اردو کا پہلا ڈرامہ

0

اردو کا پہلا ڈرامہ؛
رادھا کنھیا(1842)
یا
اندر سبھا (1852)

ڈاکٹر سید مسعود حسن رضوی ادیب کی تحقیق کے حوالے سے؛-

عام طور سے اردو ادب میں ڈراما رادھا کنھیا اور اندر سبھا کو لیکر کافی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں بلکہ بہت سے مصنفین نے ان کے متعلق بہت سی غلط بیانیاں اپنی کتابوں میں جمع کر ڈالی ہیں جو ہمے اور شک و تردد کے دلدل میں ڈھکیل دیتی ہیں جن کا نہ تو ان ڈراموں سے مطلب ہے اور ناہی کوئی حقیقت بیانی ہے پر یہاں صرف رادھا کنھیا کو اردو کا پہلا ڈراما ثابت کرنا مقصود ہے کس مصنف نے کیا لکھا ہے اس تفصیل سے سروکار نہیں۔
اردو ادب میں مسعود حسن رضوی واحد ایسے  شخص ہیں جنہوں نے بڑی تحقیق و جستجو اور عرق ریزی سے ان ڈراموں حقائق و نتائج اپنی کتاب(لکھنو کا شاہی اسٹیج،لکھنو کا عوامی اسٹیج) میں واضح کیے ہیں جو حقیقتا ایک امر مستحسن ہے اور لائق داد و دہش کا سزاوار ہے جو ان کے محققانہ طرز ادا کو واضح کرتا ہے ابراھیم یوسف لکھتے ہیں: کہ “محترم سید مسعود حسن رضوی ادیب نے ‘اردو ڈراما اور اسٹیج(شاہی اور عوامی اسٹیج) لکھ کر اردو ڈرامے پر جو احسان کیا ہے اس کو اردو دنیا نہ تو فراموش کر سکتی ہے اور نہ بار احسان سے سبکدوش ہو سکتی ہے”
(اردو ڈرامے کی تنقید کا جائزہ: ابراھیم یوسف ص 38)

یہاں میں نے مسعود حسن رضوی اور ان کے موافق دوسرے مصنفوں کی کتابوں سے اقتباس چینی کی ایک  نا کام کوشش کی ہے۔

حقیقت تو یہی ہے کہ اردو کا پہلا ڈراما رادھا کنھیا ہی ہے جس کی وضاحت درجہ ذیل ہے۔۔۔

مسعود حسن رضوی ادیب لکھتے ہیں: کہ “عام طور سے لوگ امانت کو اردو کا پہلا ڈراما نگار اور ان کی اندر سبھا کو اردو کا پہلا ڈراما سمجھتے رہے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ اردو کا پہلا ڈراما لکھنے اور کھیلنے اور اردو ڈراما کے لیے پہلا تھیٹر تعمیر کرنے کا فخر اودھ کے آخری بادشاہ سلطان عالم واجد علی شاہ کو حاصل ہے۔۔
(لکھنو کا عوامی اسٹیج:امانت اور اندر سبھا دیباچہ ص10)

مسعود حسن ادیب نے  آگے چل کر اپنی دوسری کتاب میں اس کی مزید وضاحت کی مسعود حسن رضوی لکھتے ہیں: کہ “انہوں نے اپنی ولی عہدی کے دنوں میں رادھا کنھیا کی داستان محبت پر مبنی ایک چھوٹا سا ناٹک لکھا، جو ہماری خوش قسمتی سے اب تک موجود ہے۔ فنی اعتبار سے اس کا درجہ کچھ بھی ہو، اردو کا پہلا ڈراما ہونے کی حیثیت سے وہ بڑی اہمیر رکھتا ہے”۔۔
(لکھنو کا شاہی اسٹیج؛مسعود حسن رضوی صفحہ 21)

مسعود حسن رضوی ادیب اپنے مضمون ‘اردو ڈراما اور دربار اودھ’ میں لکھتے ہیں: کہ “بہت سے لوگ امانت کی اندر سبھا کو اردو کا پہلا ڈراما سمجھتے رہے ہیں ، مگر یہ بھی صحیح نہیں ہے ‘اندر سبھا’ کے وجود میں آنے سے پہلے واجد علی شاہ نے تین ڈرامے لکھے اور کھیلے جا چکے تھے۔۔ خود امانت نے اندر سبھا کے مقدمے میں اقرار کیا ہے کہ انہوں نے یہ ناٹک شاہی رھس کے طور پر لکھا”۔۔
(رسالہ آجکل ڈراما نمبر 06 صفحہ 36)

ڈاکٹر قمر رئیس لکھتے ہیں: کہ “مسعود حسن رضوی ادیب نے واجد علی شاہ کو اردو کا پہلا ڈراما نگار اور ان کی تصنیف ‘رادھا کنھیا’ کو اردو کا پہلا ڈراما قرار دیا ہے”۔۔
(اردو ڈرامہ؛قمر رئیس صفحہ 30)

ڈاکٹر اے بی اشرف لکھتے ہیں: کہ “یہ بات دلائل سے پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ اردو کا پہلا ڈراما واجد علی شاہ اختر کا لکھا ہوا رھس رادھا کنھیا ہے، یہ ڈراما رادھا اور کنھیا کی داستان محبت پر مشتمل ہے “۔
(اردو اسٹیج ڈراما؛اے بی اشرف صفحہ77)

ڈاکٹر آفاق احمد، ڈاکٹر شمس کنول کے مضمون ‘اردو ڈراما کا پس منظر اور اردو اسٹیج’ کی عبارت نقل کرتے ہیں: کہ “پروفیسر سید مسعود حسن رضوی نے بڑی تحقیق کے بعد یہ ثابت کیا ہے کہ کہ اردو زبان کا پہلا ڈراما اودھ کے آخری بادشاہ سلطان جان عالم واجد علی شاہ اختر نے اپنی وکی عہدی کے زمانے میں لکھا تھا، جو رادھا کشن کی کہانی پر مبنی تھا۔۔ اور یہ ڈراما واجد علی شاہ نے اپنے چھتیس رھسوں میں میں سے ایک رھس کو بنیاد بنا کر اپنی ایک مثنوی سے مواد لے کر لکھا تھا، خیال ہے کہ اردو کے اس پہلے ڈرامے کا نام افسانہ عشق تھا جو محل کی چار دیوانی میں کھیلا گیا”۔
(اردو اسٹیج ڈرامے:آفاق احمد صفحہ 15)

مندرجہ بالا اقتباسات رادھا کنھیا کے اردو کے پہلے ڈراما ہونے کا واضح  ثبوت ہیں:

  • اردو تھیڑ ؛        مصنف ڈاکٹر عبد العلیم نامی
  • اردو میں ڈراما نگاری ؛ مصنف سید بادشاہ حسین
  • اردو ڈرامے کی تنقیدی تاریخ ؛ مصنف عشرت رحمانی

یہ تینوں کتابیں عمدہ اور مغز خیز ہیں اسی طرح ڈراما اور ڈراما نگاری کے آغاز و ارتقاء کے متعلق تفصیل سے معلومات فراہم کرتی ہیں پر ان کتابوں میں ڈراما رادھا کنھیا اور اندر سبھا پر طائرانہ نظر بھی نہیں ڈالی گئی ہے جس سے یہ واضح ہو سکے کہ ان میں تقدم و تاخر کسے حاصل ہے۔۔

کچھ ڈراما ‘رادھا کنھیا’ کے بارے میں:

رادھا کنھیا میں 8 مناطر ہیں جن کی ترتیب یوں ہے؛-

1 منظر؛ اس میں جوگن کی خواہش کا اظہار ہوتا ہے۔

2 منظر؛ جوگن کا ملازم غربت عفریت سے ملکر رادھا کنھیا کے ناچ کے اہتمام کے لیے درخواست کرتا ہے۔

3 منظر؛ عفریت یہ کام کرتا دکھائی دیتا ہے۔

4 منظر؛ جوگن کو پریوں کے رو برو لایا جاتا ہے۔

5 منظر؛ رادھا کنھیا کے ناچ میں ہے۔

6 منظر؛ کنھیا جی اور ان کا مسخرا دوست رام چیرا مرلی کے تلاش میں نکلتے ہیں۔

7 منظر؛ مکھن والیاں سامنے آتی ہیں۔

8 منظر؛ رادھا کنھیا کا ملاپ ہوتا ہے اور ڈرامے کا اختتام۔

رادھا کنھیا کے علاوہ واجد علی شاہ نے تین اور ناٹک لکھے ہیں جن کے قصے ان کی مثنویاں ‘دریائے تعشق”افسانہ عشق’ اور ‘بحر الفت’ سے ماخوذ ہیں واجد علی شاہ کے پہلے دو ناٹکوں کا ذکر رجب علی بیگ سرور نے اپنی کتاب ‘فسانہ عبرت’ میں کیا ہے اور مسعود حسن رضوی نے بھی اپنی کتاب میں  بیان کیا ہے

1 دریائے تعشق؛- اس کا جلسہ سال بھر میں تیار ہوا اور لاکھ روپے ماہوار خرچ ہوئے یہ ڈراما “غزالہ اور ماہ رو کے عشق پر مبنی ہے

2 فسانہ عشق؛- اس مثنوی سے جو ڈراما ماخوذ ہے  وہ ماہ پیکر اور سیم تن کی محبت کا قصہ ہے جو 3750 پونے چار ہزار بیتوں پر مشتمل ہے۔۔

3 بحر الفت؛– اس مثنوی سے جو ڈراما ماجوذ ہے وہ ماہ پروین اور مہر پرور کی داستان عشق پر مشتمل ہے اصل قصہ چار ہزار بیتوں 4000 پر محمول ہے۔۔
(ماخوذ از؛ اردو اسٹیج ڈراما؛ اے بی اشرف )

کچھ ڈراما ‘اندر سبھا‘ کے بارے میں؛-

ڈاکٹر عبد العلیم نامی لکھتے ہیں: کہ ” امانت نے اندر سبھا 1852ء 1268ھ میں لکھنا شروع کیا اور ڈیرھ سال میں اختتام کو پہنچا”۔۔
(اردو تھیٹر؛ عبد العلیم نامی صفحہ 231)

اندر سبھا 830 اشعار پر مشتمل ہے کل 8 کرداروں پر مشتمل ہے اس ڈرامے کا فعال کردار سبز پری ہے اور مرکزی کردار گلفام ہے۔

خلاصہ؛- پکھراج پری، نیلم پری، لال پری،سبز پری…

  راجہ اندر کا دربار سجا ہے ؛ سب پریاں اپنی اپنی کارگزاری پیش کرتی ہیں؛-

سبزپری ‘کالے دیو’ کو اختر نگر ھندوستان  بھیج کر شہزادہ گلفام کو اٹھوا لیتی ہے گلفام صرف اس بات پہ راضی ہوتا ہے کہ وہ راجہ کا دربار دکھلائے ان کے عشق کی خبر ‘لال دیو’ کو ہوتئ ہے وہ انسانی روپ میں راجہ کو اس کی خبر دیتا ہے جس کے عوض راجہ گلفام کو ایک کنوے میں قید کر دیتا ہے اور سبزپری کے پر نوچ کر اکھاڑے سے باہر نکال دیتا ہے سبزپری خوگن بن کر جنگل جنگل پھرتی ہے اور پھر سے  دربار میں آ کر راجہ کو خوش کر لیتی ہے اور پھر راجہ گلفام اور سبزپری کو ملا دیتا ہے۔۔۔۔

سید مسعود حسن رضوی ادیب اردو ادب کے جدید محققین میں سر فہرست ہیں انہوں نے ایسی بہت سی خدمات انجام دیں ہیں جس پر یا تو کسی نے لکھا ہی نہیں یا پھر لکھا ہے تو غلط بیانیاں اور بات کو گول مول انداز میں پیش کیا ہے۔
مسعود رضوی صاحب نے بڑے تفکر و تخیل کے ساتھ ان کی ترتیب و تدوین کو بہتر سے بہتر کرنے اور اصل حقیقت کو پیش کرنے کی مکمل کوشش کی ہے انہوں نے تدوین و تحقیق میں اپنی رائے بھی پیش کی ہے جیسے دیوان فائز مرتب کرکے انہوں نے فائز کو شمال ہند کا پہلا صاحب دیوان شاعر قرار دیا ہے جب کہ قاضی عبد الودود اور دیگر محققین اس رائے سے متفق نہیں ہیں۔۔
مسعود حسن رضوی کا تحقیق میں اپنا ایک الگ اسلوب،طرز نگارش اور تلاش و جستجو کا اپنا ایک الگ رجحان ہے اور اپنے منفرد نظریات بھی رکھتے ہیں مندرجہ بالا امور ہی تحقیق میں ان کی اپنی ایک پہچان ہیں جو ان کو دیگر محققین کی فہرست میں ممتاز کرتی ہے۔کسی بھی کتاب یا مسودہ پر تحقیق کرتے وقت دلائل و شواہد کے ساتھ ہی اپنے نظریات اور اپنی تحقیقی رائے بھی پیش کرتے ہیں۔

Mock Test 13

اردو کا پہلا ڈرامہ 1