Advertisement
Advertisement
  • نظم : بچے کی دعا
  • شاعر : علامہ اقبال
  • ماخوذ : بانگ درا

تعارفِ نظم :

یہ اشعار ہماری درسی کتاب کی نظم ” بچے کی دعا“ سے لیے گئے ہے۔ اس نظم کے شاعر کا نام علامہ اقبال ہے۔ یہ نظم” بانگ درا” سے ماخوذ کی گئی ہے۔

Advertisement

تعارفِ شاعر :

علامہ اقبال 9 نومبر 1877ء کو سیالکوٹ(پاکستان) میں پیدا ہوئے۔ان کا اصلی نام محمد اقبال اور تخلص اقبال تھا۔ انہیں اپنے کارناموں کی وجہ سے “سر” کا خطاب بھی ملا اور وہ شاعرِ مشرق سے بھی مشہور ہیں۔ ڈاکٹر سر محمد اقبال نے اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں شاعری لکھی۔ وہ شاعری کے ساتھ ساتھ فلسفے سے بھی وابستہ رہے۔ ان کی مشہور کتابیں بانگ درا ،ضربِ کلیم ،شکوہ جوابِ شکوہ وغیرہ ہیں۔ علامہ اقبال کی وفات 21 اپریل 1938 کو لاہور میں ہوئی۔

نظم بچے کی دعا کی تشریح

لب پے آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری

تشریح

نظم کے پہلے شعر میں شاعر فرماتے ہیں کہ میرے دل کی تمنا میرے لب، یعنی ہونٹوں پر دعا کی صورت میں آتی ہے کہ اے خدا میری زندگی شمع کے جیسی ہو، جس طرح شمع اپنی روشنی سے دنیا کو روشن کرتی ہے اُسی طرح سے میں بھی دنیا کے لیے روشنی کا سبب بنوں۔(یہاں انسان کی روشنی سے مُراد علم ہے)

Advertisement
دور دنیا کا میرے دم سے اندھیرا ہو جائے
ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے

تشریح

اس شعر میں شاعر دعا کو جاری رکھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اے خدا مجھے اتنا اچھا انسان بنا کہ میری وجہ سے دنیا کا اندھیرا دور ہو جائے اور جہاں بھی میں جاؤں وہاں میرے چمکنے سے اُجالا یعنی روشنی پھیل جائے۔

Advertisement
ہو مرے دم سے یونہی میرے وطن کی زینت
جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت

تشریح

شاعر اس شعر میں فرماتے ہیں کہ میری وجہ سے میرے وطن میں ایسی ہی رونق ہو جیسے چمن میں پھولوں کی وجہ سے رونق ہوتی ہے۔

زندگی ہو مری پروانے کی صورت یارب
علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب

تشریح

شاعر اپنی دعا کو جاری رکھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یا رب میری زندگی پروانے کی طرح ہو۔ جس طرح پروانہ شمع کی محبت میں جل جاتا ہے اسی طرح کی محبت مجھے علم سے ہو جائے۔

Advertisement
ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا
دردمندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا

تشریح

شاعر اس شعر میں اللہ سے یہ دعا کرتا ہے کہ مجھے ایسا بندہ بنا کہ میں غریبوں ،درد مندوں اور ضعیفوں کے کام آسکوں اور ان سے محبت کرسکوں۔

میرے اللہ ہر برائی سے بچانا مجھ کو
نیک جو راہ ہو اسی رہ پہ چلانا مجھ کو

تشریح:

نظم کے آخری شعر میں شاعر اللہ سے اپنی سلامتی کی دعا کرتا ہے اور کہتا ہیں کہ مجھے ہر برائی سے بچا اور نیک راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرما۔

1. پڑھیے اور سمجھیے: مشکل الفاظ کے معانی۔

الفاظمعانی
ہونٹلب
راہراستہ
ضعیفکم زور ، بوڑھا
دردمند غمگین, دکھی
حمایت طرف داری ، مدد
شمعچراغ
پروانہپتنگا
زینترونق،خوبصورتی
صورت مانند ، مثل
تمنا آرزو ،خواہش

٢۔سوچیے اور بتائیے۔

ا۔ شاعر اس نظم میں کس سے مخاطب ہے؟

ج۔شاعر اس نظم میں خداسے مخاطب ہے۔

۲۔ شاعر دنیا کے لئے کیا چاہتا ہے؟

ج۔شاعر دنیا کے لیے ایسی روشنی چاہتا ہے کہ جس سے ہر طرح کا اندھیرا ختم ہو جائے۔

Advertisement

۳۔ شاعر وطن کی زینت کس طرح چاہتا ہے؟

ج۔ شاعر وطن کی زینت چمن کے پھولوں جیسی چاہتا ہے۔

۴۔آخری شعر میں شاعر نے کس خواہش کا اظہار کیا ہے؟

ج۔آخری شعر میں شاعر نے برائی سے بچنے اور نیک راہ پر چلنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔

٣۔ خالی جگہوں کو دیے گئے لفظوں سے پُر کیجیے۔

ا۔ شمع ۲۔ وطن ۳۔ غریوں ۴۔ برائی

Advertisement

۴۔نیچے دیے ہوئے لفظوں سے جملے بنائے۔

الفاظجملے
شمع پروانہ شمع کے گرد چکر لگا تا ہے۔
دردمنددردمندوں سے محبت کرو۔
حمایتہمیں غریبوں کی حمایت کرنی چاہیے۔
پھولچمن میں پھول کھلتے ہیں۔
دنیا دنیا خوبصورت ہے۔

۵۔مثال دیکھ کر الفاظ بنائیے۔

درد +مند= دردمند
فکر +مند= فکر مند
دولت +مند= دولت مند
حاجت +مند= حاجت مند
احسان +مند= احسان مند
صحت +مند= صحت مند

٦۔کھیل کھیل میں۔
دولت، محبت ، زینت ، صورت

٧۔اس نظم کو زبانی یاد کیجیے اور ترانم کے ساتھ پڑھیے۔

Advertisement