نظم ریچھ کا بچہ کی تشریح، سوالات و جوابات

0

کتاب” ابتدائی اردو” برائے چوتھی جماعت
سبق نمبر21: نظم
شاعر کا نام: نظیر اکبر آبادی
نظم کا نام:ریچھ کا بچہ

نظم ریچھ کا بچہ کی تشریح

کل راہ میں جاتے جو ملا ریچھ کا بچہ
لے آئے وہیں ہم بھی اٹھا ریچھ کا بچہ
سو نعمتیں کھا کھا کے پلا ریچھ کا بچہ
جس وقت بڑھا ریچھ ہوا ریچھ کا بچہ
جب ہم بھی چلے ساتھ چلا ریچھ کا بچہ

یہ اشعار نظیر اکبر آبادی کی نظم ریچھ کا بچہ سے لیے گئے ہیں۔اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ کل میں راستے میں کہیں جا رہا تھا اور وہیں راستے میں کسی کے پاس میں نے ریچھ دیکھا اس ریچھ کو دیکھ کر میں بھی ایک ریچھ کا بچہ اٹھا کر اپنے ساتھ لے آیا۔ اس ریچھ کو میں نے سو طرح کی نعمتیں (چیزیں) کھلا کر پالا جس وقت یہ بڑا ہوا تو اب یہ ریچھ کے بچے سے ایک بڑا ریچھ بن گیا۔ پھر اس کی یہ عادت ہوگئی ہے کہ میں جہاں بھی جانے کے لیے نکلا کرتا تھا یہ ریچھ بھی میرے ساتھ ہو لیتا تھا۔

کہتا تھا کوئی ہم سے میاں آؤ قلندر
وہ کیا ہوئے اگلے جو تمہارے تھے وہ بندر
ہم ان سے یہ کہتے تھے یہ پیشہ ہے قلندر
ہاں چھوڑ دیا با با انہیں جنگلے کے اندر
جس دن سے خدا نے یہ دیا ریچھ کا بچہ

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ جو کوئی بھی مجھے اس ریچھ کے ساتھ دیکھتا تھا وہ ہمیشہ مجھ سے کہتا کہ اے آزاد منش انسان اس سے پہلے جو تمھارے پاس بندر موجود تھے وہ کہاں گئے ہیں تو ہمیشہ ان سے یہی کہتا ہوں کہ یہ ریچھ پالنا بھی ایک پیشہ ہے۔ جب سے یہ ریچھ میرا ساتھی ہوا ہے میں نے ان بندروں کو پنجرے میں چھوڑ دیا ہے۔

مدت میں اب اس بچے کو ہم نے ہے سدھایا
لڑنے کے سوا ناچ بھی اس کو ہے سکھایا
یہ کہہ کے جو ڈھپلی کے تئیں گت پہ بجایا
اس ڈھب سے اسے چوک کے جمگھٹ میں نچایا
جو سب کی نگاہوں میں کھبا ریچھ کا بچہ

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ میں نے ایک طویل مدت اس ریچھ کے بچے پہ محنت کی ہے اور اسے صرف لڑائی کرنا ہی نہیں بلکہ ناچنا بھی سکھایا ہے۔یہ بات کہہ کر اس بںدروالے نے جیسے ہی ڈھپلی بجائی اس بندر نے ایک الگ طرح سے ناچنا شروع کر دیا جسے دیکھتے ہی دیکھتے چوگ میں ایک جھمگٹ اکھٹا ہو گیا اور لوگوں نے اس کا ناچ دیکھا یوں یہ ریچھ کا بچہ ان سب لوگوں کی نگاہوں کا مرکز بنا۔

جب ہم نے اٹھا ہاتھ کڑوں کو جو ہلایا
خم ٹھونک پہلواں کی طرح سامنے آیا
لپٹا تو یہ کشتی کا ہنر آن دکھایا
جو چھوٹے بڑے جتنے تھے ان سب کو رجھایا
ہم بھی نہ تھکے اور نہ تھکا ریچھ کا بچہ

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ جب اس ریچھ والے نے اپنا ہاتھ اوپر اٹھا کر اس میں موجود کڑوں کو ہلایا تو یہ ریچھ میدان میں یوں سامنے آیا جیسے کہ کوئی پہلوان خم۔ٹھونک کر لڑائی کے میدان میں اترتا ہے ۔ یہی نہیں اس ریچھ نے کُشتی لڑنے کا ہنر بھی دکھایا اور وہ موجود ہر بڑے چھوٹے کا دل اپنے اس ہنر سے جیت لیا۔نہ تو اس ریچھ کو نچانے والا تھکا اور نہ ہی یہ ریچھ کا بچہ اپنے فن دکھاتے دکھاتے تھکا تھا۔

جس دن سے نظیر اپنے ، تو دل شاد یہی ہیں
جاتے ہیں جدھر کو ادھر ارشاد یہی ہیں
سب کہتے ہیں وہ صاحب ایجاد یہی ہیں
کیا دیکھتے ہو تم کھڑے ، استاد یہی ہیں
کل چوک میں تھا جن کا لڑا ریچھ کا بچا

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ جب سے اس ریچھ نے لوگوں کے دلوں کو اپنے کرتب دکھا کر خوش کیا ہے۔ اس دن کے بعد سے میں جہاں بھی جاتا ہوں یا جس طرف کا بھی رخ کرتا ہوں سب لوگ مجھے دیکھ کر یہی کہتے ہیں کہ یہ وہی صاحب ہیں تم اسے ایسے کھڑے کیوں دیکھتے ہو یہ تو وہی صاحب ہیں کل چوک میں جن کا سکھایا اور سدھایا ہوا ریچھ کا بچہ کُشتی لڑا تھا۔

سوچیے بتائیے اور لکھیے۔

نظم کے پہلے بند میں شاعر نے کیا بات کہی ہے؟

نظم کے پہلے بند میں شاعر نے کہا کہ اس نے ایک دفعہ راستے میں کسی کے پاس ریچھ دیکھا تو وہ بھی گھر ریچھ کا بچہ نہ صرف لے آیا بلکہ اس کی تربیت کرکے اور اسے بہت سی نعمتیں کھلا کر بڑا کیا۔جس سے یہ ریچھ کا بچہ ریچھ بن گیا۔

ریچھ کے بچے کو سب کی نگاہوں میں کھانے کے لیے کیا کہ جتن کیے گئے؟

ریچھ کے بچے کو سدھا کر اسے ناچ سکھایا گیا اور اسے کُشتی کا فن سکھایا گیا جس کی بدولت وہ سب کی آنکھوں میں کھب گیا۔

بندر اور ریچھ کو سدھا کر کیا کام لیا جا تا ہے؟

بندر اور ریچھ کو سدھار کر لوگوں کو کرتب دکھانے اور انھیں محظوظ کرنے کا کام لیا جاتا ہے۔

نیچے دیے ہوئے لفظوں سے مصرعے پورے کیجئے۔

  • سو نعمتیں کھا کھا کے پلا ریچھ کا بچہ
  • وہ کیا ہوئے اگلے جو تمہارے تھے وہ بندر
  • جو سب کی نگاہوں میں کھبا ریچھ کا بچہ
  • لپٹا تو یہ کشتی کا ہنر آن دکھایا
  • کل چوک میں تھا جن کا لڑا ریچھ کا بچا

ان لفظوں سے جملے بنائیے۔

قلندر علی کے اندر کئی قلندر والی صفات موجود ہیں۔
بندر بںدر شوق سے کیلا کھاتا ہے۔
ناچ بندر نے سب کو اپنے ناچ سے محظوظ کیا۔
کشتی دریا پہ ہم سب نے کشتی کی سواری کی۔
ایجاد گراہم بیلی نے ٹیلی ایجاد کیا۔

الف اور ب کالم میں بے ترتیب مصرعے لکھے ہوئے ہیں۔ان کو صحیح ترتیب میں لکھ کر شعر مکمل کیجیے۔

سب کہتے ہیں وہ صاحب ایجاد یہی ہیں کیا دیکھتے ہو تم کھڑے ، استاد یہی ہیں
ہم ان سے یہ کہتے تھے یہ پیشہ ہے قلندر ہاں چھوڑ دیا با با انہیں جنگلے کے اندر
جب ہم نے اٹھا ہاتھ کڑوں کو جو ہلایا خم ٹھونک پہلواں کی طرح سامنے آیا
یہ کہہ کے جو ڈھپلی کے تئیں گت پہ بجایا اس ڈھب سے اسے چوک کے جمگھٹ میں نچایا
مدت میں اب اس بچے کو ہم نے ہے سدھایا لڑنے کے سوا ناچ بھی اس کو ہے سکھایا

درست املا والے لفظ پر ✅ کا نشان لگائیے۔

  • نعمط❎ پیسہ✅
  • دل شاد✅ وکت❎
  • مدت ✅ قلندر✅
  • قشتی❎ کھم❎
  • ارشاد✅

نیچے دی ہوئی تصویروں پر دو دو جملے لکھیے۔

ریچھ: ریچھ ایک جنگلی جانور ہے۔ ریچھ کی خاص صفت یہ ہے کہ اسے انسانوں کی طرح سدھایا جا سکتا ہے۔
بندر: بندر کا شمار بہت شرارتی جانوروں میں کیا جاتا ہے۔ بندر ایک درخت سے دوسرے درخت پہ پھدکتے پھرتے ہیں۔
پنجرہ: پنجرہ لوہے کی سلاخوں سے بنا ایک ڈربہ نما کمرہ ہوتا ہے۔ پنجرہ جانوروں کو قید کرنے کےلئے استعمال ہوتا ہے۔
کُشتی: کُشتی لڑائی کرںے کو کہتے ہیں۔ کُشتی میں دس لوگ آپس میں ایک دائرے کے اندر کچھ قوانین کے مطابق لڑتے ہیں۔

خوش خط لکھیے۔

ریچھ ، قلندر ، مدت ، جھمگٹ ، ٹھوک۔