عورت کی آزادی کا اسلامی تصور

0

کرہ ارض کے بائیس لاکھ مربع میل سے زائد حصے پر حکمرانی کرنے والا شخص جس کے نظام حکومت میں مساوات، عدل و انصاف جس انتہا پر تھا اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی ایک بار مدینہ منورہ میں ایک بوڑھی خاتون خولہ بنت حکیم رضی اللّٰہ عنہا امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو سرِعام روک کر کھڑی ہے اور کہہ رہی ہے کہ ’’عمر! وہ دن یاد رکھو جب تمہیں عکاظ کے بازار میں صرف عمر کے نام سے یاد کیا جاتا تھا اور آج تم امیر المؤمنین کہلاتے ہو اس لیے خدا سے ڈرتے رہو اور انصاف کا دامن مضبوطی سے پکڑے رہو۔

حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ اس بوڑھی عورت کے سامنے سر جھکائے کھڑے ہیں اور اپنے عمل کے ساتھ دنیا کو بتا رہے ہیں کہ *انسانی معاشرہ میں مرد کی طرح عورت کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ راہ چلتے امیر المؤمنین کا راستہ روک کر کھڑی ہو جائے اور عدل و انصاف کی تلقین کرے۔

اس واقعہ سے تھوڑا اور پیچھے جائیں زمانہ جاھلیت میں عورت کی اس معاشرے میں جو حیثیت تھی وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ، تاریخ انسانی میں سب سے پہلے عورت کو باپ کی میراث سے حصہ اسلام نے دیا ، قدرت نے تو فطرت انسانی میں یہ حقیقت رکھی ہے کہ عورت چاہے کسی بھی روپ و رشتہ میں ہو قدرت کا قیمتی تحفہ ہے جس کے بغیر کائناتِ انسانی کی ہرشے پھیکی اور ماند ہے۔ لیکن آج کل کی یہ لبرل آنٹیاں اسلام کی تعلیمات سے ناواقف ہونے کی بناء پر اسلام ہی کی مخالف و دشمن بنی ہوئی ہیں ، لیکن مارچ کے ماہ میں عورت مارچ کے دوران جو پلے کارڈز پر واہیات و بے غیرتی کے جن حقوق و مطالبات کو پیش کیا جاتا ہے ان پر بات کرکے وقت کو ضائع کرنے کے بجائے یہ باور کرانا زیادہ ضروری سمجھتا ہوں کہ اسلام میں عورت کو محض تابع اور فرمانبردار نہیں بلکہ ایک علیحدہ اور مکمل فرد کی حیثیت دے کر اس کو جو حقوق و آزادی دی گئی ہے جو کہ اسلام سے پہلے عورت کو حاصل نہیں تھی اس سے دنیا کو آگاہ کیا جائے ، اگر دور نبوی کا جائزہ لیا جائے تو اس دور میں عورتیں دین کا علم بھی حاصل کرتی تھیں ، دنیا کا علم بھی حاصل کرتی تھیں۔ زراعت بھی کرتی تھیں۔ تجارت اور صنعت و حرفت کا کام بھی کرتی تھیں اور اپنی جائیداد اور مال و اسباب کا انتظام بھی سنبھالتی تھیں۔

دور صحابہ کی تاریخ مرتب کرنے والی کتابیں ایسی صحابیات کے تذکروں سے بھری پڑی ہیں جنہوں نے دینی علم کے مختلف شعبوں میں کمال حاصل کیا تھا۔ صرف یہی نہیں بلکہ بے شمار بڑے علماء نے انہی خواتین سے دین کا علم حاصل کیا۔ پورے دور صحابہ میں یہ ایک عام طریقہ تھا کہ لوگ امہات المومنین کے پاس اپنے دینی مسائل کے حل کیلئے رجوع کرتے تھے۔ مگر ان کے علاوہ بھی بے شمار خواتین اس معاملہ میں مشہور ہیں۔ مثلاً بنت ربعی معوذ رضی اللہ عنہا ایک بڑی عالمہ تھیں۔حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت ابن عمر ان سے سیکھتے تھے۔ بہت سے آدمیوں نے ان سے حدیث روایت کی ہے مثلاً سلمان بن یاسر، عباد ابن ولید ، نافع مولا ابن عمر ۔ اسی طرح فاطمہ بنت قیس چند بہت بڑے علماء مثلاً ابن مسیب ،عروہ ابن زبیر اور شعبی کی استاد تھیں۔ (الاسیتعاب فی الا اسماء والاصحاب)
سعد بن وقاص رضی اللّٰہ عنہ کی بیٹی عائشہ بھی بہت بڑی عالمہ تھیں۔ ان کے شاگردوں میں امام مالک ،ایوب سختیانی اور حکم بن عتیبہ جیسے علماء وفقہاء شامل تھے۔ (تہذیب التہذیب جلد دوازدھم)۔ اسی طرح امام شافعی جیسے عظیم انسان نے علم حدیث سیدہ نفسیہ سے حاصل کیا جو حضرت حسن رضی اللّٰہ عنہا کی پوتی تھیں۔(وفیات الاعیان الابن خلکان ۔ جلد دوم)

یہی حال دنیوی علم و ادب کا تھا۔ مثلاً شاعری کے میدان میں بیسیوں صحابیات کا ذکر آتاہے جن میں حضرت خنساء ،سودہ ، صفیہ، عاتکہ ، مریدیہ، ام ایمن اور کئی دوسرے نام شامل ہیں ۔
امام ابن قیم نے دور نبوی کے صحابہ وصحابیات رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین میں فقیہہ (Jurists ) کہ جنہوں نے قانونی معاملات پر نا صرف اپنی آراء دیں بلکہ فیصلے بھی کئے۔اُن کی فہرست مرتب کرکے واضح کیاہے کہ ان میں ایک بڑی تعداد خواتین کی تھی۔ مثلاً حضرت عائشہ ،حضرت ام سلمہ ، حضرت حفصہ ، حضرت صفیہ ، اُم عطیہ ، اُم صبیہ ، لائلہ بنت قائم ، اسماء بنت ابوبکر،ام شریک ۔ خولہ، بنت ام درداء، عتیقہ بنت زید ، سہلہ بنت سہیل، جویریہ ، میمونہ، فاطمہ بنت قیس، ام ایمن ، ام یوسف، اور عاصریہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنھن وغیرہ ان میں شامل ہیں۔ (اعلام الموقعین ۔ جلد اول)
*طب اور جراحت (میڈیسن اور سرجری) کے ضمن میں رفاضہ اسلمیہ ، ام مطاع ، ام کبغہ ، صمنہ بنت حجش ،ام عطیہ اور ام سلیم کے علاوہ کئی دوسری صحابیات بہت مشہور تھیں۔* (طبقات ابن سعد،اصابہ)
*اس زمانے میں خواتین آزادانہ طور پر تجارتی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتی تھیں۔ اس امت کی سب سے محترم خاتون ام المومنین حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللّٰہ عنہا ایک تاجر تھیں۔ بہت سی صحابیات مثلاً حضرت خولہ ، الخمیہ، ثقافیہ اور بنت مکرمہ خوشبو کی تجارت کرتی تھیں۔* ( بحوالہ اصابہ فی تمیز الصحابہ۔ جلد چہارم)

طبقات ابن سعد میں ایسے بہت سے واقعات بیان ہوئے ہیں جن سے معلوم ہوتاہے کہ *صحابیات نہ صرف یہ کہ زراعت و تجارت اور صنعت وحرفت کرتی تھیں۔ بلکہ وہ اپنے شوہروں کے ساتھ آزادانہ طورپر کام کرتی تھیں* ۔ مثلاً حضرت عبداللہ بن مسعود کی اہلیہ ایک ماہر کاریگر تھیں۔ ایک دن وہ حضور کے پاس آئیں اور پوچھا، ” میں ایک کاریگر عورت ہوں ۔ چیزیں بناتی ہوں اور بیچتی ہوں ۔ لیکن میرے شوہر اور بچوں کا کوئی ذریعہ روزگار نہیں۔ کیا میں اپنی آمدنی ان پر خرچ کرسکتی ہوں۔ اس پر حضورؐ نے جواب دیا” یقیناً تم کر سکتی ہو۔ اس کا تمہیں اجر ملے گا ” الاصابہ فی تمیز الصحابہ جلد چہارم۔
اس کا صاف اور واضح مطلب ہے کہ اسلام نے گھر کی ذمیداریوں کے ساتھ ساتھ عورت پر دین کی تعلیم لازم کی اور دنیاوی تعلیم کی ترغیب ، زندگی کی ہر شعبے میں اپنی خدمات ادا کرنے کا حق اور آزادی دی چاہے تو بزنس ہو یا کسی شعبہ میں مہارت و کاریگری *تو یہ کونسی مخلوق ہے جو اپنے حقوق کا مطالبہ کرتے ہوئے کبھی مدرسہ کو بدنام کر رہی تو کبھی قاری قران پر الزامات لگا رہی ہے تو کبھی اسلام کے قوانین پر ضرب لگا رہی ہے تو کبھی باپ ، بھائی اور شوہر جیسے رشتوں کے تقدس کو پامال کر رہی ہے ؟

ہاں اگر یہ قوم غیر انسانی اور غیر فطری ، مادر پدر آزادی چاہتی ہے جیسے ہم جنس پرستی یا شادی کے بعد بھی مختلف مردوں سے تعلقات قائم کرنا یا پتھروں کے زمانے کی طرح ننگے رہنا تو پھر ایسی نفسیاتی بیمار قوم جو عقل و فطرت کے اعتبار سے انسانی مرتبہ سے پست ہوتے ہوتے غیرِ ذوی العقول حیوان کے درجے تک گر گئی ہو* اس قوم کو مہذب انسانوں کے معاشرے میں رہنا یقیناً اس کیلیے گھٹن کا ماحول ہوگا جس سے نکلنا اس کا پورا پورا حق ہے۔

تحریر ابو عمر غلام مجتبیٰ مدنی