سب رس ایک تمثیل ، سب رس کا اسلوب

0

سب رس ایک تمثیل:

تمثل ایک تکنیک ہے جس کا انگریزی مترادف “الیگری” ہے۔ جو دو یونانی لفظوں “ایلوس” اور “ایلوگری” سے لیا گیا ہے۔ گویا تمثیل کے کرادر دراصل کسی اور کے نمائندے ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر گیان چند جین تمثیل کو ان لفظوں میں بیان کرتے ہیں کہ:
“تمثیل خالص معنوی فن ہے۔ تمثل کو بیان کی ایک تکنیک ایک صفت کہہ سکتے ہیں۔۔۔۔ تمثیل استعاروں کی ایک زنجیر ہوتی ہے۔ تمثیل اور استعارے میں فرق یہ ہے کہ استعارہ محض ایک شعر یا ایک جملے میں ہوتا ہے جبکہ تمثیل کہیں زیادہ مفصل ہوتی ہے.”

سب رس بنیادی طور پر ایک تمثیل ہے بلکہ محققین کے نزدیک یہ اردو کی پہلی مکمل تمثیل ہے۔سب رس کے تمام کردار مثالی ہیں۔ جیسے کہ عقل ، دل ، حسن عشق وغیرہ مجرد اوصاف کی تجسیم ہیں۔ مجموعی طور پر سب رس ایک صوفیانہ تمثیل ہےاس کے کرداروں کے نام نہایت دلچسپ ہیں اور صفات و کیفیات کو بڑی خوبی سے اشخاص کے روپ میں ڈھال کر قصہ بیان کیا گیا ہے۔

سب رس کا اسلوب:

ملا جہی نے سب رس کے دیباچے میں خود لکھا ہے کہ
آج لگن کوئی اس جہان میں ہندوستان میں ہندی زباں سوں۔ اس لطافت میں اس چھنداں سوں نظم ہور نثر ملا کر گلاں نئیں بولیاں۔
فرہاد ہو کر دونوں جہاں سے آزاد ہو کر دانش کے تیشے سوں پہاڑاں الٹایا تو یو شیریں پایا.
یو عجب نظم ہور نثر ہے جانو بہشت کا قصر ہے.

یہ محض بلند بانگ دعوے نہیں ہیں بلکہ حقیقت ہے ملاوجہی کے ایک ایسا طرز بیاں اُردو نثر میں ایجاد کیا ہے جس کی مثال نہ اس سے قبل ملتی ہے نہ اس کے بعد گویا وہ اپنے مخصوص اسلوب کا موجد بھی ہے اور خاتم بھی ہے وجہی کی اس خصوصیت کا اعتراف ڈاکٹر سید عبد اللہ نے ان الفاظ میں کیا ہے۔ ” اس میں کچھ شبہ نہیں کہ اُردو نثر کو نئی زندگی دینے میں اولیت کا شرف وجہی کو حاصل ہے۔ اس سے پہلے نثر کی معلوم کتابوں کو اظہار کی نا تمام جرت تو کہا جا سکتا ہے لیکن ادبی اسلوب کی سنجیدہ نوعیت کو نہیں سمجھا جا سکتا۔

وجہی نے شعوری طور پر ایک ایسا اسلوب ترتیب دیا ہے جس میں ہندی گوالیاری اور دکنی تینوں زبانوں کے الفاظ شامل ہیں اس زبان کو وہ ہندی زبان کا نام دیتا ہے۔ وجہی کو یہ بات بھی معلوم ہے کہ کون سے الفاظ دکن کے ہیں۔ کون سے گوالیاری یا ہندوستانی زبان کے ہیں لیکن ان سب کو ملا کر وہ جس زبان کو پیش کر رہا ہے اسے وسیع تر ہندوستان میں سمجھے جانی وال ہمہ گیر اور عام فہم زبان قرار دیا جا سکتا ۔ ہے اس کے علاوہ وہ جگہ جگہ فارسی محاورے اور ضرب الامثال اور عربی الفاظ کے ذریعے اپنی نثر میں ادبیت پیدا کرتا ہے جہاں کہیں انہوں نے فارسی میں کوئی فقرہ یاجملہ دیا ہے ساتھ ہی اُس کا ترجمہ کر دیا ہے تاکہ پڑھنے والے کو دقت نہ ہو اور قاری مفہوم سے آشنا ہو سکے ۔ مثلاًکہ جملہ دیکھیں۔

“صحبت کہ بعزت نہ بود، دوری بہ جان” ( عزت ناچے گی واں کیا سواد دے گا جینا)
سب رس اپنے دور کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ اسلوب میں لکھی گئی ہے ملاوجہی نے اپنی ذہانت اور علمیت سے سب رس کو شگفتگی عطا کی ہے اس کے اسلوب کی خصوصیات میں علمیت اور ادبیت کے علاوہ مقامیت بھی شامل ہے یہی وجہ ہے کہ سب رس کے مطالعے کے دوران جا بجا مقامی چھوٹی زبانوں کے الفاظ، اقوال، اشعار، مصرعے اور کہاوتیں وغیرہ بلا تکلف استعمال ہوئی ہیں سب رس کے اسلوب کو ہندوستان کا نمائندہ اسلوب کہا جا سکتا ہے۔