سب رس کا خلاصہ

0

داستان کا آغاز اس طرح ہوتاہے کہ ملک سیستان کا بادشاہ عقل جس کا بیٹا دل رہتا ہے۔ دل جوان ہو کر ملک تن پر حکومت کرتاہے۔ ایک روز کسی سے آب حیات کے بارے سنتا ہے اور اسے پانے کیلئے بے قرار ہو اٹھتا ہے۔ دل کے کہنے پر اس کا جاسوس نظر آب حیات کی جستجو میں نکل پڑتا ہے۔ نظر آب حیات کی تلاش میں شہر عافیت کے بادشاہ ناموس پھر زہد پہاڑی پر رہنے والے زرق نامی بوڑھے سے ملتا ہوا جب ہدایت قلعے کے بادشاہ ہمت سے ملتاہے،تب اس پر یہ راز منکشف ہوتا ہے کہ مشرق میں ایک ملک ہے، جس کی حکمرانی حسن نام کی ایک حاتون کرتی ہے، جو عشق کی بیٹی ہے۔

اس کے شہر دیدار میں رخسار نام کا ایک باغ ہے،جس میں دہن نام کا ایک چشمہ ہےجو آب حیات کا اصل سرچشمہ ہے۔ مگر آب حیات تک پہنچنے کیلئے شہر سگ سار کے بادشاہ رقیب کو جل دینا پڑتاہے، جو ایک نہایت ہی مشکل ترین کام ہے۔شہر سگسار پہنچ کر نظر رقیب کو بہت سارا سونے کا لالچ دیکر باغ رخسار تک پہونچانے پر آمادہ کرتاہے، رقیب سونے کے لالچ میں اس کام پر آمادہ ہوجاتاہے۔دونوں ایک بلند مقام پر پہونچتے ہیں،جہاں سے شہر دیدار دکھائی دیتاہے۔ یہیں ہمت کے بھائی قامت سے نظر کی ملاقات ہوتی ہے۔

نظر چپکے سے ہمت کا سفارشی خط قامت کو دے دیتاہے۔ چنانچہ قامت کے اشارے پر سیم ساق موقع پاتے ہی نظر کو چھپا دیتاہے۔ نظر کو نہ پاکر رقیب تھک ہار کراپنے وطن شہر دیدار لوٹ آتاہے۔رقیب سے پیچھا چھڑاکر نظر شہر دیدار آتا ہے، یہاں اس کی ملاقات حسن کی سہیلی لٹ(زلف) اور شہزادی کے خادم غمزہ سے ہوتی ہے۔ نظر کو پتہ چلتاہے کہ غمزہ اس کا بچھڑا ہوا بھائی ہے۔ غمزہ نظر کو جواہری بتا کر شہزادی سے ملواتا ہے۔

شہزادی حسن نظر کو ایک باتصویر ہیرا دکھاکر پوچھتی ہے کہ اس پر کس کی تصویر ہے۔ نظر تصویر دیکھ کر پہچان لیتاہے اور بتاتا ہے کہ یہ دل بادشاہ کی تصویر ہے۔ شہزادی دل سے ملنے کی حواہش ظاہر کرتی ہے۔ اور اپنے غلام خیال کو نظر کے ساتھ لگا دیتی ہے۔ نظر واپسی پر دل کو سارا قصہ ماضی سناتا ہے۔ دل تمام باتیں سن کر آمادہ سفر ہوجاتاہے۔ یہ بات دل کے وزیر وہم کو اچھی نہیں لگتی۔ وہم دل کے باپ عقل بادشاہ کو اس سے باخبر کر دیتاہے۔ عقل بادشاہ وزیر وہم کے کہنے پر نظر اور دل کو گرفتار کروا دیتا ہے۔

نظر شہزادی حسن کی دی ہوئی جادوئی انگوٹھی کی مدد سے اسے منہ میں رکھ کر لوگوں کی نگاہ سے اوجھل ہو کر جیل سے بھاگ جاتاہے۔ کئی روز چلنے کے بعد ایک دن وہ آب حیات تک پہونچ جاتا ہے۔ آب حیات پینے کیلئے جیسے ہی منہ کھولتاہے انگوٹھی اس کے منہ سے نکل کر چشمے میں چلی جاتی ہے۔ چشمہ نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے، اور نظر سب کو دکھائی دینے لگتاہے۔ نظر رقیب کے ہاتھوں گرفتار کر لیا جاتاہے۔

اس بار وہ حسن کی سہیلی لٹ کے دئے ہوئے بال کو جلا کر آزاد ہوتا ہے۔ اور غمزہ کی مدد سے دل کو بھی آزاد کروا لیتا ہے۔غمزہ اور نظر عقل کا معاون بن کر زرق کے بیٹے توبہ کو شکست دیکر شہر عافیت پہنچتے ہیں،اور وہاں کے بادشاہ ناموس کو شکست دیکر شہر تن کی جانب پیش قدمی کرتےہیں۔ دعائے سیفی کی مدد سے غمزہ اپنے سپاہیوں کو ہرنوں کے ریوڑ میں تبدیل کر دیتا ہے۔ توبہ شکست خوردہ عقل کے پاس آتا ہے اور غمزہ کی پیش قدمی کا حال بیان کرتا ہے۔

یہ سن کر عقل پریشان ہو جاتا ہے اور دل کو یہ نصیحت کرتے ہوئے آزاد کر دیتا ہے کہ عورت کی ذات بہت مکار ہوتی ہے۔ کیا معلوم حسن بھی تمہارے ساتھ دغا کرے، اگر شہر دیدار کا خیال ہے تو فوج لیکر جاؤ۔ باپ کے مشورے کے مطابق دل فوج لیکر چل پڑتا ہے۔دوسری طرف حسن بھی اپنے باپ سے بذریعہ خط مدد طلب کرتی ہے۔ چنانچہ عشق کا سپہ سالار مہر جفا، مشقت اور درد حسن کی مدد کوآتے ہیں۔ حسن غمزہ کے مشورے پر اپنی بہن کو بھی کوہ قاف سے بلوا لیتی ہے۔ اس جنگ میں عقل بھی شرکت کرتا ہے، لیکن وہ شکست کھا کر بھاگ کھڑا ہوتاہے۔ دل گرفتار کر لیا جاتاہے۔ حسن اپنی دائی ناز کے مشورے کے مطابق دل کو چاہ ذقن میں ڈلوا دیتی ہے۔

ایک دن رقیب کی بیٹی غیر بزور جادو حسن کی صورت اختیار کر کے دل سے ملتی ہے، حسن دونوں کو ایک ساتھ دیکھ کر اپنے معشوق دل کو بے وفا سمجھ کر اسے قید خانے میں ڈلوا دیتی ہے۔ موقع پاتے ہی رقیب دل کو وہاں سے غائب کر کے قلعہ ہجراں میں نظر بند کر دیتا ہے۔ غیر کو اپنے کئے پر شرمدنگی ہوتی ہے، اور صحیح صورت حال سے حسن کو باخبر کرتی ہے۔ سچ جان کر حسن دل کے پاس معافی نامہ ارسال کرتی ہے، گلے شکوے دور کرکے دونوں ایک دوجے کے ہو جاتے ہیں۔

ادھر عقل کے شکست خوردہ سپاہی ہمت اپنی طاقت مجتمع کر کے انتقام لینے کے ارادے سے شہر دیدار پر حملہ آور ہوتا ہے۔ لیکن آپسی سمجھوتے سے عشق اور عقل میں صلح ہو جاتی ہے۔ عقل عشق کا وزیر بن جاتا ہے۔حسن اور دل کی شادی ہو جاتی ہے۔ دونوں خوشی خوشی زندگی بسر کرنے لگتے ہیں۔ ایک روز آب حیات کے چشمے پہ نظر،ہمت اور دل کی ملاقات حضرت خضر سے ہوتی ہے۔ دل حضرت خضر سے دعائیں لیتاہے، دل کے کئی بیٹے ہوتے ہیں،جس میں بڑا بیٹا بقول وجہی یہ کتاب(سب رس) ہے۔ ملّا وجہی لکھتے ہیں’’ دل کوں فرزنداں ہوئے، فرزنداں خرد منداں ہوئے، اس فرزنداں میں کا بڑا فرزند سو یو کتاب، لایق قابل مستید ہر بات‘‘۔