غزل: رہ تم نہیں رہے جو حدود و قیود میں

0
رہ تم نہیں رہے جو حدود و قیود میں
گھر کر گیا ہے عشق تمہارے وجود میں!!
بن مانگے مجھ کو قاقم و سنجاب مل گئے
تنگی سی لگ رہی ہے مگر اِس کشُود میں
ہجر و وصال مَوت کے سِکّے کے رخ ہیں یار
بچتا کہاں ہے کوئی بھی اِس کھیل کود میں
کوئی احاطہ اُس کا نہ کر پائے گا کبھی
سب کے لئے جو پیار ہے ذاتِ ودود میں
خود بھیجتا ہے اور فرشتے بھی اُس کے سب
رب نے بھری ہے کُوٹ کے عظمت درود میں
مجھ کو ہی ساری چائے پلائی گئی ہے آج
یعنی سفید بال پڑا ہو گا دودھ میں
قرضے میں اپنی دید مجھے دے رہے ہو پر
لے کر چلے نہ جانا مِری آنکھیں سود میں!
لگتا ہے میرے دل سا مجھے آتشی عزیؔز
شعلہ سا جل رہا ہـے جو چرخِ کبود میں
عزیؔز اختر