غزل : کچھ حقائق سے پریشان رہا کرتا ہوں

0
کچھ حقائق سے پریشان رہا کرتا ہوں
اِس لئے جان کے انجان رہا کرتا ہوں
روشنی دن کی بناتی ہے فرشتہ مجھ کو
در شبِ سیاہ مَیں شیطان رہا کرتا ہوں
میرے اجداد کی جاگیر رہا جو صدیوں
مَیں اُسی ملک میں مہمان رہا کرتا ہوں
میرے اندر ہے درندوں کا درندہ پنہاں
گو کہ اطوار سے انسان رہا کرتا ہوں
ماننے کو نہیں تیار کوئی اپنی خطا
کیا‌ کروں؟، مَیں ہی پشیمان رہا کرتا ہوں
دیکھتے دیکھتے ہر چہرہ بدل جاتا ہے
جبکہ کئیوں کو مَیں پہچان رہا کرتا ہوں
عشق کی ہوتی ہے معراج مِرے خوابوں میں
گل وہ رہتا ہے مَیں گلدان رہا کرتا ہوں
جان داروں کے لئے جینا بڑا مشکل ہے
اِس لئے جان کے بے جان رہا کرتا ہوں
عزیؔز اختر