داستان کا فن، روایت اور اجزائے ترکیبی

0

داستان کیا ہے؟

داستان کی سادہ تعریف یہ ہے داستان کا مطلب ہے طویل قصہ کہانی۔ داستان اس صنف نثر سے ہے جس کا تعلق ابتدائی انسان کے قصے کہانیوں سے ہے” داستان میں مختلف کہانیوں کو یکجا کر کے بول دیا جاتا ہے اور یوں کہانی در کہانی داستان بن جاتی ہے۔ اگر یہ دیکھا جا ئے کہ داستان کہاں کیوں وجود میں آئی ہے ؟ اس کی سادہ سی وجہ تو یہ ہے کہ ابتداء میں آدمی کے پاس وسائل کم تھے، اُس کے تجربات محدود تھے، علم کا سرمایہ مختصر تھا اس کی عقل ذرا ذرا سی بات پر حیران ہو جاتی تھی، اس کا تخیل بچوں جیسا معصوم تھا، اس نے جو کہانی سوچی وہ معصوم اور سادہ تھی اور عصری تقاصوں سے پوری طرح ہم آہنگ تھی۔

ابتداء میں خونیں حادثات اسرار و رموز عورت اور عشق کی کہانیاں بیان کی جاتی تھیں۔ ان کہانیوں کو بیان کرنے کے لیے بھی مختلف قبیلے یا قبیلوں کے سرداروں کی بہادری اور جوانمردی اور مذہبی عقائد و رسم و رواج کار فرما ہوتے تھے۔ آہستہ آہستہ کہانی کی حدود اور موضوعات وسیع ہوتے چلے گئے اس طرح قصہ کہانی کا سفر جو تہذیب کے ابتدائی نقوش سے شروع ہوا تھا داستان پر ختم ہوا اور کہانی نے داستان کی شکل اختیار کی۔ کلیم الدین احمد کے بقول ” کہانی کی طویل پیچیدہ اور بھاری بھرکم صورت داستان ہے “

داستان کی روایت:

دنیا کی قدیم ترین داستانیں مصر میں لکھی گئیں۔ دنیا کی پہلی داستانوی کہانی مصر کے شاہ حاضری کے عہد کی ہے۔ اس کا دورِ تخلیق آٹھ سو سال قبل مسیح ہے۔ اڑتیس سو سال قبل مسیح میں عراق کے بادشاہ گل گامش کے جنگی کارناموں پر مشتمل ایک داستان منظر عام پر آئی ہے۔ قدیم چینی ادب میں شفتالو کے پھول کے نام سے ایک داستان ملتی ہے۔ فارسی اور عربی ادب میں قصہ گوئی کی روایت ملتی ہے۔

در اصل عرب میں داستان گوئی باقاعدہ فن کی حیثیت رکھتی تھی۔ عہد جاہلیت میں داستان گوئی بے حد مقبول تھی۔ عہد اسلامی میں عباسی خلفا کے زمانے میں اس نے اور زیادہ ترقی کی۔ شیراز کے قریب اردکان میں قصہ گوشام کو قہوہ خانے میں بیٹھتے اور روزانہ قصے سناتے۔ عوام کی دلچسپی قائم رکھنے کے لیے ان قصوں کو بڑی چالاکی سے ایک لڑی میں پرو دیتے اور درمیان میں گیتوں کو جوڑتے جاتے تھے۔ یہ طریقہ بے حد مقبول ہوا اور آہستہ آہستہ ایران کے دوسرے شہروں کے ساتھ از بیک وغیرہ تک پہنچ گیا۔

عرب داستان گویوں کا جہاں تک تعلق ہے ان کے یہاں خاص بات یہ تھی کہ اس میں جن و پریوں کا تو ذکر ہوتا ہی تھا لیکن ان کے ساتھ ہی اسلامی معاشرت کی رنگ آمیزی بھی کی گئی۔ اس کی بہترین مثال الف لیلہ کی کہانیاں ہیں۔ عرب قصوں میں ہمیں لوک کہانیوں کی جھلکیاں بھی ملتی ہیں بلکہ بعض جگہوں پر تو پوری پوری لوک کہانیاں شامل کر لی گئیں ، جس کا بظاہر اصل قصے سے کوئی ربط نہیں معلوم ہوتا۔ عربوں کے اس طریق نے داستان کے فن کو ایک نیا انداز دیا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس روایت کو ایران اور ہندستان میں نہ صرف برقرار رکھا گیا بلکہ اس سے بڑے بڑے کام لیے گئے۔

ایران کے قصہ گویوں کی سماجی حیثیت بری نہیں تھی۔ ان میں سے جو قصہ گو اچھے تھے ان کی رسائی درباروں میں بھی تھی اور عوام بھی انھیں عزت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ یہ جب دربار میں پہنچ جاتے تھے تو انھیں شاہی داستان گو کا منصب بھی مل جاتا تھا، جسے نقال باشی کہتے تھے۔ یہ لوگ اپنے قصے کو اور معزز اور محترم بنانے کے لیے اپنے قصوں میں ” شاہنامہ فردوسی” کے واقعات بھی کہیں کہیں سے جوڑ لیا کرتے تھے۔

ایرانیوں کو قصہ سننے سے غیر معمولی دلچسپی تھی۔ ان کے دستکار کام کرتے جاتے تھے اور اس درمیان میں قصہ سنتے جاتے تھے اور جب فرصت ہوتی تو پھر ان کو قصہ سننے سے کون روک سکتا تھا۔ قہوہ خانے اور چائے خانے تو قصہ گویوں کے اڈے بن گئے تھے لیکن گرمیوں میں تو کھلے میدانوں میں سناتے تھے۔ قہوہ خانے کے مالک ان کو اس لیے بھی بلاتے تھے کہ اس بہانے لوگ ان کے قہوہ خانوں میں زیادہ تعداد میں آئیں گے اور ان کا کاروبار خوب چلے گا۔ ان کا طریقہ ہوتا کہ قصہ جب نقطۂ عروج پر پہنچتا تو قصہ گو اس روز اپنا کام ختم کر دیتا اور باقی قصے کو اگلے روز کے لیے ملتوی کردیتا یا پھر اس درمیان میں لوگوں سے معاوضہ وصول کرنا شروع کر دیتا اور جب معاوضہ مل جاتا تو قصہ کو آگے بڑھاتا۔

یہ قصے زیادہ تر جاڑوں کے موسم میں سنائے جاتے۔ اس لیے سال نو ، شادی بیاہ اور سالگرہ کے موقعوں کی خوشیوں میں بھی لوگ انھیں نہ بھولتے حالانکہ اس زمانے میں گانے والوں کو زیادہ اہمیت دی جاتی۔ برصغیر میں وید ، مہا بھارت جیسی داستانیں تخلیق کی گئی ہیں۔

بیشتر دوسری اصناف کی طرح داستان بھی فارسی سے اُردو میں آئی ہے۔ اردو زبان میں قصہ کہانی کی روایت مشرق کی نمائندہ تہذیبوں کی پروردہ ہے۔ کوئی کہانی سنسکرت سے فارسی میں آئی اور اس نے ہندستانی سے ایرانی شہریت قبول کر لی۔ پھر ایران سے فارسی زبان کے توسط سے اردو میں آئی اور اس پر ایک تہہ اور چڑھ گئی۔ بعض داستانیں عربی سے فارسی میں آئیں۔

اگر ابتدائی داستانوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوگی کہ تمام داستانیں فارسی سے اخذ شدہ یا براہ راست ترجمہ کی گئیں ہیں۔ ان داستانوں کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ قصے ہمیں ایک ایسی دنیا میں لے جاتے ہیں جن میں جادوئی فضا ہوتی ہے۔ یہ فضا ہمارے ذہن کو مسحور کر دیتی ہے اور ہم انھیں پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھتے ہیں خاص طور پر جب اس میں کسی ایسے تاریخی بادشاہ کا نام ہوتا ہے جو فی الحقیقت چلتا پھرتا تھا لیکن اس بادشاہ کو داستان گو الفاظ کا ایسا لباس پہناتا ہے کہ حقیقت آنکھوں کے سامنے پھر جاتی ہے۔ چکا چوند ایسی ہوتی ہے کہ ہم اپنی آنکھیں بھینچ لیتے ہیں اور تصور کی آنکھیں کھولتے ہیں۔

چونکہ داستانوں میں تفصیل ہوتی ہے اس لئے داستان گو کسی جز کو تشنہ بیان نہیں چھوڑتا۔ یہ زرق برق لباس کا بادشاہ یوں سمجھئے کہ ہارون الرشید جب سجے سجائے دربار میں داخل ہوتا ہے تو ہمیں حفظ مراتب کا شدت سے احساس ہوتا ہے۔ وزرا ، امرا کی آمد، دید بہ دور باری آداب، چوبداروں کی پکار سے ایک ایسی مثالی فضا قائم ہو جاتی ہے کہ ایک لمحہ کو ہمارا سانس ٹھہر جاتا ہے۔مثلاً گل صنوبر، رانی کیتکی کی کہانی ، آرائش محفل، باغ وبہار عجائب القصص فارسی سے اخذ شدہ ہیں۔

باغ و بہار اور داستان امیر حمزہ میں قصے کے بنیادی عناصر اور ڈھانچہ یا پلاٹ دونوں فارسی سے لیے گئے ہیں۔ لیکن یہ بات اہم ہے کہ اُردو والوں نے اپنی پسند، ماحول اور مزاج کے مطابق ان قصوں کو تحریر کیا ہے اور ان میں ترمیم و اضافے بھی کیے ہیں۔ داستان امیر حمزہ کو اس لحاظ سے بھی فوقیت حاصل ہے کہ اس میں اس قدر اضافے کئے گئے ہیں کہ الگ سے کئی تصانیف وجود میں آگئیں ہیں۔

اُردو داستانوں کی تفصیل بہت طویل ہے اور تقریباً دو صدیوں پر پھیلی ہوئی ہے۔ پروفیسر سید وقار عظیم نے داستان کی روایت بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اردو داستان کا قصہ محمد شاہ رنگیلا کے عہد سے شروع ہوتا ہے۔ بوستان خیال کے مصنف 1726ء میں گجرات سے دہلی آئے اور 1730ء تک تلاش روزگار میں مبتلا رہے اسی زمانے میں جب وہ جس مکان میں مقیم تھے اس کے قریب ایک قہوہ خانہ تھا یہاں ہر طرح کے لوگ جمع تھے اور داستانیں سنائی جاتی تھیں۔ یہاں تک کہ ایک دن محمد تقی نے ایک قصہ کی تمہید لکھ کر اس محفل میں سنائی اس پر ایک دلی کے قصہ گو نے کہا یہ تو فارسی کا قصہ ہے لطف تو تب ہے کہ جب قصہ اُردو میں ہو۔ یوں اُنہوں نے امیر حمزہ کے مقابلے میں اُردو داستان بوستان خیال سنانی شروع کردی۔ یوں فارسی کے مقابلے میں اُردوداستان نویسی کا آغاز ہوا، جس کے بعد فورٹ ولیم کالج کے زیر اثر کئی اہم داستانیں ترجمہ اور تالیف کی گئیں۔

داستان کا فن اور اجزائے ترکیبی:

داستان کے اجزائے ترکیبی کی بات کی جائے تو داستان بنیادی طور پر کہنے کا فن ہے۔ اس میں کہانی کے پیرائے میں مثالی ہیرو، اُس کے ساتھیوں کے کارنامے، حسن و عشق کی خیالی باتیں، عجیب مافوق الفطرت واقعات اس طرح بیان کئے جاتے ہیں کہ طوالت کے باوجودد داستان میں دلچسی قائم رہتی ہے۔ داستانوں کے کردار اولوالعزم اور مہم جو ہوتے ہیں۔

داستان میں غیر معمولی لوگوں، غیر معمولی حالات و واقعات کی مدد سے ایک فضا پیدا کی جاتی ہے اور اُس کے لیے مبالغے سے کام لیا جاتا ہے۔ یہ مبالغہ واقع نگاری، منظر نگاری اور کردار نگاری تینوں میں نظر آتا ہے۔ داستان کے کرداروں میں داستان کا مرکزی کردار یا ہیرو ایک مثالی انسان ہوتا ہے جو حسین و جمیل دوسروں کے لیے مصیبت میں پڑنے والا عاشق مزاج ہوتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کردار میں ارتقا نہیں ہوتا، اس کی تمام خصوصیات کم عمری میں ہی سامنے آجاتی ہیں اور ساری زندگی بغیر کسی ضعف کے اس کا ساتھ دیتی ہیں۔

ہیرو کے لیے بادشاہ کا بیٹا ہونا یا امیر خاندان سے تعلق رکھنا ضروری ہے اس لیے کہ بادشاہ کا شہزادہ جنگ وجدل اور امیر کا بیٹا جائداد کے لئے لڑائی جھگڑے کرتا ہے جس سے داستان بڑھتی چلی جاتی ہے۔چونکہ ہیرو کو کوہ قاف وغیرہ میں بھیجنا ہوتا ہے اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہیرو امیر شخص ہو۔

داستان کی ہیروئن عموماً ہیرو کے ملک سے بہت دور بستی ہے۔ ہیروئن ہیرو کو عموماً خوابوں میں دیکھتی ہے یا کسی کی زبانی ہیرو کی بہادری کے قصے سنتی ہے۔ ہیرو ہیروئن کو کسی محفل میں دیکھ کر دیوانہ ہوتا ہے۔ یا عموماً داستانوں میں کسی طوطے کے زبانی ہیروئن کے حسن و جمال کی تعریفیں سنتا ہے اور اُس پر عاشق ہوجاتا ہے۔ وہ ہیروئن کو حاصل کرنے کے لئیے بہت سی مشکلات جھیلتا ہے اور بالآخر ہیروئن تک پہنچ جاتا ہے۔ ہیروئن بھی ہیرو کو دیکھتے ہی اُس پر عاشق ہو جاتی ہے۔ داستان کے آخر میں دونوں کی شادی ہو جاتی ہے اور وہ مل کر ہنسی خوشی رہنے لگ جاتے ہیں۔

ہیرو ہروئن کے علاوہ عیار، جادوگر ، ساحر، ساحرہ ، حکیم ، ولی ، پیر، خضر ، جن، دیو، پریاں وغیرہ بھی داستان کے اہم کردار ہیں۔ داستان کا پلاٹ بہت بکھرا ہوا منتشر ہوتا ہے۔ وہ کونسی خامی ہے جو داستان کے پلاٹ میں نہیں ملتی۔ اس کے قصے در قصے کا الجھاؤ اس کو مزید پیچیدہ بنا دیتا ہے لیکن اس کے باوجود داستان نویس داستان کہنے کے فن پر کامل عبور رکھتے تھے اور وہ اپنی داستانوں کو دلچسپ بناتے تھے۔

مبالغہ داستان کی گھٹی میں پڑا ہوا ہے۔ حاتم کی سخاوت اور رستم کی بہادری حقیقت سہی لیکن داستانوں میں ان کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے۔ حاتم باغ و بہار میں غریب لکڑہارے کو چند پیسے دلوانے کے لئے اپنے آپ کو بادشاہ کے سامنے پیش کر دیتا ہے۔

داستانوں کی منظر کشی میں جو فضا تخلیق کی جاتی ہے وہ خیالی اور مثالی ہوتی ہے۔ جنوں پریوں کے لیے کوہ قاف اور پرستان کی فضا تخلیق کی جاتی ہے۔ اس دنیا میں بھی ایسا منظر بنایا جاتا ہے جہاں ہیرو آسانی سے اپنا مقصد حاصل کر لیتا ہے۔ داستان میں چونکہ حواس کے اعتبار سے آنے والے واقعات نہیں ہوتے اس لیے دلچسپی اور تجسس داستان کے اہم اجزا ہیں۔

دنیا کے تقریباً ہر ادب میں داستان موجود ہے۔ ڈاکٹر صفیر افراہیم کے نزدیک “داستان اصل زندگی اور اس کی حقیقتوں سے فرار کا دوسرا نام ہے۔“ مختلف ادوار میں لکھی جانے والی داستانیں اپنے عہد کی عمدہ ترجمان ہیں۔