غزل: یہ تیر ہوش ربا ہے، مگر کمان نہیں!

0
یہ تیر ہوش ربا ہے، مگر کمان نہیں!
زمین دھوکے میں رکھے گی آسمان نہیں!
مِرے بھی سامنے لب کو ذرا سی جنبش دیں!
مجھے ملی ہے خبر آپ بـے زبان نہیں!
اجاڑ، صحرا، خرابہ، بن اور ویرانہ
ہر ایک شے ہے مِرا گھر مگر مکان نہیں!
ہے اختیار زمیں پر تو آسماں کی ہَوَس؟
جناب آپ اب اِتنے بھی کچھ مہان نہیں!
وہ شخص میری محبت ہے اور مَیں اُس کی
مگر ہمارا کوئی ایک خاندان نہیں!!
ہے اک فریب یہ مکتوب!، پھاڑ دیں اِس کو!
عدو کے لفظ ہیں یہ سب!، مِرا بیان نہیں!
کرائے اُس سے نہ ہرگز بھی کوئی رکھوالی!
وہ ایک چور ہے اک چور !، پاسبان نہیں!
عزیز ہوش میں آ جا کہ اصل دنیا ہے!
یہ کوہ کن کی یا مجنوں کی داستان نہیں!
عزیز اختر