Advertisement
Advertisement

کتاب” ابتدائی اردو” برائے تیسری جماعت
سبق نمبر10: نظم
شاعر کا نام: شفیع الدین نیر
نظم کا نام: شام

Advertisement

نظم شام کی تشریح

ہوئی شام سونے کا وقت آ گیا
اندھیرا سا چاروں طرف چھا گیا

یہ شعر شفیع الدین نیر کی نظم شام سے لیا گیا ہے۔ اس شعر میں شاعر شام کا منظر نامہ پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جیسے ہی شام کا وقت ہوا تو سمجھو کہ شام اس بات کی علامت ہے کہ سونے کا وقت آ پہنچا ہے۔ کیونکہ شام کے ہوتے ہی ہر طرف اندھیرا چھا جاتا ہے۔ اور اس اندھیرے کے چھانے کے بعد لوگ سونے لگتے ہیں۔

گیا ڈوب پچھم میں جب آفتاب
افق پر چمکنے لگا ماہتاب

اس شعر میں شاعر شام کا ایک اور خوبصورت منظر پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ شام کے منظر نامے کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ شام کے وقت سورج مغرب کی جانب جا کر غروب ہوتا ہے اور جیسے ہی سورج مغرب کی جانب بڑھتا ہے تو اسی وقت آسمان پہ چاند ابھر کر آ جاتا ہے اور روشن ہو کر چمکنے لگتا ہے۔

Advertisement
پرند آشیانے میں جانے لگے
مویشی بھی جنگل سے آنے لگے

اس شعر میں شاعر نے انسانوں کے علاوہ باقی مخلوق جیسے کہ جانور اور چرند پہ شام کے اثرات دکھائے ہیں کہ شام کے ڈھلتے ہی سب پرندے اپنے گھروں یعنی گھونسلوں کی جانب واپس لوٹنے لگتے ہیں اور یہی نہیں بلکہ اس وقت تمام جانور بھی جنگل سے دن بھر چرنے کے بعد شام کو اپنے گھر کی طرف واپس لوٹ کر آ جاتے ہیں۔

Advertisement
فلک پر ستارے چمکنے لگے
جواہر کی صورت دمکنے لگے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ شام کا ایک اور خوبصورت منظر نامہ یہ بھی ہے کہ شام کے آسمان پہ کئی طرح کے روشن ستارے چمکنے لگ جاتے ہیں۔رات کے اندھیرے میں یہ ستارے یوں محسوس ہوتے ہیں کہ جیسے یہ ستارے نہیں بلکہ ننھے منھے ہیرے چمک رہے ہوں۔ اس وقت یہ ستارے چمک دار موتیوں کی طرح محسوس ہوتے ہیں۔

ہیں سب صاف صاف اور نکھرے ہوئے
ہراک سمت موتی سے بکھرے ہوئے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ یہ ستارے آسمان پہ اتنے بھلے محسوس ہوتے ہیں کہ یوں لگتا ہے جیسے سب کچھ صاف اور نکھرا ہوا ہو اور ہر طرف یہ ستارے نہیں بلکہ کوئی موتی ہوں جو بکھرے ہوئے موجود ہوں۔

Advertisement
چمکتے بھی ہیں جھلملاتے بھی ہیں
تمھارے دلوں کو لبھاتے بھی ہیں

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ یہ ستارے صرف چمکتے اور جھلملاتے ہی نہیں ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ ہمارے دلوں کو لبھا کر لطف کی ایک الگ کیفیت سے دوچار کر رہے ہوتے ہیں۔

مسافر نے کھولی سرا میں کمر
ہے پردیس میں جو، یہی اس کا گھر

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ رات کے وقت سب مسافر بھی آرام کی غرض سے رک جاتے ہیں۔ جو مسافر کسی سفر میں ہے وہ رات ڈھلتے ہی سرائے میں قیام کرتا ہے۔کیونکہ وہ گھر سے دور پردیس میں موجود ہے اور یہاں پہ اس کا گھر یہ سرائے ہی ہے۔

کسان اپنی کھیتی سے فارغ ہوئے
اٹھا ہل کو کندھے پہ گھر کو چلے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ شام کے ڈھلتے ایک طرف تو مسافر آرام کی غرض سے رک گئے تو دوسری طرف کسان بھی اپنے کھیتوں کے کام سے فراغت پا کر گھر کی جانب بڑھا۔ یہ کسان اپنے کندھوں پہ ہل کو اٹھائے ہوئے گھر کی جانب بڑھ رہے تھے۔

ہوا اس طرح سارا بازار بند
کہ آنکھیں کرے جیسے بیمار بند

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ یوں شام کے ڈھلتے ہی بازار بھی بند ہونے لگے اور سب کچھ یوں بند ہو رہا تھا کہ جیسے بیماری کی حالت میں ایک بیمار شخص اپنی آنکھوں کو آرام کی غرض سے بند کر لیتا ہے۔

Advertisement
نہ آندھی نہ ابر اور نہ گردوغبار
مزہ دیتی ہے آسماں کی بہار

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ موسم میں کئی طرح کی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں جیسے کہ آندھی کا آنا، بادلوں اور گردوغبار وغیرہ کا آنا مگر ان تمام چیزوں میں سے کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہے جو انسان کواچھی لگے۔ سب سے زیادہ لطف انسان کو جس چیز میں آتا ہے وہ صرف آسمان کی بہار ہی ہے۔ یعنی آسمان پہ ستاروں کی بہار۔

غرض یہ کہ دنیا میں آئی ہے شام
خدا نے عجب شی بنائی ہے شام

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ قصہ المختصر یہ کہ اللّٰہ تعالیٰ نے بلاشبہ کسی مقصد کے تحت شام اور شام کے بعد رات کو تخلیق کیا ہے۔ مگر یہ شام اللہ کی بنائی ہوئی ایک عجب شے ہے۔

سوچیے بتائیے اور لکھیے۔

نظم میں شام ہونے کی کون سے نشانیاں بتائی گئی ہیں؟

نظم کے مطابق شام ہوتے اندھیرا چھا جاتا ہے آسمان پر تارے چمک رہے ہوتے ہیں۔سورج ڈوب جاتا ہے۔ پرندے گھونسلوں کو اور جاںور جنگل سے گھروں کو لوٹتے ہیں۔ سب لوگ آرام کرتے ہیں۔

Advertisement

شاعر نے ستاروں کی تعریف کس شعر میں کی ہے؟

شاعر نے شعر نمبر 4،5،اور 6 میں ستاروں کی تعریف کی ہے اور انھیں دل کو لبھانے والے بکھرے موتی کہا ہے۔

شام ہونے پر مسافر کیا کرتا ہے؟

شام ہونے پر مسافر سرائے میں قیام کرتا ہے اور وہاں آرام کی غرض سے اپنی کمر کھولتا ہے۔

ان مصرعوں کو صحیح لفظوں سے پورا کیجیے۔

ابر، لبھاتے، موتی ، جنگل ، ڈوب ، فارغ۔

Advertisement
  • گیا ڈوب پچھم میں جب آفتاب
  • مویشی بھی جنگل سے آنے لگے
  • ہراک سمت موتی سے بکھرے ہوئے
  • تمھارے دلوں کو لبھاتے بھی ہیں
  • کسان اپنی کھیتی سے فارغ ہوئے
  • نہ آندھی نہ ابر اور نہ گردوغبار

صحیح جملوں پر ✅ اور غلط پر ❎ کا نشان لگائیے ۔

  • صبح کو سونے کا وقت ہوتا ہے۔❎
  • رات کو بازار کھلا رہتا ہے ۔❎
  • شام کو آسمان پرستارے چمکنے لگتے ہیں۔✅
  • ✅ شام کو آفتاب پچھم میں ڈوبتا ہے۔

نیچے لکھے ہوئے لفظوں کے متضاد لکھیے۔

شامصبح
اندھیرااجالا
صافگندا
آفتابمہتاب
آسمانزمین
بہارخزاں
پچّھمپورب
پردیسدیس

نظم کے وہ مصرعے لکھیں جن میں آفتاب ، جواہر اور ستارے کے لفظ آئے ہیں۔

گیا ڈوب پچھم میں جب آفتاب
فلک پر ستارے چمکنے لگے
جواہر کی صورت دمکنے لگے

ان مصرعوں کے الفاظ کی ترتیب درست کرکے خالی جگہوں میں لکھیے۔

ماہتاب افق پر چمکنے لگاافق پر چمکنے لگا ماہتاب
سب میں نکھرے ہوۓ اور صاف صافہیں سب صاف صاف اور نکھرے ہوئے
سارا بازار اس طرح بند ہواہوا اس طرح سارا بازار بند
جیسے بند کہ کرے بیمار آنکھیںکہ آنکھیں کرے جیسے بیمار بند
نه گرد و غبار اور نہ آندھی نہ ابرنہ آندھی نہ ابر اور نہ گردوغبار

نیچے کچھ الفاظ دیے جارہے ہیں ان میں سے جو اسم۔ہیں ان کے گرد دائرہ لگائیے۔

  • آفتاب• مزہ
  • اندھیرا• جنگل•
  • آشیاں• جانا
  • مسافر• نکھرنا
  • چمکنا شام•

نیچے دی ہوئی تصویروں پر دو دو جملے لکھیے۔

چاند:چاند نظام شمسی کا ایک سیارہ ہے۔ چاند زمین کے گرد گھومتا ہے۔ چاند کی چاندنی بہت خوبصورت ہوتی ہے۔
گھر:گھر ایسی جگہ کو کہتے ہیں جہاں ایک فیملی کے افراد مل جل کر رہتے ہیں۔ مل جل کر رہنے سے گھر جنت کا نمونہ پیش کرتا ہے۔
کسان: کسان کھیتوں میں کام کرتا ہے اور اناج اگاتا ہے۔

خوش خط لکھیے۔

پچّھم ، نکھرے ، لبھانے ، آنکھیں ، غرض۔

Advertisement

Advertisement