نظم ساری دنیا کے مالک کی تشریح، سوالات و جوابات

0
  • کتاب” ابتدائی اردو” برائے تیسری جماعت
  • سبق نمبر01: نظم
  • شاعر کا نام: الطاف حسین حالی
  • نظم کا نام: ساری دنیا کے مالک

نظم ساری دنیا کے مالک کی تشریح

اے ساری دنیا کے مالک
راجا اور پر جا کے مالک
سب سے انوکھے، سب سے نرالے
آنکھ سے اوجھل، دل کے اجالے

یہ اشعار الطاف حسین حالی کی نظم ساری دنیا کے مالک سے لیے گئے ہیں۔ اس بند میں شاعر اللہ تعالیٰ کی ذات کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اللہ کی ذات اس ساری کائنات کی مالک ہے۔اللہ کی ذات یہاں کے راجا اور پر جاؤں کی بھی مالک ہے۔اللہ پاک کی ذات سب سے انوکھی اور نرالی ہے کیوں کہ وہ واحد و لا شریک ہے۔بلا شبہ وہ ذات سب کے سامنے موجود نہیں ہے مگر آنکھ سے اوجھل ہوتے ہوئے بھی وہ ذات سب کے دلوں کو روشن کیے ہوئے ہے۔

ناؤجگت کی کھینے والے
دکھ میں سہارا دینے والے
جوت ہے تیری جل اور تھل میں
باس ہے تیری پھول اور پھل میں

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اللہ کی ذات ہی وہ ذات ہے ہے جو ساری دنیا کی ناؤ چلانے والا ہے یعنی یہ ذات اس دنیا کو چلانے کا محرک ہے اس کے سوا کچھ ممکن نہیں ہے۔دکھ میں بھی انسان کا واحد سہارا اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔ جل اور یا تھل دونوں جگہوں پر اللہ کی ذات روشنی کا واحد ذریعہ ہے۔اسی پاک ذات کی خوشبو اور احساس ہر پھول پھل میں پایا جاتا ہے۔

ہر دل میں ہے تیرا بسیرا
تو پاس اور گھر دور ہے تیرا
تو ہےاکیلوں کا رکھوالا
توہے اندھیرے گھر کا اجالا ہے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اے اللہ تیری پاک ذات کا بسیرا ہر انسان کے دل میں ہے۔اللہ کی ذات بلا شبہ انسان کی دسترس سے دور لیکن وہ انسان کی شہہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہے اس کے دل میں گھر کیے ہوئے ہے۔اے اللّٰہ تو ہی اکیلے لوگوں کا رکھوالا بھی ہے اور تیری ذات کے ہی سبب اندھیرے گھروں میں روشنی بھی ہے۔

بے آسوں کی آس تو ہی ہے
جاگتے سوتے پاس تو ہی ہے
سوچ میں دل بہلانے والے
بپتا میں کام آنے والے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ بے آسرا اور بے سہارا لوگوں کی ہر امید بھی اللہ کی ذات ہے۔سوتے اور جاگتے دونوں میں اسی ذات کا احساس انسان کے ساتھ ہوتا ہے۔کسی بھی تکلیف میں وہی ذات انسان کے ساتھ ہوتی ہے۔کسی بھی مصیبت میں صرف یہی ذات انسان کے ساتھ ہوتی ہے۔اس کا دل بہلاتی ہے۔

ہلتےہیں پتے تیرے ہلاۓ ،
کھلتی ہیں کلیاں تیرے کھلاۓ
تو ہی ڈبوے، تو ہی تراۓ
توہی بیڑا پار لگاۓ

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ یہ پوری کائنات صرف اللہ کی مرضی کی پابند ہے اس کی مرضی کے بنا ایک پتا بھی نہیں ہل سکتا ہے۔کلیاں بھی اس کی مرضی سے کھلتی ہیں۔صرف وہی ذات ہے جو انسان کو ڈبو بھی سکتی ہے یعنی کسی مشکل سے دوچار کر سکتی ہے اور وہی ذات اسے مشکل سے نکال بھی سکتی ہے۔اللہ کی ذات عظیم ہے۔

سوچیے بتائیے اور لکھیے۔

پہلے شعر میں راجا اور پرجا کا مالک کسے کہا گیا ہے؟

اللّٰہ تعالیٰ کی ذات کو راجا اور پرجاؤں جا مالک کہا گیا ہے۔

پھول اور پھل میں خدا کی کون سی خوبی کا ذکر ہے؟

اللہ تعالیٰ کی ذات کی خوشبو پھولوں اور پھلوں میں سمائی ہوئی ہے۔

تو ہے اندھیرے گھر کا اجالا یہاں “تو” سے کیا مراد ہے؟

درج بالا مصرعے میں تو سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔

ہر مصرعے کو صحیح لفظ سے پورا کیجیے۔

  • سب سے انوکھے، سب سے نرالے
  • جوت ہے تیری جل اور تھل میں
  • باس ہے تیری پھول اور پھل میں
  • توہے اندھیرے گھر کا اجالا ہے
  • سوچ میں دل بہلانے والے

پڑھیے سمجھیے اور لکھیے۔

نیچے دیے ہوئے لفظوں کے الفاظ کے متضاد لکھیے۔

راجا، سونا ، ڈوبنا ، اندھیرا، پاس ، جل۔

راجا پرجا
سونا جاگنا
ڈوبنا تیرنا
اندھیرا اجالا
پاس دور
جل تھل

ان لفظوں سےجملے بنائیے۔

مالک ہم سب کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔
ناؤ اللہ کی مدد کے بنا کسی کی ناؤ پار نہیں لگ سکتی ہے۔
بسیرا ہم سب کے دلوں میں اللہ کی ذات کا بسیرا ہے۔
گھر میرا گھر سکول سے دور قصبے میں واقع ہے۔
پھول مجھے گلاب کا پھول پسند ہے۔
رکھوالا اللہ تعالٰی ہم سب کا رکھوالا ہے۔

اشارے کے مطابق باقی مصرعوں کو بیح تر تیب سے ملائیے۔

ناؤجگت کی کھینے والے
دکھ میں سہارا دینے والے
ہر دل میں ہے تیرا بسیرا
تو پاس اور گھر دور ہے تیرا
ہلتےہیں پتے تیرے ہلاۓ ،
کھلتی ہیں کلیاں تیرے کھلائے۔
بے آسوں کی آس تو ہی ہے
جاگتے سوتے پاس تو ہی ہے

مندرجہ ذیل میں سے ہر ایک کے تین جواب دیے گئے ہیں، صحیح جواب پر (✅) کانشان لگا ئے

  • (الف) ” ہر دل میں ہے تیرا بسیرا‘، اس مصر سے میں دل کس کا بسیرا ہے؟
  • پھل
  • انسان
  • خدا✅
  • (ب) خداکس کا رکھوالا ہے؟
  • اکیلوں کا✅
  • اندھیرے کا
  • روشنی کا
  • (ج) جگت کا مطلب ہے :
  • راجا
  • پرجا
  • دنیا✅

تصویروں کے نام لکھیے۔

پھل ، ناؤ ، پھول ، پتے۔

خوش خط لکھیے۔

اوجھل ، بسیرا ، رکھوالا ، بپتا، کلیاں۔