نظریاتی جنگ کے محاذ اور ہماری ذمہ داریاں

0
✍️ ابو عمر غلام مجتبیٰ القادری

جغرافیائی سرحدوں کے مختلف محاذوں پر جنگ لڑنے سے کہیں زیادہ نظریاتی سرحدوں پر محاذ کھول کر جنگ لڑنا مشکل ہوتا ہے جیسے جیسے یہ محاذات بڑھتے جائینگے ویسے ویسے یہ نظریاتی جنگ مشکل سے مشکل ترین ہوتی جاتی ہے ۔ ماضی قریب سے نظریات اہلسنت کے خلاف عالمی سازش کے تحت ایک دو نہیں کئی محاذ کھول کر ان سرحدوں کو نیست و نابود کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔

الحاد

آج کل اسلام کے خلاف الحاد و سیکولرازم سب سے زیادہ منظم طریقے سے کوششیں کر رہا ہے جس کے کچھ طور طریقے پیش کرتا ہوں۔
ہمارے تعلیمی اداروں میں رچرڈ ڈاکنز مشہور ملحد کی کتاب God delusion ( خدا کا دھوکا ) ، اسی طرح University of North Texas کے پروفیسرز کی کتاب there is no god ، اور Christopher Hitchens کی کتاب God is not great جیسی کتب اور ان کے تراجم مفت تقسیم کیے جا رہے ہیں ۔ یونیورسٹی کے طلبہ بتاتے ہیں کہ گھنٹہ گھنٹہ اس بات پر لیکچر دیے جاتے ہیں ہیں کہ زمانہ بہت ترقی کر چکا ہے لوگ چاند اور مریخ پر کمند ڈال رہے ہیں لہذا ایسے دور میں مذھبی دقیانوسی خیالات و نظریات کی حاجت اب نہیں باقاعدہ ذہن سازی کے بعد ان نوجوانوں کے عقائد و نظریات کا حد تک دفاع کرتے ہونگے آپ اندازا لگا سکتے ہیں۔

الیکٹرانک میڈیا

دوسری طرف ہمارے ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر جاوید احمد غامدی من چاہا تصورِ سنت بیان کر کے شریعت کے بنیادی ماخذ سنت ، وحیِ غیر متلو کا انکار کر کے منکرینِ حدیث کو پروموٹ کرنے میں مصروفِ عمل ہے ، اسی طرح مختلف ٹی وی چینلز پر روشن خیالی اور فیمینزام کا نعرہ لگا کر حقوقِ نسواں کے مطالبے کے خول کے ذریعے مختلف ٹاک شوز اور ڈراموں میں باقاعدہ طور پر دین سے بغاوت و بیزاری کی سوچ عوام کے ذہنوں میں ٹھونسی جا رہی ہے۔

سوشل میڈیا

تیسری طرف پانچویں فقہ کی بنیاد رکھ کر بزعم خویش جدید مجتھد مرزا انجنیئر کتابی دین کا جھانسہ دے کر سوشل میڈیا پر لوگوں کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے میں اپنی توانائیاں خرچ کر رہا ہے۔

جس دین کی حجت سے سب ادیان تھے مغلوب
اب معترض اس دین پہ ہر ہرزہ سرا ہے

یہ صرف چند نظریاتی محاذ جو اس وقت عروج پر ہیں ان کی نشاندھی کی ہے ورنہ ان کے علاؤہ متعدد ایسے اشوز ہیں جن کی طرف توجہ درکار ہے۔

اے خاصۂ خاصانِ رسلﷺ وقتِ دعا ہے
امت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے
جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغربا ہے

ان تمام محاذات کا بیک وقت موجود ہونا ہمارے علماء و مشائخ ، قائدین اہلسنت و عمائدین ملت کے کندھوں پر فرائضِ منصبی کا بوجھ بہت زیادہ بڑھا دیتا ہے جن کا تقاضا تو یہ تھا کہ ان حضرات کی راتوں کی نیندیں اڑ جاتی کہ ان سب مسائل سے کس طرح منظم ہوکے نِپٹا جائے یہی زیرِ غور ہونا چاہیے تھا لیکن جب اپنے مقتدیٰ بہ شخصیات کے شب وروز کا حال دیکھتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ یہ حضرات یا تو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اور اہلِ بیت اطہار رضوان اللہ علیہم اجمعین کے فضائل و مناقب میں تقابل کرنے ، یا فلاں مورخ نے فلاں شخصیت کیلیے جو روایت بیان کی وہ درست ہے یا نہیں ، اس میں ، علماء کی ایک تعداد اپنے اپنے پیر و مرشد کے مخالفین کی دھجیاں اڑانے جیسے کاموں میں مصروف ہیں۔ الطاف حالی نے پہلے ہی توجہ دلاتے ہوئے کہا تھا۔

جو قوم کہ مالک تھی علوم اور حکم کی
اب علم کا واں نام نہ حکمت کا پتا ہے
فریاد ہے اے کشتئ امت کے نگہباں
بیڑا یہ تباہی کے قریب آن لگا ہے

اس طرح کی نظریاتی زبوں حالی کے باوجود اگر ہم نے اپنے نظریاتی محاذوں کو نا سنبھالا اور ان دین دشمن قوتوں کا مقابلہ نا کیا تو یاد رکھیں جیسے آج ہمیں طعنے سننے کو ملتے ہیں کہ ایک طرف تاتاریوں کی فوج فرات کے کنارے پہنچ چکی تھی دوسری طرف علماءِ بغداد مسواک کی لمبائی اور چوڑائی پر مناظرے کر رہے تھے ، اور سقوطِ بغداد رونما ہوا۔ یہی طعنے کل ہماری نسلوں کو سننے میں ملیں گے اور آنے والی نسلیں ہمیں کَوسیں گی اور کبھی معاف نہیں کریں گی

ڈاکٹر اقبال کا شعر ہے؛

سُن اے غافل صدا میری، یہ ایسی چیز ہے جس کو
وظیفہ جان کر پڑھتے ہیں طائر بوستانوں میں
نہ سمجھو گے تو مِٹ جاؤ گے اے مسلمانوں !
تمھاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں

شاید میرے الفاظ بہت سارے علماء اور مشائخ کیلیے ناخوشگوار ہوں ان کیلیے پیشگی معذرت کرتے ہوئے یہ قلبی جذبات فقط دین کی حفاظت کیلیے پیش خدمت ہیں۔

خود جاہ کے طالب ہیں نہ عزت کے ہیں خواہاں
پر فکر ترے دین کی عزت کی سدا ہے
ہاں حالئؔ گستاخ نہ بڑھ حدِ ادب سے
باتوں سے ٹپکتا تری اب صاف گِلا ہے