جب ہر چیز مقدر میں ہے تو بروز قیامت حساب کیوں ؟

0
میں نہیں دیتا حساب زندگی کا
کیا مجھ سے پوچھ کر بنایا تھا

اسلام کے دشمنوں نے جہاں کئی طور طریقوں سے اسلام کی بنیادوں پر حملہ کیا اسی طرح فنِ شاعری کے ذریعے بھی نوجوان نسل کے ذہنوں میں اسلام کے بارے میں تشکیک کی کوشش کرتے ہوئے جون ایلیا کا مذکورہ بالا شعر بار بار سوشل میڈیا پر پوسٹ کر کے تقدیر پر سوالات اٹھاتے ہیں ، ملحدانہ سوچ رکھنے والے ایک شخص نے کہا
چلو بھئی حساب دو ، کس کا ؟
وہی جو میں نے تمہارے مقدر میں لکھا تھا
گویا کہ کہا جا رہا ہے کہ جب ہر چیز مقدر میں لکھی تھی اور جو کچھ لکھا تھا انسان مجبور ہو کر وہی کرتا ہے تو آخرت کا حساب کتاب کیوں لیا جائے گا ؟ بقول مسلمانوں کے انسان اس دنیا میں ایک لکھے لکھائے اسکرپٹ پر ایکٹنگ کرنے آتا ہے تو جس نے اسکرپٹ لکھ کر دیا وہ یہ کیوں پوچھے گا کہ یہ کیوں کیا یا یہ کیوں کہا ؟

اس طرے کے سوالات درحقیقت مسئلہ تقدیر سے لا علمی اور جہالت کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں اگر تقدیر کے عقیدے کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے تو یہ سوالات بنتے ہی نہیں تقدیر کا مسئلہ ایک انتہائی حساس اور اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک عقیدہ ہے قضا و تقدیر کا مکمل عقیدہ سمجھنا ضروری ہے چنانچہ صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ بہار شریعت حصہ اول میں فرماتے ہیں کہ
قضا و قدر کے مسائل عام عقلوں میں نہیں آ سکتے ، ان میں زیادہ غور و فکر کرنا سببِ ہلاکت ہے، صدیق و فاروق رضی ﷲ تعالیٰ عنہما اس مسئلہ میں بحث کرنے سے منع فرمائے گئے۔ ما و شما کس گنتی میں ۔۔۔! اتنا سمجھ لو کہ ﷲ تعالیٰ نے آدمی کو مثلِ پتھر اور دیگر جمادات کے بے حس و حرکت نہیں پیدا کیا، بلکہ اس کو ایک نوعِ اختیار دیا ہے کہ ایک کام چاہے کرے، چاہے نہ کرے اور اس کے ساتھ ہی عقل بھی دی ہے کہ بھلے، بُرے، نفع، نقصان کو پہچان سکے اور ہر قسم کے سامان اور اسباب مہیا کر دیے ہیں ، کہ جب کوئی کام کرنا چاہتا ہے اُسی قسم کے سامان مہیّا ہو جاتے ہیں اور اسی بنا پر اُس پر مؤاخذہ ہے۔اپنے آپ کو بالکل مجبور یا بالکل مختار سمجھنا، دونوں گمراہی ہیں۔

جبکہ ملحدین جس انداز سے اعتراض کرتے ہیں دراصل وہ جبریہ فرقے کا نظریہ ہے جیسا کہ وہ کہتے ہیں کہ انسان کا اصلا کو فعل نہیں ہے اور اس کی حرکات بمنزلہ جمادات کی حرکات ہیں انسان کی کوئی قدرت ہے نہ اختیار اس کا قصد ہے نہ ارادہ ۔ یعنی انسان مجبورِ محض ہے وہ جو کچھ بھی حرکت و سکنت کرتا ہے تقدیر کی وجہ سے مجبور ہوکر کرتا ہے اس کا کوئی بھی عمل ذاتی نہیں جیسے ، پتا اور تنکا تیز ہوا میں اپنی چاہت و ارادے کے بغیر اڑتا اور حرکت کرتا رہتا ہے کیونکہ قرآن مجید میں ارشاد ہے

*وَمَا تَشَاءُونَ إِلا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ*
(التکویر : ٢٩)
اور تم چاہ نہیں سکتے جب تک اللہ رب العالمین نہ چاہے۔
ملحدین جو تقدیر پر اعتراض کرتے ہیں ان کیلیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ انسان کی تقدیر لکھی بھی گئی ہے اور انسان با اختیار بھی ہے یہ کیسے ممکن ہے ؟
تقدیر سے مراد وہ اصول اور قوانین فطرت ہیں جن کے تحت یہ کارخانہ قدرت معرض وجود میں لایا گیا۔ قوانینِ فطرت میں سے ایک اصول یہ ہے کہ اگر کوئی شحص نیکی کرے گا تو اسکے نتائج بھی نیک ہوں گے اور برائی کے ثمرات بھی برے ہی ہوں گے۔

قدر اور تقدیر کا لغوی معنیٰ اندازہ کرنا، طے کرنا اور مقرر کرنا ہے۔
راغب اصفهانی، المفردات، 395
*اس سے مراد کائنات اور بنی نوع انسان کے احوال کا وہ علم ہے جواللہ تعالیٰ کے پاس لوح محفوظ میں لکھا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے* :
*وَكُلَّ شَيْءٍ أحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُبِينٍ*
يٰسين، 36، 12
’’ *ہر چیز کو ہم نے کتاب روشن یعنی لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے۔‘‘*

اسی طرح سورۃ الرعد میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا
” *يَمْحُو اللّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ وَعِندَهُ أُمُّ الْكِتَابِ*
ترجمہ ’’اللہ جس (لکھے ہوئے) کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور (جسے چاہتا ہے) ثبت فرما دیتا ہے اور اسی کے پاس اصل کتاب (لوح محفوظ) ہے۔‘‘
گویا تقدیر علم الٰہی کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علم میں کیا ہے؟ وہی بہتر جانتا ہے، ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اس بات پر یقین رکھیں کہ جو کچھ ہوا، ہو رہا ہے اور ہوگا، سب اللہ کے علم میں ہے۔ اسی کے طے کردہ وقت اور مقام کے مطابق ہوتا ہے۔ اس عالمِ الغیب کے لیے کوئی حادثہ اچانک نہیں ہوتا کیونکہ وہ سب کچھ پہلے سے جانتا ہے۔

جب ہر چیز مقدر ہے تو انسان کو اختیار کیسا ؟ قرآن مجید کی روشنی میں اور عقلاً دونوں اعتبار سے دیکھتے ہیں کہ انسان کو اختیار بھی دیاںگیا ہے یا نہیں ؟ اللّٰہ پاک نے فرمایا
*فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ* (الکھف :29) ترجمہ
” جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے کفر کرے۔”
اس سے واضح اور کیا دلیل ہوسکتی ہے کہ انسان جو چاہے کرے یعنی ایمان لائے یا کفر کرے ، قرآن پاک میں متعدد مقامات پر فرمایا گیا ہے کہ بروز قیامت نیک و بد کو ان کے اعمال کی وجہ سے ان کے افعال کے مطابق بدلا دیا جائے گا جیسا کہ فرمایا

*جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ* (الواقعہ : 24) یہ ان (نیک کاموں کی جزا ہے جو وہ (دنیا میں) کرتے تھے۔
*یہی مفہوم سورۂ الاحقاف آیت 14 ، سورۂ التوبہ 95 ، میں بھی فرمایا گیا ، یہاں قابلِ غور یہ الفاظ ہیں کہ” جو وہ کرتے تھے ” اگر انسان اپنے اختیار سے کچھ نہیں کرتا تو فعل کرنے کی نسبت بھی انسان کی طرف نہیں ہونی چاہیے لیکن انسان کی طرف کی گئی مزید تفصیل دیکھیں تو انسان سے دو طرح کے کام صادر ہوتے ہیں مثلا ایک انسان نے نماز پڑھی، روزہ رکھا، کھانا کھایا اور سفر کیا، اس کے بر خلاف جب ہم کہتے ہیں کہ لڑکا جوان ہوگیا، جوان بوڑھا ہوگیا فلاں بیمار ہوگیا، فلاں مرگیا تو ہم بداہتاً جانتے ہیں کہ پہلی قسم کے افعال اختیاری ہیں یعنی اس نے نماز پڑھی روزہ رکھا اور دوسری قسم کے افعال غیر اختیاری ہیں یعنی لڑکا جوان ہوگیا یا جوان بوڑھا ہوگیا، اور پہلی قسم کے افعال میں انسان مختار ہے اور دوسری قسم کے افعال میں انسان بے اختیار ہے ، حساب و کتاب اختیاری افعال پر ہونگے بے اختیاری افعال پر حساب و کتاب یا سوال و جواب نہیں ہونگے*

اب ذرا جبریہ کی دلیل دیکھیے کہ جو انسان کو مجبورِ محض سمجھتے ہیں وہ کہتے ہیں اللّٰہ پاک نے فرمایا ” *اور تم چاہ نہیں سکتے جب تک اللہ رب العالمین نہ چاہے۔* “
اس کے تحت مفسرین نے فرمایا کہ اس سے مراد تمہارا ارادہ اور تمہارا چاہنا وہی ہوتا ہے جس کا اللہ کو پہلے سے ہی علم ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا یہ علم تمہیں اس بات پر مجبور نہیں کرتا ہے کہ تم وہی کام کرو جو پہلے سے اللہ کے علم میں ہے ۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اللّٰہ چاہتا ہے تو تم چاہتے ہو لیکن کیا چاہتے ہو یہ کب انسان کے اوپر لازم کیا ہے ، انسان خیر یا شر کی جو چاہت کرتا ہے یہ تو اختیاری ہے اور انسان کی اسی اختیاری چاہت ہی کے بارے میں سوال ہوگا یہ اعتراض تب بنتا جب انسان کی چاہت و منشاء بھی اللّٰہ کی چاہت کے تابع ہو ۔
عقلاً دیکھا جائے تو بھی انسان اپنے افعال میں با اختیار ہے اگر انسان بے اختیار ہوتا تو کسی نیک شخص کو جنت کی نعمتیں کس وجہ سے ملیں گی ؟ جب کہ وہ عمل جس کے عوض میں جنت مل رہی ہے وہ اس کا اختیاری عمل ہے ہی نہیں ، کسی بدکار کو اس کی نافرمانی کی سزا کیوں ملے گی جبکہ اس کے فعل کے کرنے میں اس کی مرضی شامل ہی نہیں تھی ، اگر اختیار نا ہوتا تو انبیاء کرام علیہم السلام کو دنیا میں بھیجا ہی کیوں گیا ؟ کتب کیوں نازل کی گئی ؟

اختیار اور عدم اختیار کی پرکھ حرکت و سکنت سے بھی کی جا سکتی ، رعشہ ایک بیماری ہے جس میں ہاتھ کانپتا ہے گویا ہاتھ حرکت کرتا ہے جبکہ دوسرا شخص تندرست ہے وہ بھی ہاتھ کو حرکت دیتا ہے ہر ذی شعور جانتا ہے کہ رعشہ کی بیماری والے شخص کی حرکت بے اختیاری اور گلاس اٹھانے والے کی حرکت اختیاری ہے اگر انسان کا عمل بلا اختیار ہوتا تو عرف کے اعتبار سے یہ جملہ کہ پاکستان محمد علی جناح نے بنایا غلط ہونا چاہیے کیونکہ ان کی تحریک تو بلا اختیار تھی ، لیکن ایسا نہیں کیونکہ تحریک با اختیار اور با مقصد تھی اس لیے یہ جملہ بلا تردد درست ہے

یہاں پر ایک سوال اٹھتا ہے کہ انسان کا فعل اور عمل بھی ایک شیٔ ، چیز ہے کیونکہ اس فعل اور عمل کا وجود ہے ، اور ہر چیز کا خالق اللّٰہ تعالیٰ ہے تو انسان کے فعل کا خالق بھی اللّٰہ تعالیٰ ہے تو پھر اس عمل اور فعل کرنے کا جوابدہ انسان کیوں ؟ اس عمل و فعل میں انسان کا کیا عمل دخل ہے ؟
اس کا جواب کچھ اس طرح دیا جاتا ہے کہ فعل کا خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے جبکہ بندہ اس فعل کا کسب کرنے والا ہے بندے سے اسی کسبِ فعل کا سوال ہوگا کسب اور فعل کا فرق اس طرح سمجھیں کہ کسی فعل کی طرف بندہ کا اپنی قدرت اور ارادہ کو خرچ کرنا کسب ہے اور اس فعل کو بندہ کے ارادہ کے بعد موجود کرنا خلق ہے اور ایک مقدور دو قدرتوں کے تحت داخل تو ہے لیکن دو مختلف جہتوں سے پس جہت ایجاد سے فعل اللہ تعالیٰ کا مقدور ہے اور جہت کسب سے فعل بندہ کا مقدور ہے اور یہ عقلاً ممکن ہے کہ ایک چیز کی دو چیزوں کی طرف دو مختلف جہتوں سے نسبت ہوسکتی ہے جیسے زمین کا اللہ تعالیٰ اس جہت سے مالک ہے کہ اس نے اس کو پیدا کیا ہے اور بندہ اس کا اس جہت سے مالک ہے کہ اس نے اس کو خریدا یا وہ اس کو وراثت میں ملی ہے یا کسی نے اس کو وہ زمین ہبہ کی اور اس وجہ سے اس کا اس میں تصرف کرنا صحیح ہے، اسی طرح فعل اللہ کی طرف خلق کی جہت سے منسوب ہے اور بندہ کی طرف کسب کی جہت سے منسوب ہے۔ کسبِ عمل پر سوال و جواب ہوگا اس اکتسابِ فعل کے بارے میں قرآن میں فرمایا گیا ہے
القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة
آیت نمبر 141
*لَهَا مَا كَسَبَتۡ وَلَـكُمۡ مَّا كَسَبۡتُمۡ‌ۚ وَلَا تُسۡئَـلُوۡنَ عَمَّا كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ*

۞
ترجمہ:
*اس نے جو کام کیے اس کے لیے ان کا بدلہ ہے اور تم نے جو کام کیے تمہارے لیے ان کا بدلہ ہے ‘ اور ان کے کاموں کے متعلق تم سے کوئی سوال نہیں کیا جائے گا*
لہذا قضاء و قدر بھی حق ، انسان کا اختیار بھی حق اور اسی اختیار سے جس فعل کا انسان اکتساب و ارتکاب کرتا ہے اس کا جوابدہ بھی انسان کو ہونا ہی ہے ان میں کوئی تعارض و تضاد اصلاً نہیں ہے۔
30/5/23

✍️ ابو عمر غلام مجتبیٰ چنا