اسلام میں مرد و عورت کی مساوات

0

اس کا نام Brigitte Bardot تھا لیکن “بی بی” کے مختصر نام سے معروف تھی ، آزاد اور روشن خیالی کا علم لیے حقوقِ نسواں کی تحریک و سوچ کے زیرِ اثر رہتے ہوئے تمام سماجی و مذہبی بندشوں سے آزاد زندگی گزار رہی تھی صرف پندرہ سال کی کمسنی کی عمر میں شوبز کی دنیا میں قدم رکھا اور دیکھتے ہی دیکھتے نا صرف اپنے ملک فرانس بلکہ پوری دنیا کی فلم انڈسٹری میں فلم کی کامیابی کیلیے اس کا نام ہی ضمانت ہوا کرتا تھا کہا جاتا ہے کہ فرانس کی مشہور موٹر کمپنی رینالٹ Renault کی وجہ جتنی رقم فرانس میں آئی اس سے زیادہ دولت “بی بی ” کی فلموں کے ذریعے فرانس نے باہر سے کمائی ، ایک اندازے کے مطابق یورپ اور امریکہ کے میگزین کے ٹائٹل پیج پر “بی بی ” کی تصویر تیس ہزار کے قریب چھپی اس کی مقبولیت اتنی زیادہ تھی کہ بعض اوقات وہ اپنے گھر سے صرف اس لیے بھی نہیں مکل سکتی تھی کہ باہر فوٹو گرافرز کی ناقابلِ عبور فوج کھڑی ہوتی تھی.

اس کے نام کے روزانا کی بنیاد پر اتنے زیادہ خطوط آتے تھے کہ صرف منتخب خطوط پڑھنا بھی اس کیلیے ممکن نہیں ہوتا تھا مطلب ایک شخص جس شہرت و مقبولیت کا صرف سوچ سکتا ہے موصوفہ کو ایسی شہرت نصیب ہوئی تھی ذاتی زندگی میں سو افراد سے زیادہ اپنے عاشقوں کیساتھ وہ جسمانی قربت رکھتی تھی جن میں عورتیں بھی شامل تھی لیکن ان تمام ظاہری اور عارضی کامیابیوں کے باوجود اس کی زندگی سکون و اطمینان سے عاری تھی جس کی وجہ سے اس نے اپنی زندگی میں چار مرتبہ خودکشی کرنے کی کوشش کی ایک مرتبہ تو بہت زیادہ مقدار میں خوآب آور گولیاں کھانے کی وجہ سے جب اس کو ایمبولینس میں ہاسپٹل لے جایا جارہا تھا تو راستے میں فوٹوگرافرز نے اس وقت زبردستی ایمبولینس روک کر تصاویر بنائی جب وہ زندگی و موت کی کشمکش میں تھی۔

بالآخر صرف انتالیس سال کی عمر میں اس نے اپنے فلمی کیریئر کو الوداع کہا اور اپنی قیمتی اور پسندیدہ گاڑی رولس رائس کار فروخت کر کے اپنے مکان میں ایک معمولی انسان کی طرح خاموش زندگی گزار سکے جبکہ اس سے پہلے جس وقت اس کے ذہن پر شہرت کا بھوت سوار تھا ناچاہتے ہوئے بھی ایک بچہ جننا پڑا تو اس عورت نے فطری ممتا کے جذبات کو سبوتاژ کرتے ہوئے اپنے بیٹے تک کو کینسر کا ٹیومر کہتے ہوئے دودھ تک پلانے سے انکار کیا
She Called Him a ‘Cancerous Tumor’ and Refused to Breastfeed
جس مصنوعی اور وقتی چمک دمک کی وجہ سے اس نے اپنا گھر بار والدین حتی کہ اولاد تک کو چھوڑ دیا بالآخر ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ
She never really felt at easy in front of the camera
اس نے کبھی بھی کیمرہ کے سامنے سکون محسوس نہیں کیا۔

نتیجہ وہی نکلا جو نکلنا چاہیے تھا کہ وہ اپنی زندگی کے باقی سال کتے اور بلی پالتے ہوئے گمنامی کی زندگی گزارنے لگی۔
یہ صرف ایک مثال دی گئی ہے اس طرح کے حقیقی واقعات بیسیوں نہیں سیکڑوں کی تعداد میں مختلف ذرائع ابلاغ کے پلیٹ فارمز پر بکھرے پڑے ہیں۔

یہ حقوق نسواں اور روشن خیالی کی تحاریک ہی ہیں جو ان جیسی خواتین کو یہ سوچ دیتی ہیں کہ اپنی زندگی چادر و چاردیواری کی کال کوٹھری سے نکل کر شادی اور رشتوں کی زنجیروں کو توڑ کر مرد کی قوامیت سے بغاوت کرکے مساوات کی بنیاد پر زندگی گزارنا تمہارا پیدائشی حق ہے یہ تحاریک انیسویں صدی کی ابتدا میں شروع ہوئی جن کا دعویٰ ہے کہ ہمارے معاشرے میں جو عورت اور مرد کا فرق ہے ، زندگی کے شعبہ جات اور ان کے دائرہ کار تقسیم شدہ ہیں کہ یہ شعبہ جات مردوں کے ہیں اور یہ عورتوں کے ہیں یہ تقسیم ، حدبندی اور فرق قدیم سماج سے چلتا آرہا ہے جو کہ اس سماج کا ایک ناسور ہے اگر اس فرق کو ختم کر دیا جائے تو مرد و عورت کے درمیان یہ تقسیم بے معنیٰ و لغو رہ جائے گی اور عورت ہر وہ کام کر سکتی ہے جو ایک مرد کر سکتا ہے۔

اگر ایسا معاشرہ تشکیل پا جائے جہاں مرد حضرات خانہ داری اور گھر کے اندرونی معاملات کی دیکھ بھال کریں اور عورت باہر کے معاملات اور ذریعہ معاش کا انتظام سنبھالے تو یہ کوئی بعید از قیاس یا اچنبھے کی بات نہیں کیونکہ یہ فرق کوئی فطرتاً یا تخلیق کے اعتبار سے نہیں بلکہ معاشرے کی وجہ سے ہے اور اسی غیر مساویانہ نظام کی بناء پر عورت اس معاشرے میں ہمیشہ مظلومیت کا شکار رہی ہے مرد ہمیشہ عورت پر حاکم اور مالک کی حیثیت سے حکومت کرتے آرہے ہیں اسی نظریے کا نتیجہ ہے کہ مغربی ممالک یں عورت تمام ہی شعبہء ہائے زندگی میں چاہے وہ سیاست کا میدان ہو یا صنعت و حرفت کا کھیل کا میدان ہو یا طب و انجنیرنگ کا ہر میدان میں مردوں کے برابر آنے کی اب تک فقط کوشش ہی کر رہی ہے لیکن ہنوز دلی دور است۔ اسی طرح یہ تحاریک مذہب پر بالخصوص اسلام پر شدید تنقید کرتی ہے کہ جو اسلام عورت کے مقام دلوانے کی بات کرتا ہے حقیقت میں اسلام کی نظر میں بھی عورت و مرد میں عدم مساوات کی تعلیمات ہی دی جاتی ہیں جیسے قرآن مجید میں فرمایا گیا کہ مرد عورت پر حاکم ہے ۔ اسی طرح عورت کو وراثت میں آدھا حصہ دینا اسی بات کی غمازی کرتا ہے کہ مرد و عورت میں برتری اور کمتری کا فرق موجود ہے۔

اسلام میں مرد کو برتری واقعی حاصل ہے ؟ یا عورت محکوم اور مظلوم ہے ؟ دشمنانِ اسلام کی طرف سے یہی سورۂ نساء کی آیت
اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ
کہ مرد عورتوں پر نگہبان ہیں اس وجہ سے کہ اللّٰہ پاک نے ان میں سے کچھ کو دوسروں پر فضیلت دی ہے

اس آیت میں عورتوں کی کمتری یا عورتوں کو محکوم ثابت نہیں کیا جا سکتا کیونکہ لفظ قوّام کا معنیٰ حاکم ہی نہیں بلکہ اس کا معنیٰ ہے کسی چیز کو قائم کرنے والا حفاظت کرنے والا جیسا کہ علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی نے مفردات الفاظ القرآن صفحہ 416 پر بیان کیا ہے اور یہی معنیٰ یہاں مقصود ہیں کہ مرد گھر کے نظام کو سنبھالنے والے قائم کرنے والا اور حفاظت کرنے والا ہے ۔
اب اس آیت کو بنیاد بنا کر اسلام پر اعتراض بنتا ہی نہیں کہ مرد تو عورت کو محافظ ہے ، مرد تو گھر کے نظام کو قائم کرنے والا ہے ، مجھے بتائیں کہ محافظ حاکم ہوتا ہے ؟ کہاں حفاظت کرنے والا اور کہاں حاکم۔

اسی طرح تفسیر لسان العرب جلد 12 صفحہ 503 میں علامہ جمال الدین محمد بن مکرم متوفی 711 ھ لکھتے ہیں کہ
مرد عورت کا قوام ہے کا معنی ہے کہ مرد عورت کی ضروریات پوری کرتا ہے ، اس کی اخراجات برداشت کرتا ہے۔

اسلام نے مرد وعورت میں کمتری یا برتری کا کوئی تصور پیش نہیں کیا ہاں انسان ہونے کے اعتبار سے ، مذھبی عبادتوں کے اعتبار سے ، ان عبادتوں کے ثواب اور سزا کے اعتبار سے کوئی فرق بیان نہیں کیا بلکہ دونوں ایک دوسرے کا حصہ اور جز ہیں برابر اور حقوق میں مساوات ہی بیان کی ہے جیسا کہ سورۂ آل عمران میں فرمایا گیا کہ
فَاسۡتَجَابَ لَهُمۡ رَبُّهُمۡ اَنِّىۡ لَاۤ اُضِيۡعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنۡكُمۡ مِّنۡ ذَكَرٍ اَوۡ اُنۡثٰى‌‌ۚ بَعۡضُكُمۡ مِّنۡۢ بَعۡضٍ‌‌ۚ
“ان کے رب نے ان کی دعا قبول کی کہ میں تم میں سے کسی مرد و عورت کا عمل ضایع نہیں کرتا تم سب ایک دوسرے سے ہو “

یہ جو فرمایا گیا کہ تم مرد و عورت ایک دوسرے سے ہو گویا یہ بتایا جارہا ہے کہ ایک دوسرے کا جز اور حصہ ہو جب مرد و عورت ایک دوسرے سے ہیں تو پھر ایک افضل و اعلیٰ دوسرا مفضول و کمتر کیسے ہو سکتا ہے اسی طرح قران پاک نے عورت اور مرد کو ایک دوسرے کا لباس فرمایا ہے یہ بھی ایک دوسرے کی تکمیل اور پورا ہونا فرمایا ہے یعنی مرد و عورت ایک دوسرے کے بغیر ادھورے اور نامکمل ہیں۔

اصل میں اسلام نے سماجی زندگی دونوں صنفوں کے مابین یعنی صنف قوی اور صنف نازک کے مابین تقسیم کاری کا اصول قائم کیا ہے دونوں کی سرگرمیوں کا دائرہ کار جدا جدا ہے اور یہ تقسیم کاری کا دائرہ عین فطرت کے مطابق ہے جس اعتراف دنیا کے ماہر ترین فلاسفہ اور ماہر حیاتیات کر چکے ہیں جس کی تفصیل ان شاءاللہ آئے گی ، مرد کی سرگرمیوں کا دائرہ گھر کے بیرونی امور و انتظامات کے گرد گھومتا ہے جبکہ عورت کی سرگرمیوں کا دائرہ امور خانہ داری تک ہے اور یہ تقسیم اس لیے ہے کہ ان کی صنفی صلاحیتیں مجروح نا ہوں ، پیدائشی طور پر دونوں کی صلاحیتیں کام میں آسکیں اور اسی تقسیم کاری کے تحت ایک گھر اور خاندان کا صحت مند محول پروان چڑھ سکے ، یہ تقسیم کاری حقیقت میں انتظامی بنیادوں پر ہے نا کہ کسی ایک صنف کو اعزاز بخشنے کے طور پر اور یہی سمجھنے کی غلطی ہمارے روشن خیال دوستوں اور لبرل طبقے کو ہوئی کہ انہوں نے عین فطری اور پیدائشی صلاحیتوں کی بنیاد پر ذمیداریوں کی تقسیم کاری کو برتری اور کمتری کا فرق سمجھا جس کی وجہ سے ہی مخالفت شدت اختیار کرتے مذمت تک جا پہنچی۔

اسلام کی نظر میں قابلِ تعریف و تحسین ہونے اور قابلِ تقلید ہونے کا معیار دنیا کا مال و دولت نہیں اخروی مغفرت و بخشش یافتہ ہونا ، اخروی نجات پانا ،اور خدا کی رضامندی حاصل کرنا ہے مجھے بتائیے کہ ان میں سے مرد و عورت کیلیے کونسا معیار جدا جدا ہے ؟ کوئی ایک معیار اور اصول بتا دیں جس میں دونوں صنفوں کے مابین فرق کر کے مرد اور عورت کی افضل اور مفضول قرار دے کر ایک کی کامیابی کو آسان اور دوسری کی کامیابی کو مشکل رکھا ہو ؟

تمام ہی ماہر نفسیات یہ تجزیہ کر چکے ہیں کہ چھوٹے بچوں اور بچیوں کی خواہشات ، ان کی عادات و اطوار ، ان کی ترجیحات ، ان کے سوچنے کے زاویے بالکل مختلف ہوتے ہیں اور اس کا تجزبہ ہر کسی کو ہوتا ہے مثال طور جب ہم کھلونے کی دوکان سے کھلونا خریدنے جاتے ہیں تو دوکاندار پوچھتا ہے کہ بچے کیلیے چاہیے یا بچی کیلیے ؟ یہ سوال ہی اس بات کا فیصلہ کر رہا ہے کہ دونوں کی ترجیحات مختلف ہیں عام طور پر بچہ کو پولیس یا فوجی کا یونیفارم پہننا ، ، پستول ، گن یا آئوٹ ڈور کھیلوں کے ساز و سامان ہی چاہیے جبکہ بچی کو گڑیا ، بچوں کے برتن ، ٹیبل کرسی ان ڈور کھلونے اچھے لگتے ہیں ، وہ چھوٹے بچے جن کے شعور کی ابھی ابتدا ہے معاشرے کے تاثرات ان پر نا پڑے ہیں نا انہوں وہ اثرات قبول کیے ہیں تو دونوں کی پسند اور نا پسند ، خواہش اور ترجیحات مختلف کیوں ؟ یہی وہ فطری فرق ہے جس فرق کی وجہ سے اسلام نے دونوں صنفوں کی سرگرمیوں کا دائرہ ان کی ترجیحات اور دلچسپی کے مطابق ہی رکھا ہے جو عین فطرت کے مطابق ہے اور جب اس فطری تقسیم کی مخالفت کر کے مرد و عورت کے مابین مصنوعی مساوات قائم کرنے کی کوشش کی گئی تو برابری قائم ہونے کے بجائے نظامِ معاشرت ہی الٹ پلٹ ہوگیا۔

مغرب میں مصنوعی مساوات کی علمبردار عورت گھر سے نکل کر مرد کے شانہ بشانہ کھڑی ہوئی تو وہ نا گھر کی رہی نا گھاٹ کی مزید ظلم کی چکی میں پِسنا زندگی بھر کا روگ بن گیا اس غیر فطری مساوات کے نتائج کچھ اس طرح سامنے آئے کہ عورت آزادی کے نام پر گھر اور خاندان سے بے نیاز ہو گئی اس کیلیے شادی قید و پابندی بن گئی لہذا وہ شادی کے بغیر جسمانی تقاضے پورے کرنا اپنا حق سمجھنے لگی ، امریکی جریدے کے مطابق اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دفتروں میں کام کرنی والی عورتوں میں 90 فیصد عورتیں کام کے دوران حاملہ ہوگئی اور بڑھتے پیٹ کی وجہ سے نوکری سے ہاتھ دھونا پڑا
The heavy burden of holding down a job and the children at the same time.
عورت کیلیے یہ بہت بڑا مسئلہ پیدا ہوگیا کہ وہ ایک ہی وقت میں بچہ کی پیدائش اور پرورش بھی جاری رکھیں اور نوکری بھی ایک ہی وقت میں۔

اسی قسم کی ایک امریکی عورت Lillian Garland للین گارلینڈ نوکری کے دوران حاملہ ہوگئی آخری دو ماہ چھٹی لے لی آپریٹ ہوا بچی پیدا ہوئی لیکن ڈاکٹرز نے تین ماہ تک گھر میں رہنے کا کہا اس نے ایسا ہی کیا ، لیکن جب وہ بعد میں دفتر گئی تو پتا چلا کہ کسی اور عورت کو اس کی جگہ پر مستقل نوکری پر رکھ دیا گیا ہے اور اس کی اب دفتر میں کوئی جگہ نہیں للین نے امریکی فیڈرل کورٹ میں کیس دائر کیا کہ کمپنی نے اس کیساتھ ناروا سلوک اختیار کیا ہے اسے دوبارہ نوکری ملنی چاہیے پانچ سال تک کیس کی سماعت ہوتی رہی للین کیساتھ حقوق نسواں کی تحریکیں بھی اس کیس میں شامل ہوگئی گویا حقوق نسواں کی تحاریک اور کمپنی مالکان کے مابین کیس چل رہا تھا اس کے بعد کورٹ نے فیصلہ للین کے حق میں دیتے ہوئے کہا کہ جس ادارے میں عورت کام کر رہی ہے اس ادارے کو چاہیے کو حاملہ خاتون کو چار ماہ کی باضابطہ رخصت دے ، عورتوں کی آزادی جیت گئی لیکن اس فیصلے کے بعد جو ماہرین اور تاجر برادری کے تجزیے اور مؤقف سامنے آئے وہ حقیقت کا پردہ چاک کرنے والے تھے ڈون بٹلر جو اس وقت مرچنٹ اینڈ مینو فیکچرز ایسوسی ایشن کے صدر تھے وہ کہتے ہیں کہ اس طرح عورتوں کو باضابطہ چار ماہ کی رخصت دینا کمپنیوں کا دیوالیہ نکال دے گا یہ ایک انتہائی مہلک فیصلہ ہے۔

Chamber of commerce کے اٹارنی لیمپ نے کہا discrimination against women might increase , many companies won’t hire woman in their childbearing years.
اس طرح عورت کے خلاف امتیازی سلوک مزئد بڑھ جائے گا بہت سے کمپنیاں بچہ پیدا کرنے کی عمر میں عورتوں کو اپنے یہاں رکھنا ہی نہیں چاہیں گی ۔ گویا کہ عورت کیلیے نوکری کرنے کے دروازے ہی بند کیے جارہے ہیں اور جب ایسا ہی ہوا عورتوں کیلئے مشکلات بڑھ گئی تو آخر کا ان ہی کی ایک مشہور عورت Betty Friedan نے کہا کہ
Equality doesn’t mean woman have to fit the male model.
برابری کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ عورت مرد کے نمونے پر پورا اترے۔

یہ درحقیقت اس قدیم فطری قانون اور تہذیب کا دبے الفاظ میں اعتراف کرنا تھا لیکن اس تہذیب کو جدید تہذیب نے عورت کیساتھ امتیازی سلوک سمجھا ، عورت کو مظلوم بنا کر پیش کیا عورتوں کو گھروں سے نکال کر دفتروں ، فیکٹریوں ، سڑکوں میں کھڑا کر دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عورت کیلیے مشکلات مزید بڑھ گئی وہ عورت گھر سے بھی باہر ہو گئی باہر والوں نے بھی ایک وقت میں اپنے دروازے بند کر دیے فطرت سے جنگ کرنے سے صحتمند معاشرے کی تباہی کے علاوہ اور کیا حاصل ہونا ہے مثال کے طور پر ایک سرجن ڈاکٹر کہے کہ تخلیقاً منہ پیٹ پر ہونا چاہیے اور وہ آپریٹ کر کے کسی کا منہ واقعی پیٹ میں لگاتا ہے تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا ؟ دنیا اس کی بے وقوفی پر ہنسے گی اور جس فرد پر یہ بھونڈا تجربہ کیا جائے اس کی زندگی کو الگ خطرہ لاحق ہوگا کچھ ایسا ہی مغربی تہذیب نے بھی کرنے کی کوشش کی کہ عورت کو مظلوم و ماتحت سمجھ کر مرد کے معیار پر لانا چاہ رہے تھے اور عورت ہی کیلیے دشواریاں پیدا کر دی۔

قدیم تہذیبی تقسیم عین فطرت کی کیوں ہے ؟
یہ سوال ممکن ہے کیا جائے فطرت اور تخلیق آپس میں گہرا تعلق رکھتی ہیں تخلیقی جہات سے ہی فطرت تشکیل پاتی ہے اور یہاں مرد و عورت کی تخلیق میں ہی فرق ہے جس کی بناء پر فطرت نے یہ فرق لازم رکھا میڈیکل کی دنیا یہ بہت پہلے اعتراف کر چکی ہے کہ
خواتین کے ہارمونز کا پیٹرن زیادہ پیچیدہ اور مختلف ہیں۔ جسم کا ہر خلیہ کے لحاظ سے مرد اور خواتین میں اختلاف ہے کیونکہ مردانہ ہارمون ٹیسٹوسٹیرون ہیں جبکہ عورتوں کا ہارمون اوسٹروجن ہے اسی خلیاتی فرق کی وجہ سے پہلوانہ یا وحشیانہ طاقت کے لحاظ سے مرد 50 فی صد زیادہ مضبوط ہیں۔ امریکہ کے ایک پروفیسر اسٹیون گولڈ برگ نے لکھا ہے۔

“اس فرق کی زیادہ حقیقت پسندانہ توجیہ یہ ہے کہ اس کو مردانہ ہارمون Male Harmone کا نتیجہ قرار دیا جائے جو کہ ابتدائی جرثومہ حیات پر اس وقت غالب آجاتے ہیں جب کہ ابھی وہ رحم مادر میں ہوتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ چھوٹے بچے چھوٹی بچیوں سے ہمیشہ جارح ہوتے ہیں۔

ایک تحقیق کے مطابق خواتین کے خون میں پانی کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ان میں بیس فی صد سرخ خلیے کم ہوتے ہیں یہ خلیے جسم کو آکسیجن فراہم کرتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ خواتین جلدی تھک جاتی ہیں۔

خلاصۂ کلام یہی بنتا ہے کہ مرد و عورت کی سرگرمیوں کی تقسیم کاری کہ عورت خانہ داری کے معاملات کو کو دیکھے سنبھالے چلائے اور مرد بیرونی معاملات ، ذریعہ معاش کے انتظامات سنبھالے اسی اصول میں ایک گھر ، خاندان اور معاشرے کی تعمیر و ترقی پنہاں ہے یہی اصول عین فطرت ہے اسی اصول کی تائید جدید طبی تحقیقات کرتی ہیں ، یہی نظام قدیم زمانے سے معاشرے میں چلتا آرہا ہے اسی کی تعلیم مذھب اسلام نے دی یہ کوئی برتری اور کمتری کا اعزاز نہیں صنفوں کے مابین سرگرمیوں کی تقسیم ہے اگر اس کے خلاف جانے کی کوشش کی گئی تو اس کے خوفناک نتائج آ چکے اور سنجیدہ افراد جو پہلے اس نظامِ فطرت کے باغی تھے بھی تجرباتی مراحل کے بعد اپنی غلطی کا اعتراف بھی کر چکے ہیں ہر ذی شعور انسان فیصلہ کر سکتا ہے۔

تحریر ابو عمر غلام مجتبیٰ چنا