باغ و بہار کےنسوانی کردار

0

میر امن کے کرداروں کے ضمن میں عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ ان کے مردانہ کرداروں کے مقابلہ میں نسوانی کردار زیادہ جان دار ہیں۔ سید وقار عظیم میر امن کے نسوانی کرداروں کے بارے میں لکھتے ہیں کہ، “کردارنگاری کے معاملہ میں میر امن نے جو توجہ ہر داستان میں ہیروئن پر صرف کی ہے، اس سے مردوں کے کردار ر محروم رہے ہیں”۔

باغ و بہار کے نسوانی کرداروں میں ماہ رخ، وزیر زادی، سراندیپ کی شہزادی اور بصرے کی شہزادی کے کرداروں کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔

ماہ رخ

ماہ رخ پہلے درویش کے قصے کی ہیروئن ہے۔ جسے میرامن نے نہایت خوبصورت، پری پیکر اور جاہ وحشم پر نازاں دکھایا ہے۔ احساس برتری کے باعث اس میں تمکنت اور رکھ رکھاؤ ہے لیکن آخر وہ جذبہ عشق کے ہاتھوں مغلوب ہوجاتی ہے۔ تو اس میں قدرے نرمی اور ملائمت پیدا ہو جاتی ہے۔ جونہی وہ عشق میں ناکام ہوتی ہے تو پھر سے بپھری ہوئی شیرنی بن جاتی ہے۔ اس کے مزاج میں تضاد پایا جاتا ہے۔ وہ بیک وقت رحمدل بھی ہے اور قاہر بھی، عشق بھی کرتی ہے اور بدنامی سے بھی خوفزدہ ہے، وہ دانشمند بھی ہے اور جذبہ دل کے ہاتھوں مغلوب بھی۔ وہ مذہب پر یقین بھی رکھتی ہے اور عملی طور پر مذہبی احکام سے انحراف بھی کرتی ہے۔

وزیر زادی

وزیر زادی خواجہ سگ پرست کے قصے کی ہیروئن ہے۔ یہ قصہ بادشاہ آزاد بخت کی زبانی بیان ہوا ہے۔ وزیر زادی کی شادی خواجہ سگ پرست سے اس وقت ہوتی ہے جب اس کے گڑیا کھیلنے کے دن تھے اور خواجہ سگ پرست کی عمر پچاس سال تھی، لیکن وزیر زادی بادشاہ کا حکم بجا لاتے ہوئے شادی کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔ وزیر زادی خواجہ سگ پرست کے مقابلہ میں ایک کمسن لڑکی ہے جس کی شادی خواجہ سگ پرست سے کر دی جاتی ہے اور وہ اس شادی کو اپنی تقدیر سمجھ کر قبول کر لیتی ہے اور اف تک نہیں کرتی۔ بقول عابدہ حسین، “عورتوں میں وزیر زادی نے کم عمری میں قربانی اور محبت کی جو مثال پیش کر دی، اس کا جواب نہیں۔ خواجہ سگ پرست سے شادی کرنا بھی، قربانی کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے”

سراندیپ کی شہزادی

سراندیپ کی شہزادی خواجہ سگ پرست کے قصے کا کردار ہے جسے میر امن نے خالص ہندوستانی مزاج کی حامل ہندو راجکماری کے روپ میں دکھایا ہے۔ وہ کھلے ماحول کی پروردہ ہے جہاں پردہ کرنے کا رواج نہیں۔ وہ مردوں کی طرح آزادانہ جنگلوں میں گھومتی اور شکار کرتی پھرتی ہے۔ میرامن نے اس کا تذکرہ یوں کیا ہے:

” وہاں کے بادشاہ کی ایک بیٹی تھی، نہایت خوبصورت ،صاحب جمال، اکثر بادشاہ اور شہزادے اس کے عشق میں خراب تھے۔ وہاں رسم حجاب نہ تھی، اس لیے وہ لڑکی تمام دن ہمجولیوں کے ساتھ سیر و شکار کرتی پھرتی۔ “

بصرے کی شہزادی

بصرے کی شہزادی دوسرے درویش (شہزادہ فارس) کی محبوبہ ہے جو آخر میں اس کی بیوی بن جاتی ہے۔ شہزادی کی چھ بہنیں تھیں۔ ایک روز بادشاہ نے انہیں کہا کہ خدا کا شکر کرو کہ تم شہزادیاں ہو۔ اگر میں بادشاہ نہ ہوتا تو تم بھی شہزادیاں نہ ہوتیں۔ یہ سارا کرو فر میرے ہی طفیل ہے۔ ان میں سے ایک (زیر تذکرہ) شہزادی، جو مذہب پر پورا یقین رکھتی ہے اس بات کی قائل تھی کہ جو کچھ ہوتا ہے تقدیر کے تابع ہوتا ہے۔ اس نے اپنے باپ (بادشاہ) کی اس بات کو مسترد کر دیا اور سب کچھ تقدیر اور اللہ کی دَین قرار دیا۔ اس کی پاداش میں شہزادی کو جنگل میں چھوڑ دیا گیا جہاں وہ صبر و شکر کرتی اور مصروف عبادت رہتی۔ اس نے ایک دن مرد بزرگ کی جھونپڑی بنانے کے لیے زمین کھودنے کو کہا تو خدا کی قدرت سے ایک مدفون خزانہ مل گیا۔ جس سے اُس نے ایک محل تعمیر کروایا۔ باپ کو معلوم ہوا تو اُس نے توبہ کی اور باپ کے بعد یہی شہزادی جانشین ہوئی۔ میر امن نے اسے نہایت سخی، مہان نواز، سلیقہ شعار، ہوشیار، چالاک، معاملہ فہم، پر تمکنت اور باوقار دکھایا ہے۔ اسی شہزادی کی سخاوت کا شہرہ سن کر پہلا درویش اس کی زیارت کے لیے آیا اور اس کی ایک جھلک دیکھ کر اس پر فریفتہ ہو گیا۔

پہلے درویش کی بہن

میر امن نے اس کردار میں مکمل طور پر ایک مکمل ہندوستانی عورت کی عکاسی کی ہے جو اپنے بھائی کی محبت سے سرشار ہے، اُس کی ہر ممکن مدد کرتی ہے اور جب پہلا درویش سب کچھ لٹا کر اپنی بہن کے پاس آتا ہے تو وہ خوش دلی سے اُس کا استقبال کرتی ہے اور اس کا ہر لحاظ سے خیال رکھتی ہے۔ بعد میں اُس کی بہن اُس کو غیرت بھی دلاتی ہے اور اُسے عمل کی طرف مائل کرتی ہے کہ وہ کب تک ایسے ہی بہن کے ٹکڑوں پر پڑا رہے گا۔ اُسے کچھ کرنا چاہیے۔ اگر دیکھا جائے تو یہ کردار ہندوستانی بہن کی ایک مکمل اور خوبصورت تصویر ہے۔

کٹنی کا کردار

ضمنی کردار ہونے کے باوجود میر امن نے کٹنی کے کردار میں کمال کر دکھایا ہے اور ہمارے سامنے ”بی جمالو“ قسم کی تصویر آنکھوں میں آجاتی ہے۔ اس کردار کی تصویر کشی کرنے میں میر امن نے نہایت چابکدستی سے کام لیا ہے۔ کٹنی کی زبان دلی والی عورتوں کی زبان ہے۔ فقیرنیاں لوگوں کے دل میں کس طرح اپنے لیے ہمدردی پیدا کرتی ہیں اور کیا کیا دعائیں دیتی ہیں ملاحظہ فرمائیے:

” ایک بڑھیا، شیطان کی خالہ (اس کا خدا کرے منہ کالا) ہاتھ میں تسبیح لٹکائے، برقع اوڑھے، دروازہ کھلا پا کر بے دھڑک چلی آئی اور سامنے کھڑے ہو کر، ہاتھ اٹھا کر دعا دینے لگی، کہ اہی تیری نتھ جوڑی سہاگ کی سلامت رہے اور کماؤ کی پگڑی رہے۔ “

مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو میر امن کے نسوانی کردار زیادہ بہتر اور خوبصورت ہیں۔ انھوں نے خوشی اور غم کے موقع پر عورتوں کا لب و لہجہ اختیار کیا ہے کہ وہ کیسے دعائیں دیتی ہیں اور کیسے غصہ کا اظہار کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے عورتوں کی مکالمہ نگاری پر بھی خوب توجہ دی ہے۔ اس لیے مردوں کے مقابلہ میں عورتوں کے مکالمے زیادہ کامیاب ہیں۔ میر امن نے خالص ہندوستانی لہجہ میں بہت جاندار مکالمے لکھے ہیں۔