اردو کی پہلی داستان

0

داستان سب رس ایک تعارف

سب رس” ملا وجہی کی کتا ب ہے۔یہ کتاب 1635ء میں منظر عام پر آئی۔ جسے اردو کی پہلی نثری کتاب ہونے کا بھی شرف حاصل ہے۔وجہی نے اپنی کتاب کو تمثیلی انداز میں بیان کیا ہے۔ اسی بدولت اردو ادب میں تمثیل نگاری کی روایت کا آغاز بھی ہوا۔ملا وجہی کی کتاب اردو کی پہلی کتاب کے طور پر جانی جاتی ہے۔ ڈاکٹر مولوی عبد الحق نے 1934ء میں پہلی بار اس کتاب کو دریافت کیا اور اپنے عالمانہ مقدمے کے ساتھ انجمن ترقی اردو اورنگا آباد دکن سے اس کو شائع کرایا۔ اس سے قبل فضلی کی “کربل کتھا یا دہ مجلس” کو اردو کی پہلی نثری تصنیف کا درجہ حاصل تھا۔ اس کتاب کے ادبی مقام کے بارے میں مولوی عبد الحق لکھتے ہیں کہ:

“ہم وجہی کو استاد مانتے ہیں جو کام اس نے کیا ہے اس کا احسان نہ ماننا حقیقت میں نا انصافی ہے۔ اس زمانے میں اردو نثر کا نام نہ تھا اور نہ نثر لکھنا کوئی کمال کی بات سمجھی جاتی تھی۔ ایک دو رسالے جو اس سے قبل پائے جاتے ہیں سو وہ اس قابل نہیں کہ محفلِ ادب میں جگہ پائیں۔ سب رس اردو نثر کی پہلی کتاب ہے جو ادبی اعتبار سے بڑا درجہ رکھتی ہےاور اس کی فضیلت اور تقدم کو ماننا پڑتا ہے۔”

وجہی سلطان محمد قلی قطب شاہ کے عہد کا درباری شاعر تھا اور ملک الشعراء کے عہدے پر فائز تھا۔ وجہی نے بہت طویل عمر پائی اور چار دکنی بادشاہوں محمد قلی قطب شاہ ، محمد قطب شاہ ، ابراہیم قطب شاہ اور عبداللہ قطب شاہ کا عہد دیکھا۔یہ کتاب دکن میں قطب شاہی عہد میں لکھی گئی۔ وجہی اس کی زبان کو ہندوستانی زبان کہہ کر یاد کرتا ہے ۔ کتاب کی زبان اپنے عہد کی عکاسی کرتی ہے۔ اگرچہ بعض جگہ پر وہ دکنی اور ہندی، فارسی، عربی،سنسکرت کے الفاظ بھی استعمال کرتا ہے۔ اپنے زمانے میں اس کی یہ کتاب بہت ہی خوصورت نثر کا نمونہ سمجھی جاتی تھی۔ اسلئے آج کے اعتبار سے جو اس کتاب میں نقص پایا جاتا ہے، وہ مرور زمانہ اور زبان کی ترقی کی وجہ سے ہے، ناکہ کتاب کی خامی کی وجہ سے۔

وجہی نے اس کتاب میں تمثیلی انداز میں حسن و عشق کی داستان کو بیا ن کیا ہے ۔ بہت سے لوگ وجہی کو اردو انشائیہ نگاری کا باوا آدم قرار دیتے ہیں ۔ وجہی نے اس فرضی داستان میں جگہ جگہ صوفیانہ خیالات ، مذہبی روایات اور اخلاقی تعلیمات کی تیغوگ کی ہے ۔ وجہی کی یہ کتاب کلاسیکی نثر کا بہترین نمونہ ہے ۔ اس نسخہ کو مولوی عبد الحق نے مرتب کیا ہے۔ دراصل اس کتاب کو اردو حلقوں میں پہلی بار انہیں نے متعارف کرایا تھا، مولوی صاحب کا مقدمہ کتاب کو سمجھنے میں بہت اہم ہے نیز فرہنگ بھی پیش کردی ہے۔