داستان باغ و بہار کا اسلوب اور کردار نگاری

0

باغ وبہار میرامن کی داستانوی کتاب ہے جو اُنھوں نے فورٹ ولیم کالج میں جان گلکرسٹ کی فرمائش پر لکھی تھی۔ یہ قصہ اردو میں ترجمہ ہونے سے پہلے فارسی زبان میں”قصۂ چہار درویش” کے نام سے ایک زمانے میں مقبولِ خاص و عام رہاہے۔

یہ کتاب ایک جانب چار عدد بادشاہوں کی داستان ہے جن کو عشق نے درویشی کی راہ دکھائی۔ فورٹ ولیم کالج کی داستانوں میں میر امن کی باغ و بہار کو اُس کے سادہ اسلوب اور قصہ در قصہ فنی خصوصیات کی بنا پر اہم مقام حاصل ہے۔ تو دوسری جانب میرامن دہلوی اور فورٹ ولیم کالج کا اردو داستان کی شکل میں پہلا کارنامہ،جس نے پرانے اور مشکل اسلوب کو یکسر ترک کر کے اردو زبان کو ایک نیا راستہ اور نئی مشعل دکھائی۔

یہ داستان اردو نثر میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے،اسی داستان کی اشاعت کے بعد اردو نثر میں پہلی مرتبہ سلیس زبان اور آسان عبارت آرائی کا رواج ہوا، اس قصے میں ایشیائی رسم و رواج خاص کر دہلی کا تذکرہ نہایت خوبی کے ساتھ کیا گیا ہے۔ اسی خوبی اور سلاست کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کہ یہ طبع زاد قصہ ہو۔

باغ و بہار پر شروع سے آخر تک ایک خاص فضا قائم رہتی ہے۔ داستان کی حیثیت سے بھی اس میں کچھ باتیں ایسی ہیں جنہوں نے اسے اُردو کی دوسری داستانوں میں نمایاں جگہ دی ہے۔ زبان و بیان کے حسن اوراسلوبِ نگارش میں روز مرہ اور محاورے کی پابندی کے بعد باغ و بہار کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ایک خاص زمانے کی معاشرت اور تہذیب کا گہرا عکس نظر آتا ہے۔ میرا من کسی واقعےکا ذکر کریں یاکسی کردار کو دیکھائیں ہر جگہ ہندوستانی تہذیب ومعا شرت جھلکتی ہوئی نظر آتی ہے۔

باغ وبہار کی زبان و اسلوب

باغ و بہار کی زبان و بیاں کی بات کی جائے تو میرامن نے باغ و بہار میں غیر مانوس عربی فارسی الفاظ نکال کر سادہ اور سلیس زبان لکھی ہے۔کیونکہ اس کتاب کا مقصد انگریزوں کو اُردو زبان سکھانا۔ تھا۔ اس لیے انہوں نے زبان اور روزمرہ محاورے میں سادگی کو برتا ہے۔ باغ و بہار محض ایک قصہ کہانی نہیں بلکہ ہندوستانی مغلیہ معاشرت اور دہلی کے سماج کی خوبصورت تصویر کشی ہے‌۔ جس زمانے کی یہ داستان ہے اس زمانے میں مسلمان حکمران خوشحال اور رعایا خوش تھی۔ مہمان نوازی کرنا، میلے ٹھیلوں میں جانا، تفریحات منعقد کرنا، رنگ رلیاں ، عیش و عشرت اُن کی فطرت میں تھی۔ اس لیے باغ و بہار میں یہی تہذیب عام نظر آتی ہے۔

باغ و بہار میں شروع سے آخر ایک طول و اختصار کے توازن کو قائم رکھا گیا ہے۔ ایک اچھے داستان نویس کی طرح میرامن کو معلوم ہے کس بات کو بڑھا کر پیش کرناہے اور کسے مختصربیان کرتا ہے۔ میر امن نے اس کتاب کو ترجمہ کرتے وقت دہلی کی معاشرت کا ایک ایسا نمونہ بنادیا ہے جس سے دوسری داستانیں خالی ہیں۔

باغ و بہار کی کردار نگاری

اگر اس داستان کے کردار دیکھے جائیں تو یہاں ہمیں دو قسم کے کردار ملتے ہیں، مرد کردار اور نسوانی کردار۔ بہت سے ناقدین کا خیال ہے کہ مردانہ کرداروں کی کردار نگاری کرتے وقت میر امن کسی فنکارانہ چابک دستی کا مظاہرہ نہیں کر سکے۔ سب سے پہلے ہم داستان کے مرد کرداروں کا جائزہ لیں گے جن میں چاروں درویشوں کے علاوہ آزاد بخت اور خواجہ سگ پرست بھی شامل ہیں۔

چاروں درویش جو کہانی کے ہیرو ہیں اُن کے بارے میں گیان چند لکھتے ہیں، “ان میں شہزادگی کی کوئی علامت نظر نہیں آتی۔ ان کے عشق میں کوئی عظمت، کوئی بلندی اور وقار نہیں”۔ پہلے درویش کے کردار میں مردانگی نام کی چیز نہیں۔ یہ ایک مجہول اور بودا کردار ہے جو فرماں برداری، خوشامدی فطرت، عجز و انکسار کے باوجود دوسروں کو متاثر کرنے کی صلاحیت سے عاری ہے۔ منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہونے والا یہ تاجر زادہ کسی مرحلے پر بھی شخصی وقار، انا پسندی یا خود داری کا مظاہرہ نہیں کرتا۔ اس کوتاہ بین، کم کوش اور نکمے شخص کی شادی شہزادی سے ہو جانا ایک اتفاق ہے اور جنگل میں اُس کو کھو دینا اس کی بے تدبیری، عاقبت نا اندیشی اور بد نصیبی کا ثبوت ہے۔

دوسرا درویش بقول زہرا معین، “غم جاناں سے غم ہائے دگر تک کا سفر۔ یہ درویش کی آدمیت و انسانیت، اس کے دل کی گداختگی، ایثار و قربانی بحیثیت مجموعی اس کے کردار کی بلندی پر دلالت کرتا ہے۔ اس کے کردار میں بڑی استقامت ہے۔ وہ اپنی دھن کا پکا ہے”۔

تیسرے درویش کا کردار کمزور ، بے جان اور ڈھیلا ہے۔ ابتدا میں وہ بڑا مہم جو، متجسس اور بے خطر نظر آتا ہے۔ مگر عشق کی مہم میں اس سے کم ہی کوئی ایسا کارنامہ سرزد ہوتا ہے جس کی بنیاد پر اسے عاشقوں کے زمرے میں شامل کیا جائے۔

جبکہ چوتھا درویش جو کہ چین کا ولی عہد ہے، بیگمات اور خواصوں کی صحبت میں رہنے کی وجہ سے عقل و شعور سے عاری ہے اور بے باکی اور جوانمردی نام کی کوئی شے اس کے اندر نہیں ملتی۔ بلکہ کم ظرفی اور بے وقوفی کے آثار نمایاں ہیں۔

داستان کا مرکزی کردار بادشاہ آزاد بخت کی داستان میں دوسرے درویشوں کی طرح عشق کا عنصر شامل نہیں ہے۔ اس کی مہم جوئی کی جہت دوسرے درویش کے برعکس مختلف ہے۔ آزاد بخت کا کردار مرکزی اور بنیادی ہے۔ یہ کردار باغ و بہار کا زندہ جاوید کردار ہے۔ مجموعی طور پر میر امن کی “باغ وبہار” ایک بہترین داستان ہے جو کہانی پن کی خوبیوں سے اس قدر مزین ہے کہ اس پر طبع زاد ہونے کا گمان ہوتا ہے۔