الحاد سے کیسے بچا جائے

0

اسلام ایک ابدی مذہب ہے جسے صلیبی حملہ آوروں نے طاقت کے زور پر ختم کرنے کی کوشش کی جس کا آغاز اسلام کی آمد سے ہی ہوچکا تھا، خلافت عباسیہ کے دور میں اسلام پر تاتاری اور صلیبی طاقت کے ناامید ہونے کے بعد تیمورلنگ کو جو مذہباً شیعہ تھا عثمانیہ کے خلاف بھڑکایا، یزید کو شکست دے کر اسلام کے بڑھتے ہوئے نفوذ کو روکا گیا مگر محمد ابن الفاتح نے قسطنطیہ فتح کیا اور خیر امیر ہذہ الامۃ کے مصداق ٹھہرے۔

اپنی طاقت کے بل بوتے پر اسلام کے خلاف ان اہلِ کتاب کی پہ در پے اتنی شکست ہوگئی تھی کہ اب یہ مایوس ہوگئے اور انہوں نے قتال کے راستے کو چھوڑ کر فکری بربادی کا راستہ اپنایا، علوم عربیہ اسلامیہ کو حاصل کیا اس میں مہارت حاصل کی اور اسلام پر ایسی کتابیں تصنیف کیں جن میں اعتراضات اور شبہات کا دھیڑ لگا دیا۔ مسلمانوں نے انہیں پڑھا اور وہ دین سے دور ہونے لگے۔ پھر انہوں نے آزاد تحقیق کا دھونگ رچا کر بچے کھچے مسلمانوں کو اس میں پھنسایا اور یوں مسلمانوں کی بڑی تعداد اسلام سے دور ہوگئی۔

سترھویںصدی کے اواخر میں صنعتی انقلاب کا آغاز ہوا، سائنس اور علم جدید کے نام سے انہوں نے کالجز قائم کئے نصاب میں الحاد اور بے دینی کا زہر بھر دیا۔ اور اسی نصاب تعلیم کی تکمیل کے ساتھ معاش کا مسئلہ جوڑ دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان اس پر ٹوٹ پڑے اور انیسویں صدی کے آنے تک مسلمانوں کا بڑا طبقہ دینی علوم کو خیرباد کہہ کر علم جدید کے پیچھے لگ گیا جس سے ان میں مذہبی بیزاری پیدا ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے مسلمانوں نے اسلامی خلافت کے خلاف محاذ آرائی کی جس کے پیچھے یہی سیکولر اور جدید تعلیم یافتہ طبقہ کار فرما تھا جو اہل کتاب یہود و نصاری کے دھوکے کا شکار ہوچکا تھا۔

دشمنانِ اسلام نے اسلام کو کمزور کرنے کے لیے سقوط خلافت کو ضروری تصور کیا اور بیسویں صدی کے آنے تک کمال اتاترک نے سقوط خلافت کا اعلان کردیا اور یہیں سے مسلمانوں کا تاروپود بکھر گیا جو اب تک ۸۴؍ سال کے بعد بھی بکھرا ہوا ہے۔ اگرچہ اب ایک بار پھر احیاء اسلام کی تحریکات دنیا کے ہر علاقہ میں کھڑی ہورہی ہیں اور الحمدللہ کچھ حد تک کامیاب بھی ہور ہی ہیں مثلاً اخوان المسلمین متحدہ مجلس عمل وغیرہ اور دشمن کو ایک بار پھر یہ خدشہ ہونے لگا ہے کہ کہیں قیام خلافت کا واقعہ پھر رونما نہ ہوجائے۔
اللہم لاسہل إلا ما جعلتہ سہلاً وَ أنت تجعل الحزن سہلا إذا شئت لااِلہ إلا اللّہ الحلیم الکریم و الحمد لِلّہ رب العرش العظیم۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ احیاء اسلام کی اس تحریک کو کیسے کامیاب بنایا جائے اور الحاد جواب کمرتوڑ رہا ہے اور واپسی کا سائنس لیریاں اسی کو کیسے کیفرکردار پہنچایا جائے تو بندہ ناکارہ اور گنہ گار کے ذہن میں چند تجاوز اس سلسلے میں گردش کر رہی جو قارئین کے سامنے پیش کرنے کی جسارت کررہا ہوں۔ امید ہے کہ مسلمان اس پر توجہ دے کر غور و فکر کریںگے اور مل بیٹھ کر مناسب صحیح ہونے کی صورت میں اختیار کریںگے یا پھر معترف اور فکر مند متدین ذی استعداد نیک سیرت علما کی طرف رجوع کریں اور کوئی صحیح راہ تجویز کریں امت مسلمہ کے لیے چند تجاویز:
عام حالات کے تناظر میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پوری دنیا بے چین اور مضطرب ہے وہ سکون و اطمینان کی تلاش میں ہے اس لیے کہ مادہ پرست فتنے نے انسانی زندگی کو زخموں سے چور چور کر دیا ہے نہ لوگوں میں مذہب کی اہمیت ہے نہ اخلاق کی بل کہ مختصر یہ ہے کہ انسانیت کا دور دور تک کوئی اتا پتا نہیں: اؤلئک کَالأنعام بَلْ ہُمْ أضَل۔

یعنی جانوروں سے بھی بدترحالت ہوچکی ہے ایسے حالات میں ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم انسانیت کا ہاتھ تھامیں اور اسی کو صحیح سمت میں لے جائیںکیوںکہ ہمارا مقصد تخلیق ہی یہ بتایا گیا ۔ قرآن کریم نے صاف اور واضح لفظوں میں کہہ دیا: کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تأمرون بالمعروف و تنہون عن المنکر۔۔۔۔ و لتکن منکم امۃ یدعون الی الخیر یأمرون بالمعروف و ینہون عن المنکر۔ یعنی اسی ا مت کی تخلیق ہی اس لیے عمل میں آئی کہ وہ لوگوں کے لیے نفع بخش ہو، اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ارشاد فرمایا :خیر الناس من ینفع الناس تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو لوگوں کو نفع پہنچائے۔

معلوم ہوا کہ لوگوں کو بھلائی کی دعوت دینا برائی سے روکنا اور ہدایت کی راہ دکھانا ہمارا فریضہ ہے، لہٰذا غور کرنا چاہئے کہ عالم انسانیت کو ظلمات سے نور کی طرف کیسے لایا جاسکتا ہے تو سب سے پہلے ہمیں اپنی ہی خبر لینے کی ضرورت ہے کیوںکہ جب تک ہماری اپنی سیرت اسلامی اور ہماری صورت اسلامی صورت نہیں بن جاتی ، ہم دوسرے پراثرانداز نہیں ہوسکتے آج کا مسلمان اسباب زوال کے پیچھے لگا ہوا ہے میں کہتا ہوں کہ اسباب زوال نہیں سبب زوال یا ام الاسباب للزوال کو جاننے کی ضرورت ہے تو جان لو امت کی تنزلی کا سب سے بڑا اور اہم اگر کوئی سبب ہے تو وہ علما و عملا اسلام سے دوری ۔ اسی سبب کو جاننے اور اس کو حل کرنے کی کوشش کرنی ہوگی، اسی کواقبال نے کہا۔

وہ زمانہ میں معزز تھے مسلمان ہو کر ہم ذلیل و خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
اکبر نے مسلمانوں کے گزرے ہوئے دور کو یاد کرکے کیاخوب کہا ہے ؎

وہ ہوا نہ رہی وہ چمن نہ رہا وہ گلی نہ رہی وہ حسیں نہ رہے
وہ فلک نہ رہا وہ زمیں نہ رہی وہ مکاں نہ رہا وہ مکیں نہ رہے

عارف باللہ اکبرالہ آبادی نے ایک موقعہ پر مسلمانوںکو حق پر قائم رکھنے اور دشمن سے مرعوب نہ ہونے کی نصیحت کرتے ہوئے کیا خوب کہا ؎

کہو کرے گا حفاظت مری خدا میرا …… رہوں جو حق پر مخالف کریں گے کیا میرا
خداکے درسے اگر میں نہیں بیگانہ …… تو ذرّہ ذرۂ عالم ہے آشنا میرا
مری حقیقت ہستی مشت خاک نہیں ……. بجا ہے مجھ سے جو پوچھے کوئی پتا میرا
غرور انہیں ہے تو مجھ کو بھی ناز ہے اکبر …… سوا خدا کے سب ان کا ہے اور خدا میرا

حقیقتاً تو ہونا یہ ہی چاہئے کہ انسان مقصدِ زندگی کو سمجھ کر اسی کے حصول میں تن من دھن کے ساتھ مشغول ہوجائے او رمقصد زندگی کیا ہے جیسا کہ ہمارے استاذ محترم حضرت مولانا طاہر صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے ؎

تیری بندگی میری زندگی میری زندگی تیری بندگی

جس کو قرآن نے بیان کیا وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون کہ انسانوں اور جناتوں کو محض عبادت وبندگی ہی کی غرض سے پیدا کیا گیا ہے، اگرچہ زندگی میں کچھ ضروریات کچھ لوازمات انسان کے پیچھے لگے ہوئے ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اصل مقصد کو چھوڑ کر (یعنی عبادت الہی )انہیں خالی ضروریات میں ہمہ تن مصروف ہوجائے بیت الخلا ایک ضرورت ہے استنجاء کرنے کی بقد ر ہی انسان اس میں ٹھہر تاہے پھر وہاں سے نکل آتاہے وہی پڑاؤ نہیں ڈـالدیتا ایسے ہی کھانا پینا رہنا سہنا کمانا فن سیکھنا سیر و تفریح کرنا سونا یہ سب بھی ضرورت ہے، لہٰذا بقدر ضرورت ان میں اپنا قیمتی وقت صرف کرے اور بقیہ وقت آخرت کا تصور مد نظر رکھتے ہوئے اس ابدی اورلافانی زندگی کی تیاری میں لگادے تاکہ او لئک ہم الفائزون اور او لئک ہم المفلحون کے زمرے میں داخل ہوجائے اور پر وانۂ رضاء الٰہی کو حاصل کر سکے، اللہ تعالیٰ ہمیں آخرت کی تیاری میں مشغول ہونے کی تو فیق عطا فرمائے۔ آ مین یارب العالمین !

تحریر ابو عمر غلام مجتبیٰ قادری