غزلیات فیض احمد فیضؔ، تشریح، سوالات و جوابات

0

فیض احمد فیض کے حالات زندگی اور ادبی خدمات پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

غزل نمبر 1 تشریح:

گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے

اس شعر میں شاعر نے اپنے وطن کی تعریف کی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ اے میرے وطن کی تازہ ہوا ایک بار آکر میرے چمن کے پھولوں میں اپنا تازہ رنگ بھر دے۔ ریرے آنے سے گلشن میں پھول کھلیں گے، گلستان رنگ برنگ ہو جائے گا اور مہک اٹھیں گے اور یہی میرے چمن کا کاروبار بھی ہے۔

قفس اداس ہے یارو صبا سے کچھ تو کہو
کہیں تو بہر خدا آج ذکر یار چلے

اس شعر میں شاعر کہہ رہے ہیں کہ میرا دل بہت اداس ہے اور وہ دل سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ کہیں سے میرے دوست کی خبر لا کر مجھے سنا دیں تاکہ مجھے یہ معلوم ہو جائے کہ وہ کیسا ہے اور یہ اداسی دور ہو جائے کیونکہ میں بہت اداس ہوں اپنے دوست یا اپنے محبوب کی خاطر۔

کبھی تو صبح ترے کنج لب سے ہو آغاز
کبھی تو شب سر کاکل سے مشکبار چلے

اس شعر میں شاعر نے اپنے محبوب کے بارے میں کہا ہے کہ اے میرے محبوب کبھی تمہارے ہونٹوں کے کسی کونے سے کسی طرح بات کا آغاز ہوجائے اور کبھی تمہارے بالوں کی مہک آجائے تو میرا دل بہت زیادہ خوش ہو جائے گا۔ جس کے لیے میں بہت ہی مدت سے یا عرصے سے ترس رہا ہوں۔

بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دل غریب ہی سہی
تمہارے نام پر آئیں گے غمگسار چلے

اس شعر میں شاعر نے اپنے وطن کی تعریف کی ہے اور وہ کہتے ہیں اے میرے ہر دل عزیز وطن تم سے میرے دل کا ریشہ جڑا ہوا ہے یعنی آپ سے بہت قریب ہوں۔ اگر تمہیں بری نگاہ سے کوئی دیکھ لے تو ہم تم پر دل و جان نثار کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اگرچہ ہمارے پاس آپ کو دینے کے لئے کچھ نہیں مگر ہم تیرے غمگسار ہیں ہم کسی اور کے حکمران ہیں برداشت نہیں کر سکیں گے۔

جو ہم پر گزری سو گزری مگر شب ہجراں
ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے

اس شعر میں شاعر نے وطن سے ہمدردی کے جذبے کو بیان کیا ہے کہ اے وطن تجھ سے دوری ہی ہماری اداسی کا سبب ہے۔ لہذا اس کی فکر مت کرو ہم پر جو گزری ہے وہ گزری ہے مگر تم سے شب ہجراں یعنی رونا دھونا وہی اک بت ہم پر بھی سوار تھے مگر چلے گئے۔

حضور یار ہوئی دفتر جنوں کی طلب
گرہ میں لے کے گریباں کا تار تار چلے

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ جب بھی اپنے وطن کی بات کرنے کے لئے میرے جنون کی باری آئی تو اس کی عزت افزائی حاصل ہو جاتی ہے۔ مگر ہم اپنے گریبان سے ایک ایک تار نکال گئے یعنی اے وطن تیری خاطر ہم جنون کی حد تک روئے۔

مقام ، فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

اس شعر میں شاعر یہ کہہ رہے ہیں ک اے میرے وطن جو تیری خاطر تمہاری لاج اور عزت رکھنے کے لئے نکلا ہے اسے پھانسی کے پھندے تک پہنچایا گیا ہے یعنی کوئی ایسا ظلم باقی نہ رکھا گیا جو تمہارے چاہنے والوں پر نہ کیا گیا ہو۔

غزل نمبر 2 تشریح:

کب ٹھہرے گا درد اے دل کب رات بسر ہوگی
سنتے تھے وہ آئیں گے سنتے تھے سحر ہوگی

تشریح : اس شعر میں شاعر کہہ رہے ہیں کہ اے میرے دل تو ہی بتا کہ یہ درد بھری رات کب ختم ہو گی اور ہم سنتے تھے کہ آزادی کی سحر تو ہو گی وہ سحر کب آئے گی جس کے لئے دل بے قرار ہیں۔

کب جان لہو ہو گی کب اشک گہر ہو گا
کس دن تری شنوائی اے دیدہ تر ہو گی

تشریح: اس شعر میں شاعر نے استفہامیہ لہجہ اختیار کیا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ اے دیدہ تر کب میرے جسم سے خون جاری ہو گا ، کب اشک بہہ سکیں گے اور کب ہمارے دل کی بات سنی جائے گی اور ہم نذرانہ جان پیش کر سکیں گے۔ اس شعر میں انہوں نے حب الوطنی کے بارے میں بتایا ہے۔

کب مہکے گی فصل گل، کب بہکے گا مے خانہ
کب صبح سخن ہوگی کب شام نظر ہو گی

تشریح: اس شعر میں شاعر کہہ رہے ہیں کہ وہ دن کب آئے گا جب اپنے وطن میں بہار کا موسم ہوگا اور غم بھلانے کے لئے میخانے ہوں گے۔ وہ صبح و شام کب نظر آئے گی جو اپنے دل کی بات کو حقیقت کر دکھائیں گے۔

واعظ ہے نہ زاہد ہے ناصح ہے ناقابل ہے
اب شہر میں یاروں کی کس طرح بسر ہوگی

تشریح: اس شعر میں شاعر کہہ رہے ہیں کہ میرے شہر میں اب کوئی واعظ، زاہد ،ناصح اور قاتل کوئی نظر نہیں آرہا ہے۔ اب ایسا ہے کہ ہر چیز یہاں کھونا کوئی بڑی بات نہیں ہے ایسے میں میرے شہر میں اپنے دوستوں کے ساتھ کیسے گزر بسر ہوگا یعنی میں ان کے ساتھ کیسے گزرا کر لوں۔

کب تک ابھی رہ دیکھیں اے قامت جانانہ
کب حشر معین ہے تجھ کو تو خبر ہو گی

تشریح: اے میرے وطن !کب تو آزاد ہو گا۔ کہاں تک ہم انتظار کی راہ دے سکیں گے تو ہی بتا کہ کیا ہونے والا ہے تجھ کو تو خبر ہو گی۔

سوالات و جوابات:

سوال نمبر 1: فیض کی شاعری کا موضوع کیا ہے ؟

جواب: فیض کی شاعری کا موضوع وطن پرستی، آزادی اور عشق ہے۔ مگر یہ عشق بھی ان کے ہاں مجازی عشق سے دور ہے بلکہ وطن عزیز کا عشق اور اس کے ساتھ وابستگی کا ہے جس کا اظہار ان کے ہر شعر میں ملتا ہے۔

سوال نمبر 2: فیض کی غزلوں میں قفس اور چمن یا رات اور سحر کے الفاظ ان معنوں میں استعمال نہیں ہوئے ہیں جن معنوں میں یہ عام طور پر اردو غزل میں استعمال ہوتے رہے ہیں کیا آپ نے فرق کیا ہے؟

جواب: فیض کی غزلوں میں قفس اور چمن یا رات اور سحر کے الفاظ ان معنوں میں استعمال نہیں ہوئے ہیں جن میں عام طور پر اردو غزل میں استعمال ہوئے ہیں اس کا فرق یہ ہے کہ فیض کے علاوہ دیگر شعراء قفس کو تنہائی، چمن کو محبت اور رات کو سختی دل سے اور سحر کو خوشی اور طرب کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اس کے برعکس فیض کے یہاں قفس کو جیل کوٹھری، چمن کو وطن ،رات کو غلامی اور سحر کو آزادی سے تعبیر کیا گیا ہے۔

سوال نمبر 3: باد نو بہار، کنج لب ،شب ہجراں، قامت جانانہ تراکیب ہیں۔ لفظوں کو اضافت سے ملایا جائے تو تراکیب بن جاتی ہیں۔ اس طرح کی فارسی تراکیب کا استعمال اردو شاعری میں عام ہورہا ہے آپ مزید پانچ اور تراکیب لکھیے۔

جواب: بہر خدا ، ذکر یار ، سرکاکل، دفتر جنوں، کوئے یار ،سوئے دار وغیرہ۔