افسانچہ چور

0

معلوم ہوتا تھا کہ ہاتھ پاؤں ٹوٹ گئے۔ آج کی چوری شاطر کو ابھی تک کی تمام چوریوں کے مقابل زیادہ بھاری پڑی، اور کیوں نہ پڑتی؟، اُس نے شہر کے ایک بڑ ے مال میں ڈاکا ڈالنے کی کوشش کی تھی۔ اگرچہ وہ کچھ زیادہ قیمتی چرا کر نہیں بھاگ رہا تھا، فقط ایک چھوٹا سا تربوز ہی چرایا تھا لیکن چوری تو چوری ہی ہوتی ہے۔ مال کے گارڈوں اور عوام کو شاطر کی یہ چوری گوارہ نہ ہوئی۔

گرمی کا موسم تھا، دو دن کے بھوکے شاطر کو تربوز کھانے کی شدید خواہش ہوئی تھی، جس کے سبب وہ بھیڑ میں چھپ کر مال میں داخل ہوا اور پھلوں کے سیکشن میں پہنچا۔ وہاں سے اُس نے ایک چھوٹا سا تربوز اٹھایا اور اپنی پھٹی شرٹ کے اندر ڈا ل کر مال کے باہر جانے لگا۔ گارڈوں کی نگہ شاطر کے نقلی موٹے پیٹ پر پڑ گئی اور وہ اُس کے پیچھے پڑ گئے۔ شاطر تیزی سے دوڑا جا رہا تھا، بازار کی گلیاں تھیں لہٰذا لوگ بکثرت موجود تھے۔ گارڈ شاطر کے پیچھے “چور چور” چیختے دوڑ رہے تھے، یہ لفظ عوام کے ہاتھوں میں مچی کھجلی کی توجہ کا مرکز بنا، اور چاروں طرف سے شاطر کی طبیعت سے ٹھکائی کی گئی۔ دے لات دے لات، گھسنڈ ہی گھسنڈ اور جوتوں چپلوں سے شاطر کی بھوک مٹائی گئی۔ بعض نے شاطر کو بجاتے ہوئے کہا “کیا بے؟ تربوز کھائے گا؟ لے تربوز!، لے تربوز!، اور لے تربوز! اور لے!”۔ جب شاطر پٹ پٹ کر نیچے گر گیا تو سب نے اندھا دھند اُس کے منہ، پیٹ، پیر، دونوں ہاتھوں اور جگہ جگہ زور زور سے لاتیں ہی لاتیں ماریں۔ جب شاطر کا ناقابلِ برداشت درد اُس کی بھیانک چیخوں سے ظاہر ہونے لگا تب مال کے گارڈ اور لطف لیتی عوام گھبرا کر وہاں سے بھا گ گئی۔

شاطر اکیس سال کا پھٹے حال، سانولے رنگ کا، ہڈی جیسے بدن والا، اور مسکین و یتیم لڑکا تھا۔ شاطر کی زندگی کا مقصد صرف اور صرف “پیٹ پوجا” تھا، اور اِس کے لئے اُس کے نزدیک چوری کے علاوہ اور کوئی ذریعہ نہ تھا۔ اُسے نہیں معلوم کہ ایامِ طفولیت میں اُسے کس نے پالا، کس نے کھلایا پلایا اور بڑا کیا۔ مار کھا کھا کر بندے کا بھیجا گھوم چکا تھا، بعض اوقاتت وہ اپنا نام بھی بھول جاتا تھا، اور کیوں نہ بھولے؟ اُس کا نام لیتا ہی کون تھا؟۔ اُسے یاد بھی نہ تھا کہ وہ کبھی کسی “گھر” میں رہا بھی ہے یا نہیں۔ جب سے ہوش آیا تھا، اُس کا گھر شہر کی مطلبی اور بے رحم گلیاں ہی تھیں، جن میں انسان دوستی اور بھائی چارے کا نام و نشان نہ تھا۔ کوئی کسی کو بلا غرض توجہ بھی نہ دیتا تھا، بات کرنا یا کسی کی مدد کرنا تو لوگوں کی شان کے خلاف۔ ابھی دیکھ لیجئے!۔ شاطر روڈ پر چِت پڑا کراہ رہا ہے، بیسیوں لوگ آ جا رہے ہیں مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔

شاطر کی کوئی ہڈی تو نہیں ٹوٹی تھی مگر بندہ کھانا کم اور مار زیادہ کھا کھا کر بہت کمزور ہو گیا تھا اِس وجہ سے درد بہت ہو رہا تھا۔ اُس کے وجود میں اب ایک جنگ چل رہی تھی۔ ایک جانب تو ٹھکائی سے ملا درد آگ بگولہ ہو رہا تھا۔ دوسری سمت دو دن کا بھوکا پیٹ بھی اپنی خوراک کے لئے لڑ رہا تھا۔ وجودِ شاطر میں اِن دونوں کی جنگ دو گھنٹوں تلک ذوروں شوروں سے چلی۔ بالآخر بھوکا پیٹ درد پر غالب آ گیا اور شاطر پھر کہیں، کسی تربوز کسی تلاش میں نکل پڑا۔