Advertisement
Advertisement

انارکلی مغل سلطنت کے شہنشاہ اکبر اعظم کی کنیز تھی جس کی عمر 15 سے 16 سال تھی۔ انار کلی کا اصل نام نادرہ تھا۔ انارکلی دوسری کنیزوں کی بہ نسبت اتنی حسین تو نہ تھی مگر خوبصورت لمبی آنکھیں جن میں ہر وقت اداسی چھائی رہتی تھی ،نے اس کو اکبر اعظم کی طرف سے انار کلی کا خطاب دلایا۔ انارکلی کی بہن ثریا زیادہ دلکش اور حسین نقش و نین اور گوری رنگت کی مالک ہے مگر اس کے حسن میں وہ کشش نہ تھی جو کہ انار کلی کے اداس حسن میں تھی۔

Advertisement

انارکلی دربار میں اس وقت اپنی جگہ بناتی ہے جب دلآرام چھٹی لیکر اپنی بہن کی تیمارداری کو جاتی ہے۔ دلآرام اکبر اعظم کی من پسند رقاصہ ہے جب وہ واپس آتی ہے تو اکبر اعظم کے من اور دربار میں انارکلی اپنا مقام پختہ کر چکی ہوتی ہے۔ دل آرام ایک زخمی ناگن کی طرح بے قرار رہنے لگتی ہے، اس کا بس نہیں چلتا کہ کسی طرح انار کلی کا گلا گھونٹ دے، وہ انار کلی کا پتا صاف کرنے کے لیے طرح طرح کی سازشیں سوچتی ہے مگر ڈرتی ہے کہ رقاصہ کے رتبے سے ہٹائے جانے پر نام اسی کا آئے گا۔ مگر تقدیر اسی کے ساتھ ہوتی ہے۔

جلد ہی اسے بہترین چال چلنے کا موقع ملتا ہے جب اس کو معلوم ہوتا ہے کہ انار کلی شہزادہ سلیم کو اور شہزادہ سلیم انارکلی کو چاہتا ہے۔ ہندوستان کا متوقع شہنشاہ سلیم ایک کنیز کو ملکہ بنانے کی خواہش رکھتا ہے تو دلآرام فوراً ایک اور چال بن لیتی ہے کہ انار کلی کو راستے سے ہٹا کر وہ خود شہزادہ سلیم کی محبت کا دم بھرے گی تاکہ وہ اسے اپنی ملکہ بنا لے۔

اکبر اعظم کو شہزادہ سلیم سے بہت سی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں وہ اپنا ایک عظیم الشان خواب پورا کرنا چاہتا ہے لیکن سلیم ایک پیدائشی کنیز سے عشق نبھانے کے چکروں میں ہوتا ہے اور چاہتا ہے کہ انار کلی اس کی ملکہ بن جائے۔ اب کیا کنیزیں ملکائیں بنیں گی یہی سوچ کر دلآرام ہنس دیتی ہے شہزادہ سلیم اپنی انارکلی سے محبت کا اظہار اپنے قریبی دوست بختیار سے کرتا ہے اور بختیار اس کو منع کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے لیکن شہزادے کی ضد کے آگے مجبور ہوکر ثریا کے ذریعے انارکلی کی ملاقات شہزادہ سلیم سے کرانے کا بندوبست کرتا ہے۔

Advertisement

ان سب کی یہ باتیں رقاصہ دلآرام پردے کے پیچھے چھپ کر سن رہی ہوتی ہے۔ یہ سب سن کر اپنے شاطر دماغ سے چلی بننے لگتی ہے کہ کس طرح انار کلی کو چال میں پھنسایا جائے۔ حرم سرا جاتے ہوئے وہ ستون کے پیچھے چھپ کر ثریا اور انارکلی کی باتیں بھی سن لیتی ہے ثریا انارکلی کو باغ میں جاکر شہزادہ سلیم سے ملاقات کرنے پر آمادہ کر رہی ہوتی ہے جبکہ انارکلی اس بات کے باوجود کہ محبت کرتی ہے لیکن وہ کنیزوں کی تقدیر کے بارے میں خوب جانتی ہے، وہ جانتی ہے کہ کنیزوں کی تقدیر میں شہزادوں کی صحبت تو ہوتی ہے مگر ہمراہی نہیں۔

Advertisement

بار بار اصرار کرنے پر وہ شہزادہ سلیم سے ملنے چلی جاتی ہے۔ شہزادہ سلیم اور انارکلی کی ملاقات کی عینی شاہد بن کر دلآرام سامنے آتی ہے جس کو دیکھ کر انارکلی تو بے ہوش ہو جاتی ہے جبکہ سلیم حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ اگلے ہی دن سلیم بختیار سے مشورہ کرکے دل آرام کو خریدنے کی کوشش کرتا ہے۔دلآرام اپنی قیمت شہزادے کی چاہت بتاتی ہے۔ وہ شہزادے سے محبت کرنے کا ڈرامہ رچاتی ہے تا کہ شہزادہ اس کی محبت میں گرفتار ہو کر اسے اپنی ملکہ بنا لے مگر شہزادہ اس کی محبت دھتکار دیتا ہے تو وہ اکبر اعظم کے سامنے ان کی محبت کا راز افشا کرنے کی دھمکیاں دیتی ہے۔

شہزادہ سلیم مسکرا دیتا ہے اور پردے کے پیچھے چھپا بختیار باہر نکلتا ہےجو اس بات کا عینی شاہد ہے کہ دلآرام شہزادہ سلیم کو دھمکیاں دے رہی ہے۔ دل آرام شہزادے کے پیروں میں پڑ جاتی ہے اور معافیاں مانگتی ہے۔ نادان شہزادہ بھی سمجھ لیتا ہے کہ اب دل آرام میری مٹھی میں ہے اور اکبر اعظم سے کچھ نہ کہے گی۔

Advertisement

اب کے دلآرام اپنی چال بدل لیتی ہے اب وہ شہزادے اور انارکلی کی دوست بن جاتی ہے اور ان کی ملاقاتیں کرانے کی ذمہ داری از خود لے لیتی ہے اور ان کی سچی اور وفادار دوست بن کر سامنے آتی ہے۔ مگر ثریا کو ہمیشہ اس پر شک رہتا ہے لیکن دلآرام ثریا سے عمر اور چالبازیوں دونوں ہی میں بڑی ہوتی ہے اس لیے ایسی ایسی چالیں چلتی ہے جس پر خود اکبر اعظم کو بھی شک نہیں ہو پاتا ہے۔نو روز کے جشن کی تمام ذمہ داریاں دلآرام کے سپرد کی جاتی ہیں کیوں کہ انارکلی ان دنوں بیمار پڑی ہوئی ہوتی ہے وہ صرف رقص کرے گی، یہ فیصلہ اکبر کرتا ہے۔ ایک اور بات جو اکبر اعظم دلآرام کو ذمہ داریاں سونپتے وقت کہتا ہے کہ وہ شطرنج کی بازی اس بار شہزادہ سلیم کے ساتھ لگائے گا بس یہیں پر دلآرام سوچ لیتی ہے کہ وہ اپنی آخری چال اسی رات چلے گی۔

جشن نوروز کے لیے وہ شہزادہ سلیم اور انارکلی دونوں کو خصوصی پیغامات بھجواتی ہے کہ جشن نو روز پر وہ ان دونوں کی خصوصی ملاقات کرائے گی۔ اس دن کے لیے وہ خصوصی تیاری کرتے ہیں۔ جشن کے دن شہزادہ سلیم ضرورت سے کچھ زیادہ ہی تیار ہو جاتا ہے اور دوسری طرف انار کلی کو زیادہ تیار کرانے میں دل آرام کا ہاتھ ہوتا ہے۔ دربار کی سجاوٹ اور دیگر امور کی ذمہ داری دلآرام کی ہوتی ہے اس لیے وہ بادشاہ اکبر اور سلیم کی نشست اس طرح سے ترتیب دیتی ہے کہ اکبر سلیم کی نظروں سے اوجھل رہے مگر رقاصہ انارکلی سلیم اور اکبر دونوں کی نظروں کے عین سامنے رہے۔

رقص سے پہلے چند دوسری تقریبات بھی رکھی جاتی ہیں۔ سب سے پہلے اکبر اعظم اور شہزادہ سلیم طویل فرش پر شطرنج کی بساط بچھواتے ہیں جن میں کنیزیں بطور مہرے کے استعمال ہوتی ہیں۔ اکبر اعظم شہزادہ سلیم کو مات دیتے ہیں۔ اس کے بعد آتش بازی کا مظاہرہ دیکھنے کے لئے دونوں باہر تشریف لے جاتے ہیں۔ دربار خالی دیکھ کر دل آرام چند تبدیلیاں کرتی ہے۔ انارکلی کے رقص کرنے کی جگہ اور شہزادہ سلیم کی نشست کے درمیان ایک بہت بڑا خوشنما آئینہ لگا دیتی ہے اس سے شہزادہ سلیم اور انارکلی کے درمیان ہونے والے اشارے اکبر اعظم کو دکھانا چاہتی ہے۔لیکن ساتھ ہی وہ اس بات سے بھی بہ خوبی واقف ہوتی ہے کہ انار کلی کبھی بھی اپنی حد نہیں بھولے گی۔ اس کے لیے وہ ایک اور انتظام کرتی ہے۔ اپنی دیرینہ دوستیں عنبر اور مروارید کے ذریعے ایک نشہ آور عرق منگواتی ہے جو کہ انسان کے ہوش و حواس چھین لیتا ہے۔

انار کلی کے رقص سے پہلے زعفران اور ستارہ نامی کنیزیں نہایت دلچسپ رقص پیش کرتی ہیں جس کا نام ماکیاں ہوتا ہے۔ اس کے بعد انار کلی اکبر اعظم کے دربار میں حاضر ہوتی ہے آج اس کی تیاری عروج پر ہوتی ہے، اکبر اعظم اور سلیم دونوں ہی اس کو دیکھ کر دھنگ رہ جاتے ہیں۔ اکبر اعظم اس کو ماہ کامل کے نام سے پکارتے ہیں، بدلے میں انارکلی اکبر اعظم کی شان میں نغمہ سُناتی ہے اور اکبر کا دل جیت لیتی ہے۔ اس کے بعد وہ جنگل میں اداس ایک مورنی کا رقص پیش کرتی ہے۔ یہ رقص دیکھ کر پوری محفل سحر زدہ ہوجاتی ہے۔ جب وہ رقص پیش کر چکی ہوتی ہے تو پینے کے لئے پانی منگواتی ہے۔ مروا رید اس کو وہی نشہ آور عرق پلا دیتی ہے۔

Advertisement

اس کے بعد انارکلی جو رقص پیش کرتی ہے اس میں وہ ہوش و حواس کھو بیٹھتی ہے اور شہزادہ سلیم کو واضح طور پر محبت بھرے اشارے کرتی ہے۔ اکبر کو کبھی نہ پتہ چلتا اگر دل آرام اسے متوجہ نہ کرتی کیونکہ وہ انارکلی کی آواز اور رقص میں اس قدر مگن تھا کہ اس کی آنکھیں نیم وا تھیں۔ دل آرام شہزادہ سلیم کو اشارہ کرتی ہے کہ وہ بھی انارکلی کو اشارے کرے جیسے ہی شہزادہ سلیم انارکلی کو اشارے کرتا ہے دلآرام اکبر اعظم کی توجہ اس آئینے کی طرف دلاتی ہے جس میں اشارے کرتے انار کلی اور شہزادہ سلیم واضح نظر آ رہے ہوتے ہیں۔ یہ دل آرام کی زبردست چال ثابت ہوتی ہے اور اکبر اعظم شدید طیش میں آکر انار کلی کو زنداں میں قید کرا دیتے ہیں۔

زنداں کے داروغہ کو دلآرام پہلے سے خرید چکی ہوتی ہے اور اس کو بھی ویسا ہی عرق مہیا کرتی ہے جو کہ اس اس نے انار کلی کو پلوایا تھا۔ جب شہزادہ سلیم انارکلی سے ملنے جاتا ہے تو وہ دروغہ بہانے سے شہزادہ سلیم کو اپنے حجرے میں لے جاتا ہے اور وہ عرق پلا دیتا ہے۔ جب شہزادہ سلیم بیہوش ہو جاتا ہے تو وہ دل آرام کی کہانی کے مطابق جا کر اکبر اعظم کو بتاتا ہے کہ شہزادہ سلیم انارکلی سے ملنے زنداں میں آیا تھا اور انار کلی نے اس کو اکبر اعظم کو قتل کرنے کا کہا اور شہزادہ سلیم اپنی تلوار لے کر ادھر ہی آ رہا تھا کہ میں نے اس کو بہانے سے اپنے حجرے میں بلا لیا اور شہزادے سلیم کو بے ہوشی کی دوا پلا دی اب وہ میرے حجرے میں بھی ہوش پڑا ہے۔

اکبر اعظم کو شدید غصہ آتا ہے اور وہ اسی وقت حکم نامہ جاری کرتا ہے کہ انار کلی کو دیواروں میں چنوا دیا جائے۔صبح ہونے سے پہلے انار کلی کو دیواروں میں چنوا دیا جاتا ہے۔ جب شہزادہ سلیم کو ہوش آتا ہے تب تک پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے اور انار کلی سلیم سلیم پکارتی زندہ درگور کر گئی ہوتی ہے۔ انارکلی کی موت کے بعد اکبر اعظم اور شہزادہ سلیم دونوں کو ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ انار کلی بے قصور تھی اور اصل قصوروار دلآرام ہے جو کہ اپنے انتقام میں اس قدر آگے بڑھ چکی تھی کہ انارکلی کو موت کے گھاٹ اتروا دیا۔ شہزادہ سلیم اسی وقت جاکر دلآرام کا گلا گھونٹ کر مار دیتا ہے اور اکبر اعظم ایک کنیز کی سازشوں میں آنے کا پچھتاوا لیے سلیم کی نظروں سے گر جاتا ہے۔

اس کہانی میں اکبر اعظم کا المیہ سب سے بڑا ہے کیوں کہ بڑے سے بڑے چالبازوں کو وہ مات دے دیا کرتا تھا مگر اپنے ہی قلعے کی ایک معمولی رقاصہ سے مات کھا گیا۔

Advertisement

اردو ادب کے متعلق مختلف سوالات کوکیز (Quizzes) کی شکل میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

Advertisement