میں خدا دیکھوں گا

0

اینڈرسن جوزف کیلیفورنیا یونیورسٹی میں فزکس کے پروفیسر کے طور پر کئی سالوں سے تعینات تھے رچرڈ ڈاکنز اور سیم ہیرس جیسے لوگوں سے متاثر ہونے کی وجہ سے مذہبی نظریات کی بندشوں سے بالکل آزاد تھے کیونکہ اس کی نظر میں سائنس جو کہ ٹھوس تجربات و مشاہدات سے ہر چیز کو ثابت کرتی ہے جبکہ خدا کے وجود کا ثبوت سائنسی تجربات سے پایۂ تکمیل تک اس کی نظر میں نہیں پہنچا اسی لیے اس کے لیے خدا کا انکار کرنا آسان ہوگیا تھا۔

ایک بار کسی سیمینار میں جانے کا اتفاق ہوا فلائیٹ سے تین گھنٹے پہلے ہی ایئرپورٹ پر پہنچنے کے بعد پتا چلا کہ فلائیٹ مزید دو گھنٹے لیٹ ہے لہذا مجبوراً وہ وہیں انتظار کر رہا تھا اسی دوران اس نے دیکھا کہ ایک اسلامی حلیے میں ملبوس شخص مخصوص انداز سے اٹھک بیٹھک کر رہا ہے وہ سمجھ گیا کہ یہ اپنے خدا کی عبادت کر رہا ہے ۔ نماز کے بعد وہ مولانا بھی وہیں ویٹنگ روم میں آکر بیٹھ گئے اس نے موقعے کو غنیمت جانتے ہوئے سوچا کہ اس شخص سے اس کے خدا اور عبادت کے بارے میں بات چیت کرکے اس کو لاجواب بھی کیا جائے اور وقت بھی گزر جائے گا ،
اس سے ہیلو ہائے کرنے پر اینڈرسن کو پتا چلا کہ وہ بھی ایک اسلامک اسکالر ہے اور فلسفہ اس کا پسندیدہ موضوع تھا بعد از تعارف اینڈرسن نے کہا کہ

یہ آپ کس کی عبادت کر رہے تھے ؟
اسکالر نے کہا اللہ تعالیٰ کی۔
اینڈرسن: وہ کہاں ہے ؟
اسکالر: *وہ جگہ اور محل و مقام سے پاک ہے لہذا یہ کہہ ہی نہیں سکتے کہ یہاں ہے یا وہاں ہے ، کیونکہ تمام مقامات و جگہیں اسی کی تو تخلیق ہیں چاہے زمین ہو یا آسمان ۔ اگر اس کو جگہ میں مانا جائے تو پھر سوال ہوگا اس جگہ سے پہلے کہاں تھا ؟ اس جا جواب دیا جائے تو پھر سوال ہوگا کہ اس سے پہلے کہاں تھا ؟ اسی لیے یہی کہا جائے گا کہ وہ جگہ و مقام سے پاک ہے ان کا محتاج نہیں۔

اینڈرسن: عجیب بات کرتے ہیں آپ۔ اچھا کبھی آپ نے دیکھا ہے اس کو ؟
اسکالر: اس عظیم الشان ذات کو دیکھنے کی کس کو طاقت ہوسکتی ہے ؟
اینڈرسن: *#میں !!!! میں دیکھنا چاہتا ہوں*
اسکالر : اچھا اس کو بعد میں دیکھ لیجیے گا پہلے یہ تو بتائیں کہ یہ جو آپ نے میں کہا *کبھی اس میں کو دیکھا ہے ؟*
اینڈرسن: اب آپ عجیب بات کر رہے ہیں میں یہ ہوں ، کہتے ہوئے اینڈرسن نے *اپنا ہاتھ سر پر رکھ دیا*
اسکالر: یہ تو آپ کا سر ہے۔
پھر اس نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھ دیا۔
جواب ملا یہ تو آپ کا سینا ہے ،

اینڈرسن: *جناب یہ سر سے لے کر پیر تک میں ہی ہوں*
اسکالر: *یہ آپ نہیں یہ آپ کا جسم ہے ، آپ کہاں ہیں ؟*
اینڈرسن حیران ہو کر اس کے منہ کو تکنے لگا تب اسکالر نے مزید کہا۔

دیکھیں میں آپ کو سمجھا دیتا ہوں ، اس کے موبائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا *یہ آپ کا موبائل ہے اور یہ آپ کا بیگ ہے ، یہ آپ کا پین ہے ، لیکن موبائل بیگ اور پین آپ نہیں ، اسی طرح یہ سر ، سینا جسم کے حصے ہیں ، یہ باڈی آپ کا جسم ہے ، جب انسان مر جاتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ یہ فلاں کی ڈیڈ باڈی ، فلاں کا جسم ہے ، اس کا مطلب کہ جسم آپ نہیں تو وہ فلاں جس کو آپ نے میں کہا تھا کہاں ہے ؟*
اینڈرسن کی جب پریشانی بڑھتی گئی تو اس نے کہا کہ پھر میری روح میں ہوں۔

اسکالر: *جناب روح بھی وہ #میں نہیں جس کو آپ نے میں سے تعبیر کیا تھا ،* کیونکہ روح کو بھی اسی میں کی طرف منسوب کیا جاتا ہے کہ فلاں کی روح پرواز کر گئی ، فلاں کی روح جسم سے نکل گئی ۔
اینڈرسن: تو پھر آپ ہی بتائیے کہ یہ میں کون ہوں ؟
اسکالر: *ہاں جسم اور روح کا جس نکتہ ( POINT) پر امتزاج و ملن ہوتا ہے اسی نکتے کو میں کہا جاتا ہے وہی نکتا آپ کی حقیقت ہے۔

اب مجھے بتائیے کہ اس نکتے کو کبھی آپ نے دیکھا ہے ؟
کسی اور کو آپ نے اپنی حقیقی شخصیت دکھائی ہے ؟
اینڈرسن حیران ہوتے ہوئے کہنے لگا کہ *یہ کیسے ممکن ہے* ؟
اسکالر: جناب تو *اس خودی کو جو اس خالق کی تخلیق ہے آپ ظاہر نہیں کر سکتے ، دیکھ نہیں سکتے ،کسی اور کو دکھا نہیں سکتے اور چلیں ہیں اس کے خالق کو دیکھنے کی طرف ۔ آپ میں اتنی بھی طاقت نہیں کہ خود کی حقیقت کو دیکھ سکیں تو خالق کو دیکھنے کی طاقت کہاں ہوگی آپ میں* ؟

اللّٰہ پاک کی ذات ہماری سوچوں سے کہیں ماورا ، بلند وبالا ارفع اعلیٰ ہے اس کا ادراک ہماری عقل ، فہم و فراست نہیں کر سکتی ہاں *اس کی تخلیق کردہ کائنات ضرور اس کی قدرت کا شاہکار بھی ہے اور اس کی عظیم صفات کی نشانیاں بھی جن سے اس کی معرفت حاصل ہو سکتی ہے ۔ لیکن اس کو بداہۃً دیکھنا اس دنیا میں ہو نہیں سکتا۔

اینڈرسن ان باتوں کی وجہ سے خالق کے ہونے کا قائل ہوتے ہوئے اپنے ذہن میں سیکڑوں سوالات لیے بیٹھا تھا بے ترتیب سی کئی سوچیں اس کے دماغ میں ٹکرا رہی تھیں کہ فلائیٹ کے اعلان نے اس کو چونکا دیا اور اپنا سامان لیے اندر کی طرف چلا گیا۔

تحریر ابو عمر غلام مجتبیٰ مدنی