نظم کی تعریف، آغاز اور ارتقا

0

نظم کی تعریف

ہر کلامِ موزوں کو نظم کہتے ہیں لیکن عام اصطلاح میں نظم سے مراد وہ شعری اصناف اور اسالیب ہیں جن میں کسی موضوع پر ربط و تسلسل کے ساتھ اظہارِ خیال کیا گیا ہو۔اس اعتبار سے غزل کے علاوہ شاعری کی بیشتر اصناف مثلاً قصیدہ، مثنوی، مرثیہ اور رُباعی وغیرہ اس کے دائرے میں آ جاتے ہیں۔دورِ قدیم میں نظم کے کچھ خاص اسالیب کا رواج رہا ہے، مثال کے طور پر مسدس، مخمس، ترجیع بند وغیرہ۔ان قدیم اصناف اور اسالیبِ نظم کے فنی آداب اور اصول اتنے سخت تھے کہ ان میں کسی شاعر کو اصلاح و ترمیم کی جرات نہیں ہوتی تھی اور بالعموم وہ ان کی روایات اور ضابطوں کے پابند رہ کر ہی طبع آزمائی کرتے تھے۔

لیکن جب زندگی اور زمانے نے کروٹ بدلی، ملک میں نئے حالات اور نئے مسائل پیدا ہوئے سیاسی، سماجی، تعلیمی اور تہذیبی میدان میں نئی تبدیلیاں رونما‌ ہوئیں اور نئے خیالات عام ہوئے تو اردو نظم کے روایتی اسالیب میں بھی تبدیلی کی ضرورت محسوس ہوئی۔اور اس طرح نظم جدید کا آغاز ہوا تقریبا گزشتہ سو سال کا زمانہ نظم جدید کے فروغ کا زمانہ کہا جاسکتا ہے۔

آغاز اور ارتقا

جس طرح دنیا کی ہر زبان کی ابتداء نظم یا شاعری سے ہوئی۔اسی طرح اردو زبان کی ابتداء بھی شاعری سے ہوئی۔شاعری میں غزل اور نظم دو ایسی اصناف سخن ہیں جو اردو شاعری میں ابتدا ہی سے وجود میں آئی ہیں۔نظم کی باقاعدہ شروعات شمالی ہند میں ہوئی۔ اس زمانے میں امیر خسرو کی پہیلیوں اور کبیر داس کے دوہوں نے شاعری میں خاص جگہ پیدا کرلی۔یہ اردو شاعری کا ابتدائی دور تھا اس کے بعد اردو شاعری کا ستارہ چمکا اور اکبر بادشاہ کے عہد سے اورنگزیب تک شاعرین نے خاص ترقی کرلی۔اس دور میں نظمیں، مرثیے، مثنویاں اور قصیدے لکھے گئے۔ریختی بھی اس دور کی پیداوار ہے۔

اردو نظم نے ترقی کی مختلف منازل طے کیں۔نظم کی ترقی کی ان منازل میں ایک دور تو باقاعدہ نظم گوئی کے زمانے سے پہلے کا ہے۔جس میں مختلف شعراء نے اردو نظمیں لکھیں لیکن یہ نظمیں وہ مقام حاصل نہ کر سکیں جو معیاری نظموں کو حاصل ہوا۔لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بے قاعدہ دور کی نظمیں ہی باقاعدہ ادوار کی نظموں کی بنیاد اور ترقی کا باعث بنیں۔

دکن کے مشہور شاعر محمد قلی قطب شاہ کے کلیات میں بہت سی نظمیں ملتی ہیں۔دیگر شعراء نے بھی نظمیں لکھیں مگر یہ نظمیں اردو نظم گوئی کی کوئی روایت نہ بن سکیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ اردو نظم کا باقاعدہ رواج دورجدید میں ہوا۔لیکن دور جدید شروع ہونے سے پہلے نظیراکبرآبادی نےنظم کا ایک پورا کلیات مرتب کردیا جس میں زندگی سے تعلق رکھنے والے موضوع پر نظمیں ملتی ہیں۔نظموں کی کوئی متعین شکل یا موضوع نہیں ہے بلکہ شعراء نے ہر شکل میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔جہاں تک موضوعات کا تعلق ہے، نظم میں بڑی وسعت ہے اس لیے موجودہ دور میں ہر طرح کی نظمیں دیکھی جا سکتی ہیں۔اردو نظم نگاری کے ارتقاء کو ابتدائی دور شعراء، متقدمین دور شعراء، متوسطین دور شعراء اور موجودہ دور کے شعراء میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ان میں سے شعراء متقدمین سے لے کر دور حاضر تک کی مختصر وضاحت دستور ذیل پیش ہے۔

شعرائے متقدمین کا زمانہ 1550ء سے لیکر 1700ء تک رہا۔اس زمانے کی اردو شاعری میں دکنی کے الفاظ کی آمیزش زیادہ ہے اس کے علاوہ اس دور کے اردو میں غلط تلفظ، غلط تراکیب کا استعمال اور اصول و قواعد سے بے پرواہی وغیرہ قسم کے عیوب پائے جاتے ہیں۔تاہم اس دور میں غزلیں، قصیدے، مرثیے، مثنویاں، نیچرل نظمیں، اخلاقی و معاشرتی نظمیں، جنگ نامے اور شاہ نامے وغیرہ سب کچھ لکھا گیا۔بیجاپور اور گولکنڈا کے غواصی، ابن نشاطی، مرزا، بچازہ، نوری، فائز، نمرتی نوری، بیجاپوری اور ہاشم مرزا مشہور شعراء ہوئے ہیں۔1700ء سے لے کر 1750ء تک کا زمانہ قطب شاہی اور عادل شاہی کے بعد کا زمانہ ہے۔اس دور میں زبان پہلے سے زیادہ صاف، سادہ اور آسان ہوگئی۔مضمون آفرینی کا آغاز ہوا۔ جو شعراء دہلی سے ہو کر واپس آئے ان کے کلام میں دکنی زبان کی آمیزش بہت کم ہے۔اس دور میں بحری، مجری، لجری، فیاض، ولی اورنگ آبادی،باقر، ہاشم علی آزاد، اور سراج غزل کے مشہور شعراء ہوئے ہیں۔1700ء سےپہلےجو شاعری ہوئی وہ سب کی سب نہ موجود ہے اور نہ محفوظ ہے۔جس قدر محفوظ ہے وہ متفرقات میں شمار ہونے کے قابل ہے۔ولی اورنگ آبادی کے دہلی کے دہلی آنے کے بعد غزل گوئی کا عام رواج ہوا۔دہلی اور شمالی ہند میں شعراء متقدمین کا دور 1700ء سے 1750ء تک کا زمانہ ہے۔آبرو، مضمون، ناجی، اکرم،کلیم، خاتم، فغاں اور مرزا مظہر اس دور کے مشہور شعراء ہوئے ہیں۔

1730ء سے لے کر 1830ء تک شعراء متوسطین کا زمانہ ہے۔یہ زمانہ اصلی اور سچی شاعری کا بہترین دور ہے۔اگرچہ زبان، ادب اور عروض کی خامیاں موجود ہیں لیکن پہلے سے کم ہیں۔جدت اور لطافت خیال اور وسعت نظر پہلے سے زیادہ ہے۔اس دور میں دہلی کے مشہور شعرا سوز، میر اور سودا وغیرہ لکھنؤ گے اور وہاں شاعری کا دور دورہ شروع ہوا۔اس دور میں شمالی ہند میں سودا، میر، درد، قائم، یقین، سوز، ہدایت، اور قدرت مشہور شعرا ہوئے ہیں۔

اس دور میں زبان و بیان کی صفائی، سادگی، شرینی اور بے ساختگی دور اول کی طرح ہے۔غزل کی طرح اس دور کا بڑا کارنامہ میر حسن کی مثنوی ‘سحرالبیاں’ ہے۔یہ اردو کی بہترین اور پہلی مثنوی ہے۔ پہلے شعراء کے بعد مصحفی، اثر،بقا، حسرت، میر حسن، جرات، انشاء، رنگین، ناسخ، خلیق اور ضمیر مشہور اور بلند پایہ شاعر ہوئے ہیں۔

1800ء سے لے کر 1850ء اردو شاعری کا انقلابی دور رہا۔ اس دور میں اردو زبان اور شاعری کے اصول مرتب کیے گئے۔نے نئے موضوعات کو شاعری میں داخل کیا گیا۔دہلی اور لکھنوی شاعری کے دو اصول قائم ہوئے مگر شاعری میں پہلے سے پائے جانے والا سوزوگداز، لطف و اثر، سادگی اور شرینی ختم ہوگئی لیکن شاعری میں انقلاب آیا زبان میں اصلاح ہوئی۔نصیر، ممنوع، ناسخ، آتش، نسیم، نظیراکبرآبادی اس دور کے مشہور شعراء ہوئے ہیں۔

شعرائے متاخرین کا دور 1830ء سے لے کر 1930ء تک رہا۔اس دور میں لطافت بیان، جدت ادا، نزاکت خیالات، وسعت نظر اور رفعت تخیل کو اردو ادب میں اہم جگہ ملی۔ اس کے بعد مومن، ذوق، غالب،شیفۃ، اسالک، تسکین، نسیم،برق، قہر، شوق، انیس اور دبیر بلند پائے کے شاعر ہوئے۔اس دور میں زبان کی صفائی، نفاست، سلاست، دلکشی، رنگینی، لطافت اور پاکیزگی پیدا ہوئی جس سے زبان و ادب کو بہت ترقی ہوئی۔

1857ء کے بعد جدید اردو شاعری کا دور شروع ہوا۔جدید اردو شاعری میں اردو شعر و ادب میں توانائی پیدا کی۔اس دور میں غزل پر سب سے زیادہ زوال آیا مگر سخت مخالفت کے باوجود یہ صنفِ ادب مٹ نہ سکی۔اس دور میں نیچرل شاعری کا زیادہ رواج ہوا۔جدید شعراء نے اردو زبان و ادب کی ناقابلِ فراموش خدمت کی۔آزاد، حالئ، سرور، شبلی، اسماعیل، اکبر، نظیر، اور اقبال اس جدید شاعری کے دور کے بہترین شعراء ہوئے ہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ جدید نظم کے بانی حالی ہیں۔ ان کے کلام میں جدید نظم کی امتیازی خصوصیات موجود ہیں۔ان کی نظمیں حقائق اور واقعات پر مبنی ہے ان کے یہاں سچی یا کھری حقیقت نگاری ملتی ہے۔حالی کو اردو کا پہلا ہندوستانی نظم گو شاعر کہا جاتا ہے۔ ان کی بےشمار نظمیں ایسی ہیں جن میں انہوں نے فطرت کی عکاسی کی ہے۔انہوں نے کافی تعداد میں طربیہ اور نشاطیہ نظمیں لکھی ہیں۔

اردو نظم نگاری کا دور جدید اس وقت شروع ہوا جب لاہور میں انجمن پنجاب قائم ہوئی اور آزاد نے جلسوں میں نظم جدید کے حق میں دھواں دار تقریریں کیں اور غزل کے بجائے نظم کی وکالت کی۔اس زمانے میں شاعر متاثر ہوئے اور اب نہ صرف ادبی انجمنوں میں نظمیں پڑھی جانے لگی بلکہ اخباروں اور رسالوں میں بھی نظمیں کہی جانے لگیں۔

حالی نے مشہور نظمیں ‘نشاط امید’ ‘حب وطن’ ‘برکھارت’ ‘مناظرہ رحم و انصاف’ انجمن کی نشستوں میں پڑھیں۔انہوں نے جدید نظم کی بنیاد ڈالی۔یہی وجہ ہے کہ آزاد اور حالی کو جدید شاعری کا بانی کہا جاتا ہے۔اس کے بعد سماجی اور سیاسی حالات تیزی سے بدلتے رہے اور نظم نگاری میں تبدیلیاں ہوتی رہیں۔

انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے ابتداء میں اردو نظم میں ہیت کے تجربے کیے گئے۔انگریزی نظموں کی بنیاد پر مصرعوں، بندوں کی ترتیب دی گئی اور قافیہ و ردیف میں جدیدیت لائی گئی۔اتنا ہی نہیں اس دور میں نظم معرا کے ساتھ ساتھ آزاد نظم کے بھی تجربے کیے گئے۔نظم طباطبائی نے مختلف ہیتوں میں نظمیں لکھیں۔ان کی کسی نظم کے بندوں میں پہلا مصرعہ ایک قسم کے قافیہ والا ہے اور چوتھا مصرعہ الگ قافیہ لیے ہوئے ہے۔اقبال کی ابتدائی نظموں اقبال کی ابتدائی نظموں میں انگریزی زبان کا اثر واضح طور پر نظر آتا ہے لیکن انہوں نے انگریزی ادب سے اثر لینے کے باوجود اردو کلاسکی نظم کی روایات سے استفادہ کیا۔شبلی اور چکبست نے سیاسی موضوعات اور سماجی مسائل پر بھی متاثر کن نظمیں کہیں۔

1917ء کے انقلاب روس کے بعد دنیا میں تغیر و تبدل کا ایک سیلاب امنڈ آیا۔محنت کش طبقے کے بڑے دن آگے، اشتراکیت کے نے نظام نے دلوں اور ذہنوں کو متاثر کیا۔نیا احساس، نیا شعور اور تصورات ابھرے۔جوش ملیح آبادی، حفیظ جالندھری، ساغر نظامی، سیماب اکبرآبادی اور احسان دانش جو مغربی اثرات سے دور دور رہے اور حب الوطنی اور قومی جذبات کا احساس دلاتے رہے۔جبکہ دوسری طرف ایسے شاعر بھی ابھرے جو مغربی سوچ اور فن شعر سے متاثر تھے۔ان میں عظمت اللہ خان، اختر شیرانی،عبدالرحمن بجنوری، ڈاکٹر تاثیر اور تصدق حسین خالد خاص طور پر مشہور ہیں۔یہ شاعر عوامی زندگی کے تغیر کے ساتھ ساتھ افراد کے بدلتے ہوئے کردار کا اظہار بھی کرتے رہے۔

اس کے بعد ترقی پسند تحریک کے اثرسے اردو نظم کے موضوعات اور ہیئت میں خوشگوار تبدیلیاں آئیں۔ترقی پسند تحریک نے انسان دوستی کا ایک نیا صحت مند تصور اور ملکی آزادی کا ایک نیا عزم دیا۔اور نظم ہر طرح کے مسائل اور سماجی تجربات کو پیش کرنے میں کامیاب ہوئی۔اقبال، جوش، مجاز، کیفی، فیض، جذبی، سردار جعفری، مخدوم محی دین، جاں نثار اختر، ساحر لدھیانوی وغیرہ کے علاوہ اس دور کے شعراء میں ن م راشد، میراجی اور اخترالایمان کے نام قابل ذکر ہیں۔ان شعراء نے اپنی تخلیقی بصیرت سے نت نئے تجربے کرکے ہیئت، مواد اور تکنیک کے حوالے سے اردو نظم کو شاعری کے رنگ و آہنگ سے متعارف کرایا۔جدید دور کی سب سے بڑی دین آزاد نظم ہے۔جس کی کافی مخالفت بھی ہوئی لیکن پھر بھی یہ فروغ پاتی رہی۔

اگست 1947ء کے بعد زندگی کو نئی تبدیلیوں کا سامنا کرنا پڑا۔نئے مسائل سامنے آئے اور کئی نئی باتوں سے پردہ اٹھ گیا اس کا اثر نظم پر بھی پڑا۔نئے شعراء نے ماضی کے بعد رحجانات اور روایات سے انحراف کرکے نظم میں نت نئے تجربے کیے۔اب نظموں میں اجتماعی فکر و احساس کے بجائے انفرادی فکر و احساس کا رحجان نمایاں ہوگیا۔آج ہندوستان اور پاکستان میں جدید نظمیں لکھی جارہی ہیں اور اس طرح جدید نظم ترقی کے مختلف مدارج طے کررہی ہے۔

Mock Test 12

نظم کی تعریف، آغاز اور ارتقا 1