غزل : ہے اک حیات، مجھے راس ہی نہیں آتی

0
ہے اک حیات، مجھے راس ہی نہیں آتی
قضا بھی خاص، مِرے پاس ہی نہیں آتی
تِرے سوا بھی کسی در سے مل سکے گا کچھ
تِرے فقیر کو یہ آس ہی نہیں آتی
کھلیں گے پھول بھلا کیسے دل کے آنگن میں
یہاں تو یار کبھی گھانس ہی نہیں آتی
تِرے بغیر تُو کہتا ہے خوش رہوں گا مَیں؟
تِرے بغیر مجھے سانس ہی نہیں آتی
نہ جانے بیر ہے کیسا خوشی کو ہم سے عزیؔز
لئے ہوئے کوئی احساس ہی نہیں آتی
عزیؔز اختر