داستان رانی کیتکی کی کہانی کا خلاصہ

0

تعارف: انشا اللہ خان انشا

انشاء اردو کے دوسرے شاعروں کی طرح محض اک شاعر نہیں بلکہ اردو زبان کے ارتقائی سفر میں اک سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ محمد حسین آزاد نے ان کو اردو کا امیر خسرو کہا جبکہ ان کے بارے میں بیتاب کا یہ قول بھی مشہور ہے کہ” انشاء کے فضل و کمال کو ان کی شاعری نے کھویا اور ان کی شاعری کو سعادت علی خاں کی مصاحبت نے ڈبویا۔”

انشاء 1752ء کو مرشدآباد میں پیدا ہوئے۔ یہ وہ وقت تھا جب بہت سے شاعروں کی روحیں زوال پذیر سلطنت دہلی سے دلبرداشتہ ہو کر مرشدآباد یا عظیم آباد میں جسد خاکی اختیار کرتی تھیں۔ یہ خاندان نجف اشرف سے اور بعض دوسری روایات کے مطابق سمرقند سے ہجرت کرکے دہلی میں آباد ہوا تھا اور طبابت میں اپنی غیرمعمولی صلاحیت کی بنا پر دربار شاہی سے منسلک تھا۔

انشاء کے والد سید ماشاءللہ دہلی کی زبوں حالی کو دیکھتے ہوے مرشدآباد چلے گئے، انشاء نے ۱۷۸۶ء میں دہلی کا رخ کیا۔جب انشاء دہلی پہنچے، بڑے بڑے شاعر، سودا، میر، جرات، سوز وغیرہ دہلی کو چھوڑ کر عیش و نشاط کے نو دریافت جزیرے لکھنؤ کا رخ کر چکے تھے۔یہ لوگ انشاء کو نووارد لونڈا سمجھتے تھے اور انہیں خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ ایسے میں لازم تھا کہ انشاء ان کو ان کی اوقات بتائیں اور یہیں سے انشاء کی ادبی معرکہ آرائیوں کا وہ سلسلہ شروع ہوا کہ انشاء کو اپنے سامنے سر اٹھانے والے کسی بھی شخص کو دو چار زور دارپٹخنیاں دئے بغیر چین نہیں آیا۔

دہلی میں انشاء کا پہلا معرکہ مرزا عظیم بیگ سے ہوا۔ لیکن دہلی انہیں راس نہ آئی اور وہاں سے رامپور چلے گئے، سلیمان شکوہ اور پھر بعد میں سعادت علی خان کے دربار سے وابستہ ہو گئے اور ایک لمبے عرصے تک یہاں قیام کیا۔ چونکہ انشاء فطرتاً ظریف اور زندہ دل شخصیت کے مالک تھے اپنے مذاق اور شوخی ہی کی وجہ سے سعادت علی خان کے دربار سے ۱۸۱۰ء میں نکالے گئے۔ انشاء نے اپنی زندگی کے آخری ایام تنگ حالی اور غربت میں بسر کی، ۶۳ سال کی عمر پاکر ۱۸۱۷ء میں انشاء اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔

انشاء جتنے بڑے شاعر تھے اتنے ہی بڑے نثرنگار بھی۔ آپ نے نثر میں تین کتابیں تحریر کیں جن میں دو یعنی “دریائے لطافت” اور “رانی کیتکی کی کہانی” کو بے انتہا مقبولیت حاصل ہوئی۔ تیسری تصنیف ”سلک گوہر“ بھی اپنے آپ میں ایک الگ پہچان رکھتی ہے۔ یہ کتاب غیر منقوط ہے۔ شاعری میں طرح طرح کے لسانی تجربات کے ساتھ انکا سب سے بڑا کارنامہ کسی ہندوستانی کی لکھی ہوئی اردو گرامر کی اولین کتاب “دریائے لطافت” ہے جو قواعد کی عام کتابوں کی طرح خشک اور بے مزا نہ ہو کر کسی ناول کی طرح پر لطف ہے جس میں مختلف کردار اپنی اپنی بولیاں بولتے سنائی دیتے ہیں۔ ان کی دوسری اہم کتاب “رانی کیتکی کی کہانی” ہے جس میں عربی فارسی کا ایک بھی لفظ استعمال نہیں ہوا ہے۔ اگر انشاء کے ادبی رویہ کو ایک جملہ میں بیان کرنا ہو تو کہا جا سکتا ہے کہ انشاء کسی بھی روایت یا عصری روش کا اتباع اپنے لئے حرام سمجھتے تھے اور ہمیشہ کچھ ایسا کرنے کی دھن میں رہتے تھے جو پہلے کبھی کسی نے نہ کیا ہو۔

داستان رانی کیتکی کی کہانی کا خلاصہ

تعارف:

انشاءللہ خاں انشا کی داستان “رانی کیتکی کی کہانی” اردو کی مشہور داستان ہے۔انشاء نے اس داستان میں خالص ہندوستانی زبان کا استعمال کیا ہے۔’’رانی کیتکی کی کہانی‘‘ شاید اردو زبان کی پہلی ایسی داستان ہے جس میں مکمل طور پر ہندوستانی زبان کا استعمال کیا گیا ہو، پوری داستان میں شاید چند الفاظ ہی ایسے ہیں جو کسی اور زبان کے ہوں۔

انشاء نے قصے کا انتخاب بھی ایسا ہی کیا ہے جس سے ہندوستانی زبان کے استعمال میں کوئی دقت پیش نہ آئے، اسی وجہ سے قصے کا مرکز ہندوستان ہے اور اس میں ہندوستانی راجاؤں، ریشی مونیوں، مہارانی اور دیوی دیوتاؤں، ذات پات اونچ نیچ کی باتیں وغیرہ سب کا ذکر ملتا ہے۔

کردار:

  • رانی کیتکی کے کرداروں کی بات کی جائے تو اس کے کرداروں میں درج ذیل کردار شامل ہیں۔
  • رانی کیتکی: کنور اودے بھان کی معشوقہ ہے اور اس قصے کی ہیروئن ہے۔
  • کنور اودے بھان: سورج بھان کا بیٹا جس کی کیتکی کی شادی ہوتی ہے۔
  • سورج بھان: کنور اودے کا باپ۔
  • لکشمی بان: سورج بھان کی بیوی اور کنور اودے کی ماں۔
  • جگت پرکاش: کیتکی کا باپ۔
  • رانی کام لتا: جگت پرکاش کی بیوی اور کیتکی کی ماں۔
  • مدن بان: کیتکی کی سہیلی جس کا کردار ایک باہمت،وفادار سہیلی کی شکل میں سامنے آتا ہے۔
  • مہندر گر: جگت پرکاش کا گرو جو جادو کی مدد سے کنور اودے اور اس کے لشکر کو ہرن کی شکل میں تبدیل کر دیتا ہے۔
  • کیلاس: ایک پہاڑی کا نام جہاں مہندر گر رہتا ہے۔

خلاصہ:

اگر اس داستان کی کہانی کی بات کی جائے تو قصہ کچھ یوں ہے کہ سورج اودے بھان کا اکلوتا بیٹا کنور اودے بھان ایک دن گھوڑے پر سوار ہو کر جنگل کی طرف شکار کی غرض سے نکلا۔ راستے میں اسے ایک ہرنی نظر آئی کنور اودے بھان نے اس کے تعاقب میں اپنے گھوڑے کو دوڑا دیا۔ ہرنی کا پیچھا کرتے کرتے شام ہو گئی اور کنور اودے اپنے ساتھیوں سے جدا ہو گیا۔ بھوک پیاس سے پریشان کنور اِدھر اُدھر گھومنے لگا، تھوڑی دور پر اسے آم کا ایک باغیچہ نظر آیا جب وہ قریب پہنچا تو دیکھتا ہے کہ لڑکیوں کا ایک جھنڈ وہاں جھولا جھول رہا ہے۔

کنور کو دیکھ کر تمام لڑکیوں نے گھبراہٹ میں چلانا شروع کیا۔ شور سن کر رانی کیتکی بھی جو ان کے ساتھ تھی متوجہ ہوئی۔ پہلی ملاقات میں ہی دونوں ایک دوسرے کو دل دے بیٹھے، مگربناوٹی ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے رانی نے کنور کو چلے جانے کا حکم دیا۔کنور نے بہت منت و سماجت کی اور وہاں شب باشی کی اجازت طلب کی۔ رانی بے رخی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی سہیلیوں سے مخاطب ہو کر گویا ہوئی کہ اسے کہہ دو جہاں جی چاہے پڑا رہے اور جو کچھ کھانے پینے کو مانگے اسے دے دیا جائے۔

اجازت پا کر کنور نے ایک طرف اپنا بستر لگا لیا،مگر رانی کے خیال نے اس کی آنکھوں سے نیند کو اچک لیا تھا۔ دوسری طرف رانی کے دل کی کیفیت بھی کچھ مختلف نہ تھی۔ رانی نے اپنی سہیلی مدن بان سے اس کیفیت کا اظہار کیا۔ مدن بان نے رانی کیتکی کا تعارف کنور اودے سے کرایا۔ معمولی شناسائی کے بعد رانی نے کنور سے کہا اپنے بارے میں کچھ بتاؤ، تم کون ہو؟ کہاں سے آئےہو؟ کنور نے اپنے بارے میں سب کچھ بتا دیا، اس کے بعد دونوں نے اپنی انگوٹھی کا تبادلہ کیا۔

صبح کیتکی اپنی سہیلیوں کے ساتھ محل لوٹ گئی اور کنور اودے پنے گھر لوٹ آیا۔کیتکی سے جدا ہو کر کنور کی حالت دگر گوں ہونے لگی، کھانا پینا ترک کر کے ہمہ وقت اداس و رنجیدہ رہتا۔ کنور کی اس حالت کی خبر جب اس کے باپ سورج بھان کو پہنچی تو اس نے کنور سے سبب دریافت کرنے کی کوشش کی، باربار اصرار کرنے پر وہ اسے لکھ کر بتانے پر راضی ہوا اور سارا حال بیان کر دیا۔

احوال سے باخبر ہو کر سورج بھان نے کیتکی کے والدین کو شادی کا پیغام بھیجوایا لیکن کیتکی کے والد نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ ہماراور ان کا کوئی جوڑ نہیں وہ ہمارے برابری کے لایق نہیں، صرف اسی پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ سورج بھان کے قاصد کو بھی گرفتار کر لیا۔جب یہ خبر سورج بھان تک پہنچی تو اس نے فوراً جگت پرکاش کے ملک پر چڑھائی کر دی، ایک خونریز جنگ ہوئی قریب تھا کہ جگت پرکاش کو شکست ہو جاتی، تبھی کیتکی اپنے باپ کے معاونت کیلئے اپنے گرو مہندر گر کو بلاتی ہے۔

مہندر گر جادو کی مدد سے سورج بھان، کنور اودےبھان، لکشمی بان اور ان کے لشکر کو ہرن کی شکل مین تبدیل کر دیتا ہے۔ سورج بھان کے لشکر کو بری طرح شکست ہوتی ہے۔مہندر گر روانہ ہوتے وقت کیتکی کے باپ جگت پرکاش کو ایک بھبھوت دیتا ہے، جس کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ اس کو آنکھوں پر لگانے والا لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے لیکن وہ سب کو دیکھ سکتا ہے۔

اِدھر کنور اودے کی جدائی میں کیتکی ہمیشہ رنجیدہ و ملول رہتی ہے۔ ایک دن وہ آنکھوں میں بھبھوت لگا کر کنور کو تلاش کرنے جنگل کی طرف نکل جاتی ہے۔ کیتکی کی گمشدگی کی خبر پاکر اس کا باپ بہت پریشان ہوتا ہے۔ کیتکی کے باپ(جگت پرکاش) کی پریشانی کو دیکھ مدن بان کیتکی کو تلاش کرنے نکلتی ہے اور تلاش کر لیتی ہے۔کیتکی کی اس حرکت سے ڈر کر جگت پرکاش مہندر گر اور راجہ اندر کی مدد طلب کرتا ہے تاکہ کنور اودے اور اس کے ماں باپ تلاش کیے جائیں۔ مہندر گر دوبارہ جادو کی مدد سے ان کو تلاش کر کے انسانی شکل میں واپس لاتا ہے۔ کنور اودے کی شادی کیتکی سے کر دی جاتی ہے، اس طرح یہ قصہ اختتام کو پہنچتا ہے۔

داستان “رانی کیتکی کی کہانی” کا اسلوب:

انشا کی “رانی کیتکی کی کہانی” بنیادی طور پر ایک داستان ہے۔ ناول کی طرح داستان میں کوئی طے شدہ پلاٹ نہیں ہوتا ہے۔ جہاں تک رانی کیتکی کی کہانی کے پلاٹ کی بات ہے تو اس کا پلاٹ سادہ اور سپاٹ ہے،اور کسی داستان یا کہانی سے ماخوذ نہیں ہے۔کہانی بالکل سیدھے سادے انداز میں بیان ہوئی ہے۔اس داستان میں آغاز،وسط، نقطئہ عروج اور انجام بھی ہے اور کہانی پن ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں ارتقا بھی پایا جاتا ہے۔

انشاء اللہ خاں انشا کی رانی کیتکی کی کہانی میں دو کردار زندہ ٔجاوید ہیں،ایک اس کہانی کا ہیرو کنوراودے بھان اور دوسری اس کی ہیروئن رانی کیتکی، ان دونوں کرداروں کے علاوہ کوئی اور زندہ یا بھر پور کردار نظر نہیں آتا،البتہ ضمنی کرداروں میں ایک اہم نام مدن بان کا ہے جو رانی کیتکی کی سہیلی اور ہم راز ہے۔

رانی کیتکی کی کہانی میں قصہ ہندوانی ہے اور انشاء اللہ خاں انشا نے ہندوتہذیب ومعاشرت کا بھرپور مطالعہ ومشاہدہ کیا تھا، یہی وجہ ہے کہ کہانی میں جگہ جگہ اس کا عکس صاف طور پر نظر آتا ہے۔انشاکے عہد کا سماج بھی ذات پات، بھید بھاؤ اور اونچ نیچ کے بندھن میں بندھا ہوا تھا، جس کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب سورج بھان، راجہ جگت پرکاش کے پاس رانی کیتکی کا ہاتھ مانگنے کے لیے ایک برہمن کو بھیجتے ہیں۔اس عہد میں شادی بیاہ کی جو رسم تھی اسے بھی انشا نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ اس کہانی میں پیش کیا ہے اور اس موقع پر استعمال ہونے والے محاورات اور عورتوں کے مخصوص طبقے کی زبان کو انھوں نے بھر پور طریقے سے کہانی میں استعمال کیا ہے،جس سے وہ پورا عہد آنکھوں کے سامنے پھر جا تا ہے۔

انشا نے جس وقت یہ کہانی لکھی وہ کہانیوں کا ابتدائی دور تھا اس لیے اس میں جو کچھ پیش کیا گیا ہے ان کا اپنا تجربہ ہے جو منفرد اور جداگانہ ہے۔رانی کیتکی کی کہانی میں مقفیٰ و مسجع عبارت کی جلوہ گری ہے اور کئی مقامات پر اس طرح کی عبارتیں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔انشاء اللہ خاں انشا کی زبان دانی کے تعلق سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ انھیں نہ صرف ہندوستانی زبانوں پر عبور حاصل تھا بلکہ وہ عربی و فارسی زبان کے بھی عالم تھے،ترکی اور ہندی زبان میں بھی اچھی دستگاہ رکھتے تھے۔

رانی کیتکی میں انھوں نے بہت سارے لفظوں کا ترجمہ اس طرح کیا ہے کہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ یہ ترجمہ ہیں۔رانی کیتکی کی کہانی نثری داستان ہے،لیکن انشاء اللہ خاں انشا نے اس کہانی میں بعض مقامات پر دوہے وغیرہ بھی لکھے ہیں۔شاعری دوہے کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بھی انشا نے اپنے فن کا جوہر دکھایا ہے،یہ الگ بات ہے کہ جو شاعری اس کہانی میں شامل کی گئی ہے وہ بہت بلند پایہ یا معیاری شاعری نہیں کہی جاسکتی، لیکن بیشتر مقامات پر اشعار یا دوہے موقع و محل کے حساب سے استعمال ہوئے ہیں اور متعلقہ جگہ کے لیے بالکل مناسب اور بر محل ہیں۔

رانی کیتکی کی کہانی میں انشا نے یہ التزام کیا ہے کہ اس میں ہندوی یا ہندوستانی کے علاوہ غیر زبان مثلاعربی و فارسی وترکی وغیرہ کے الفاظ شامل نہ ہوں۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو رانی کیتکی کی کہانی براہ راست کسی قدیم سنسکرت کہانی کا ترجمہ نہیں ہے، مگر جن اجزا و عناصر سے اس کہانی کا خمیر اٹھا ہے وہ فکشن کی اسی قدیم ہندی روایت سے ماخوذ ہیں۔

انشا نے جس وقت یہ کہانی لکھی وہ کہانیوں کا ابتدائی دور تھا اس لیے اس میں جو کچھ پیش کیا گیا ہے ان کا اپنا تجربہ ہے جو منفرد اور جداگانہ ہے۔رانی کیتکی کی کہانی میں مقفیٰ و مسجع عبارت کی جلوہ گری ہے اور کئی مقامات پر اس طرح کی عبارتیں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔مثلاً:
’’جس نے ہم سب کو بنایا اور بات کی بات میں وہ کر دکھایا جس کابھید کسی نے نہ پایا۔‘‘
مجموعی طور پر یہ داستان جہاں ہمیں قدیم اردو ادب،طرز تہذیب ومعاشرت اور رواج و رسومات وغیرہ سے آگاہ کرتی ہے وہیں اس کا مطالعہ ہمیں دلچسپی کا سامان بھی فراہم کرتا ہے۔