غزل: پھر کوئی دلربا ہمراز ہوا چاہتا ہے

0
پھر کوئی دلربا ہمراز ہوا چاہتا ہے
اک نئے عشق کا آغاز ہوا چاہتا ہے
ساری دنیا کو بنا لے گا دِوانہ اپنا
یہ قلم جو تِرا انداز ہوا چاہتا ہے
رمزِ ابرو جو کبھی اپنا بتاتا تھا ہمیں
آج وہ غمزۂِ غماز ہوا چاہتا ہے
سارا عالَم یہ تھرکتا رہے دھن پر جس کی
ذرہ ذرہ مِرا وہ ساز ہوا چاہتا ہے
کفر کا من ہے کہ ایمان پہ غالب آ جائے
یعنی کوا کوئی شہباز ہوا چاہتا ہے
اُس سے کہہ دو کہ نہیں ہوں مَیں کوئی شاہجہاں
جو مِرے واسطے ممتاز ہوا چاہتا ہے
پہلے پہلے تو یہ غم تھا مِری رسوائی عزیؔز
اب مِرا فخر، مِرا ناز ہوا چاہتا ہے
عزیؔز اختر