ترقیوں کا تصوراتی شیش محل

0

سائنس کو مذہب کا درجا دے کر ، بگ بینگ کو باطل خدا تصور کر کے ، قوانینِ فطرت و سائنس کو الہامی کتب کے مقابل ٹہرا کر ، سائنسدانوں کو پیغمبر سمجھنے والوں ، جدید ایجادات کو سائنسی کرامات سمجھنے والوں کی تصوراتی جنت کا شیش محل اس وقت زمین بوس ہوگیا جب ٹائٹین آبدوز تمام سائنسی ترقیوں کے سامان کے ساتھ (مثال کے طور پر کیمروں ، روشنیوں ، اسکینرز سے لیس کیا گیا ہو یا باہری دنیا سے مربوط رکھنے کیلیے ایلون مسلک کی کمپنی اسٹار لنک کی سیٹلائیٹ ٹیکنالوجی کی صلاحیتیں ہوں ، یا بحری جہاز پولر پرنس سے نیوی گیشن کی ہدایات ہوں کہ جس کا عملہ لوکیشن کی مانیٹرنگ کرنے والا ہے ) سمندر کی گہرائی میں اس طرح گم ہوجاتا ہے کہ عنقا کا تخیلاتی وجود تخیل و تصور کے ماسوا کہیں نہیں۔

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک ، امریکا ، کینیڈا اور برطانیہ جیسے ممالک جدید روبوٹس ، پانی کی گہرائی میں استعمال ہونے والے کیمرے اور ریموٹ سے کنٹرول کیے جانے والے تمام آلات استعمال کرنے کے باوجود تلاش کرتے کرتے تھک گئے دنیا کے امیر ترین لوگوں کی زندگیاں بچانے میں ناکام ہوگئے ۔ یہ جو وقت میں سفر ( ماضی میں ہو یا مستقبل میں) کے سبز باغ دکھا اتراتے پھرتے ہیں ، خلا میں لاکھوں نوری سال دور کی کہکشاؤں کی دریافت پر غرور کرتے پھرتے ہیں لیکن ان ہی کے چھوٹے سے زمینی گولے پر آبدوز وقت پر تلاش نہیں کر پائے یہ واقعہ چیخ چیخ کر سائنسی ترقی کی حقیر حقیقت عیاں کر رہا ہے کہ جس تھوڑے سے علم کی بناء پر تم کائنات کی حقیقت اور دقیق رموز سمجھ بیٹھے ہو یہ دھوکے کے سوا کچھ نہیں کوئی تو ایسی مافوق الفطرت طاقت و قدرت ہے جس کے علوم و قدرت ، طاقت و حکمت کے آگے یہ تمہاری ترقیاں ، دریافتیں ، ایجادات تاحدِ نگاہ ریگستان کے مقابل ایک ذرے کی بھی حیثیت کہ جیسی بھی نہیں ، اب بھی وقت ہے اس کی نشانیوں سے پہچان لو اس ذات کو جس نے یہ کہکشائیں تخلیق کی ہیں مان لو اس ہستی کو جو یہ نظام شمسی کا کاروان چلا رہا ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 3 آل عمران آیت نمبر 190

اِنَّ فِىۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَاخۡتِلَافِ الَّيۡلِ وَالنَّهَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِى الۡاَلۡبَابِ ۞

ترجمہ:

بلاشبہ آسمانوں اور زمینوں کی پیدائش اور رات اور دن کے اختلاف میں عقل والوں کے لیے ضرور نشانیاں ہیں۔ جو لوگ کھڑے ہوئے اور بیٹھے ہوئے اور کروٹ کے بل لیٹے ہوئے اللہ کا ذکر کرتے رہتے ہیں اور آسمانوں اور زمینوں کی پیدائش میں غور و فکر کرتے رہتے ہیں (اور کہتے ہیں) اے ہمارے رب تو نے یہ سب کچھ بےکار پیدا نہیں کیا ‘ تو پاک ہے سو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔

تحریر ابو عمر غلام مجتبیٰ چنا