہنایا گیا تو آہستہ آہستہ اس کے خدو خال متعین ہو گئے۔داستان تاریخ ادب کا ایک ورق ہے اور اس کے اپنے تقاضے تھے جس کی تفصیل مندرجہ ذیل میں درج ہے۔

• پلاٹ

پلاٹ کا تصور داستان میں کس طرح ممکن ہے جبکہ قصے کو بے جا طور پر طول دیا جاتا تھا اور نل میں نل کی طرح قصے میں قصے کو جوڑ کر اسے شیطان کی آنت بنایا جاتا تھا۔ناول میں بھی ایک سے زیادہ کہانیاں ہوسکتی ہیں مگر ضروری ہے کہ انہیں پوری طرح ایک دوسرے میں پیوست کر دیا جائے لیکن اردو کی اکثر داستانوں میں پلاٹ کی کوئی خاص اہمیت دیکھائی نہیں دیتی اور نہ ہی داستان نگاروں نے اس کا خیال رکھا ہے اس لیے داستان سے پلاٹ کا مطالبہ نہیں کیا جاسکتا۔

• کردار نگاری

کردار نگاری کا تصوربھی داستانوں کے زمانے میں آج سے مختلف تھا۔آج وہ کردار پسند کیے جاتے ہیں جو ہر پہلو سے حقیقی زندگی کے کردار نظر آئیں ان میں وہ خوبیاں اور عیب پائے جائیں جو سچ مچ کے انسانوں میں ہوتے ہیں۔ مگر اس طرح کے کردار داستانوں کے لئے قطعاً ناموزوں تھے۔وہاں ضرورت تھی ایسے کرداروں کی جن کی انسان پرستش کر سکے، جن سے بے حد نفرت کرے، جن سے خوفزدہ ہو جائے یا کم سے کم جنہیں دیکھ کر اور جن کے کارنامے سن کر وہ حیرت میں پڑ جائے۔

ہماری داستانوں میں صرف اونچے طبقے کے لوگ یعنی شہزادے اور امیرزادے پیش کیے جاتے ہیں۔ “باغ و بہار” میں ایک سوداگر کے بیٹے کا قصہ ہے باقی تمام داستانوں میں بادشاہوں اور شہزادوں کا ذکر ہے۔پیشہ وار لوگ جسے خدمتگار، خواجہ سرا، چڑیمار، مغلانی اور مہترانی وغیرہ کے کردار ہماری داستانوں میں برائے نام ہیں۔”حاتم طائی” میں ایک پہیلیا، کچھ دہقاں،” باغ و بہار” اور “گل بکاؤلی” میں چند لکڑہارے۔ اصل کردار سب اونچے طبقے کے ہیں۔اونچے طبقے کے کرداروں کی پیشکش بھی ناقص اور یک رحی ہے۔ اگر کوئی نیک ہے تو شروع سے آخر تک نیک ہی رہے گا اور بد ہے تو وہ بھی آخر تک بد ہی رہے گا۔

غیبی امداد داستانوں کے کرداروں کو موقع ہی نہیں دیتی کہ ان کی اپنی صلاحیتیں بروئے کار آئیں۔خطرہ درپیش ہوتو سلمانی ٹوپی اوڑھ کر ہیرو دشمن کی نظر سے اوجھل ہوجاتا ہے،اژدھے گھیر لیں تو اپنا عصا زمین میں گاڑھ دیتا ہے جو تناور درخت بن جاتا ہے اور ہیرو اس پر چڑھ کر محفوظ ہو جاتا ہے۔

داستانوں کے کردار صرف انسان ہی نہیں بلکہ حیوان بھی ہیں اور عجیب و غریب مخلوق بھی۔یہاں دانا الو ہے، دانشمند بندر ہیں، واعظ طوطے ہیں، خوفناک اژدہے ہیں۔ایسی مخلوق ہے جو نصف انسان اور نصف حیوان ہے اور یہ سب بھی حسب معمول اپنا اپنا رول ادا کرتے ہیں۔

• مافوق الفطری عناصر

مافوق الفطری عناصر بھی داستان کی ایک خصوصیت ہے، صرف اردو میں ہی نہیں بلکہ تمام قدیم علمی ادب میں۔فاسٹ کی ڈوین کمیڈی، شیکسپیئر کے ڈرامے، ملٹن کی فردوس گم شدہ،فردوسی کا شاہنامہ، کالی داس کے ڈرامے، رامائن، مہابھارت۔ یہ تمام مافوق الفطرت عناصر سے پر ہیں اور یہی زمانے کی ریت رہی ہے۔

شاعری سے داستان کا بہت گہرا رشتہ ہے دونوں دورانسانی کا مداوا ہیں۔دونوں کا اصل مقصد خط اندوزی تفریح طبع اور وقت گزاری ہے، دونوں کی بنیاد جھوٹ پر ہے، دونوں میں تخیل کی کارفرمائی ہے،تخیل اور جھوٹ کے اسی امتزاج نے مافوق الفطری عناصر کو جنم دیا۔انسان کو اصلی زندگی میں جو کچھ میسر نہیں ہوتا اسے وہ خیالوں کی دنیا میں پانے کی کوشش کرتا ہے۔داستان گووں نے تخیل کے بل بوتے پر جن، پری، جادوگرنی جیسی مخلوق کو جنم دیا،طلسمی محلات تعمیر کیے، اسم اعظم، لوح نقش سلیمانی، سلیمانی ٹوپی، جادو کا عصا، جادو کا سرمہ وغیرہ جیسی چیزوں کے سارے خیر کی قوتوں کو شر کی قوتوں پر فتح پاتے دکھایا۔

یہاں جو کچھ ہے ناقابل یقین ہے جس سے لطف اندوز ہونے کا نسخہ کولرج کے نزدیک یہ ہے کہ “ذرا دیر کو اپنی خوشی سے بے یقینی کو بالائے طاق رکھ دیں”لیکن جب داستان کے فروغ کا زمانہ تھا تب ہمارے بزرگ ان سب چیزوں کو تسلیم کرتے تھے جناج عقل ماننے سے انکار کرتی ہے۔ لیکن آج سائنس کے زمانے میں بھی بہت سے لوگ مل جائیں گے جو ان چیزوں پر یقین رکھتے ہیں۔

• طوالت

ان چیزوں کے علاوہ طوالت بھی داستان کی اولین شرط ہوتی ہے۔کیونکہ داستانیں وقت گزاری کے لیے تھیں اور خالی وقت بے حساب تھا۔ راتوں کو بیٹھ کر عام آدمی سے لے کر بادشاہ تک داستان سنا کرتے تھے اور جہاں پہلی رات کو داستان چھوڑ دی جاتی تھی اگلی رات وہاں سے آگے سنایا جاتا تھا۔اس لئے ضروری ہوا کہ داستان طویل ہو۔ مشہور ہے کہ کسی بادشاہ نے یہ شرط رکھی تھی کہ اس لڑکی سے شادی کروں گا جو کبھی نہ ختم ہونے والا قصہ سنائے جس رات قصہ ختم اسی رات اس کا کام تمام۔لیکن اس کی داستان ایک ہزار ایک رات تک چلتی رہی اور یوں اس کی جان بچی۔

• معاشرت کی مرقع کشی

معاشرتی مرقع کشی بھی داستانوں کی ایک اہم خصوصیت ہے۔زمانے کا رہن سہن،ماحول، سماج وغیرہ یہ تمام چیزیں بھی داستانوں کا جز ہیں۔ اس کے علاوہ داستانوں میں کسی نہ کسی صورت میں اخلاقی درس بھی پوشیدہ ہوتا ہے اور عموماً اس کا انجام اچھوں کی کامیابی پر ہی ہوتا ہے۔