غزل: ہر سو کھڑا ہے اونچا کئے سر کوئی الم

0
ہر سو کھڑا ہے اونچا کئے سر کوئی الم
یہ زندگی ہے یا ہے سراسر کوئی الم
پھر مل گئی ہے آنکھ کسی خوش نگاہ سے
پھر ہو گیا ہے اپنا مقدر کوئی الم
پچھلے کی تاب تیرے دِوانے کو آ گئی!
دے جا ہمیں دوبارہ ستمگر کوئی الم!
مَیں سوچتا ہوں کیسے ملے گی اُسے نجات؟
دنیا سے جو نہیں گیا لے کر کوئی الم؟
ہر کامیاب شخص کے پیچھے ملا عزیز!
کوئی حسین خواب، کوئی ڈر، کوئی الم
عزیؔز اختر