ڈراما محبت

0

کردار

  • حسین
  • ثانیہ
  • عافیہ
  • زین
  • سعید
  • زبیدہ
  • نفیس

سین اول

(ثانیہ کا کمرہ۔ روز کی طرح آج رات نو بجے پھر کھڑی سے لگی مایوس ثانیہ کا حُسین سے آن کال شکوہ جاری ہے)

ثانیہ : ہیلو؟ حسین! سن بھی رہے ہو تم؟
حسین : ہاں سن رہا ہوں۔
ثانیہ : تو بتاؤ نا! تم مجھ سے محبت کرتے بھی ہو؟۔ حسین : ثانیہ! تمہیں مجھ پر اعتبار نہیں؟
ثانیہ : مَیں کیسے کروں اعتبار؟ ہاں؟ بتاؤ!،،، جب سے تم نے، اور تمہارے اُس سوپر کول جڑواں بھائی “زین” نے، میرے والدین سے میرا اور میری ٹُوِن سِسٹَر عافیہ کا ہاتھ مانگا ہے، تب سے ایک بار بھی، ایک لمحے کے لئے بھی، تم مجھ سے ملے ہی نہیں، اور زین اور عافیہ، روز ملتے ہیں، اور ایک دوسرے کو خوب پیار کرتے ہیں۔
حسین : ثانو! ثانو! ثانو!، جسے تم پیار کہہ رہی ہو وہ بدکاری ہے۔
ثانیہ : بس! بس! بس! بہت دیندار ہو تم، مَیں جانتی ہوں، تم جماعت وغیرہ میں خوب آتے جاتے ہو نہ، اُسی کا اثر ہے، بتاؤ بھی، یہ کہاں کی دینداری ہے کہ جس لڑکی سے تمہارا رشتہ طے ہو چکا ہے، تین مہینے میں شادی ہے، اُس لڑکی سے ملنے میں تم گھبراتے ہو؟ اور بِہیو تو ایسے کرتے ہو جیسے مَیں تمہیں کھا جاؤں گی، دو منٹ، بس دو منٹ نہیں مل سکتے ہم؟
حسین : یار تم سمجھتی کیوں نہیں ہو؟ کتنی بار تمہیں بتا چکا ہوں، تم ابھی مجھ پر حرام ہو، تمہیں چھونا اور دیکھنا بھی حرامکاری ہے ابھی، اور تم کیسے کہہ سکتی ہو کہ ہم تنہا ملیں گے اور اک دوجے کو چھوئیں گے بھی نہیں؟، کہتی ہو ‘کھانے کے لئے نہیں بلا رہی’، کیا ضروری ہے تمہی کھاؤ؟ کیا معلوم مَیں ہی کھا جاؤں تمہیں؟، اللّٰه! مجھے کیا کیا بولنا پڑتا ہے تمہاری وجہ سے، تمہیں پتا ہے؟ ہمارا یوں روز روز بات کرنا بھی مناسب نہیں۔
ثانیہ : اچھا! مت کرو بات!، جاؤ!، بات مت کرو! مناسب نہیں۔
حسین : ثانو! یار تم!، رونے کیوں لگتی ہو؟، دیکھو! مَیں وہ نہیں کر سکتا جو زین کرتا ہے، یار وہ، وہ بندہ جانتا نہیں وہ کر کیا رہا ہے، گھنٹوں گھنٹوں وہ عافیہ کے ساتھ رہتا ہے، خود کو بھی اور اُس کو بھی، بے کار کر رہا ہے، اچھا! ذرا سوچو! دماغ تو کہتا ہے کہ ‘دونوں نکاح کرنے والے ہیں تو اگر روز مل بھی لے رہے ہیں تو کیا غلط ہے، نکاح تو دونوں ایک دوسرے سے ہی کریں گے’، لیکن، کیا کبھی یہ سوچا تم نے، کہ اگر وہ دونوں یوں ہی ایک دوسرے کے دامن میں داغ لگاتے رہے، اور نکاح سے قبل اُن میں سے کسی بھی ایک کو مَوت آ گئی تو کیا ہو گا؟، پھر زمانہ ایسا ہے، کون نکاح کرے گا اُس سے جس پر کسی اور کا رسوخ ہو؟، جو استعمال شدہ ہو؟ کرے گا کوئی نکاح اُس سے؟۔
ثانیہ : حسین! تم یہ کیا کیا کہہ رہے ہو؟ اِتنی دُور کی کیوں سوچتے ہو؟، مَیں تم سے محبت کرتی ہوں، اگر تم نہیں ملے تو کسی سے نکاح نہیں کروں گی، پھر کیوں نہیں ملتے مجھ سے؟۔
حسین : ثانو! پلیز! سمجھنے کی کوشش کرو یار! ابھی تک مَیں نے تمہیں چھوا تک نہیں ہے، اگر مَیں ابھی مر جاؤں تو ابھی ہماری محبت اِتنی اعلیٰ درجے کی نہیں ہوئی ہے کہ پھر تم کسی سے نکاح ہی نہیں کرو گی، وقت کی سرد ہَوائیں ہر آگ کو بجھانے دیتی ہیں، تم کچھ وقت میں مجھے بھول جاؤ گی، اور اِتنا سوچنا پڑتا ہے یار! کسے مَوت کا پتا ہے؟ کیا پتا ابھی مر جاؤں؟۔
ثانیہ : “نہیں! حسینو! ایسا مت کہو! مَیں سمجھ گئی، آئی لَو یو!، نہیں ملنا تو کوئی بات نہیں، بس تین ہی تو مہینے ہیں، پھر مَیں تم پہ حلال ہو جاؤں گی، پھر تو ملو گے نہ مجھ سے؟۔
حسین : او میری جان! پھر تو خود سے جدا ہی نہیں کروں گا، لَو یو!۔
ثانیہ : اَو حسین!۔
حسین‌ : اَو ثانو!۔
ثانیہ : او حسین!۔
حسین : بس بس! یہ بھی ابھی مناسب نہیں ہا ہا آہا اہا۔
ثانیہ : اللّٰه! کتنے عجیب ہو تم!۔
حسین : ہاں جی! عجیب ہوں مَیں، اچھا چلو بہت رات ہو گئی، اب فون رکھو اور سو جاؤ!۔
ثانیہ : اوکے اوکے! تم بھی سو جاؤ!۔
حسین : ہاں مَیں بَیڈ پر ہی پڑا ہوں، لائٹ بند کئے۔ آنکھیں بند ہونے کو ہیں، زین تھوڑی ہوں مَیں، وہ تو ابھی ایک دو بجے تک تمہاری عافیہ سے چَیٹ کرے گا، بہت زیادہ بگڑ گیا ہے بندہ، اللّٰه اُس کو بھی جماعت میں نکلنے توفیق دے!، میری تو سنتا نہیں ہے، وہیں سدھرے گا۔
ثانیہ : یا اللّٰه! بس جماعتی صاحب! بس!، اِتنا نا کیجے! عافیہ آپ کو چھوڑے گی نہیں!۔
حسین : مذاق نہیں یار! بہت ضروری ہے، وہ بندہ، نہ جانے کہاں کہاں لے جاتا ہے عافیہ کو، غائب ہی ہو جاتا ہے، اللّٰه اُسے گناہ سے بچائے!۔
ثانیہ : آمین! چلئے جماعتی صاحب! اب سو جائیے! آپ کی آنکھیں بند ہونے کو تھیں۔
حسین : ہاں ثانو!، اوہ، لگتا ہے امی آ رہی ہیں میرے روم میں، چلو یار شب بخیر! خدا حافظ!۔
ثانیہ : اوکے اوکے، خدا حافظ!۔

دوسرا سین

(شام چھ بجے عافیہ گھر واپس آتی ہے، دروازہ کھولتے ہی منتظر والدین نظر آتے ہیں)
عافیہ : ممّا! پاپا! السلام علیکم!
ممّا : وعلیکم السلام! بیٹا کیا کرتی ہو یہ تم؟ دیکھو پاپا کتنے پریشان ہیں تمہارے! آئے دن اِتنی دیر دیر تک باہر رہتی ہو؟ کالج ختم ہوئے دو سال ہو گئے لیکن دوستی ختم نہیں ہوئی تمہاری۔
عافیہ : سوری ممّا، آج میری فرینڈ کا برتھ تھا، اُسی کے گھر تھی (سیڑھیاں چڑھنے لگتی ہے)۔
پاپا : ہاں! سنو! کہا جا رہی ہو! کچھ کھا تو لو!۔
عافیہ : نہیں پاپا پیٹ فل ہے، مَیں ثانیہ کے پاس روم میں جا رہی ہوں۔
(عافیہ، ثانیہ اور اپنے روم میں داخل ہوتی ہے، اور فوراً ثانیہ کے قریب بیڈ پر لیٹ جاتی ہے)
ثانیہ : اللّٰه! عافیہ! کہاں تھی تم؟، اِتنی دیر دیر تک کہاں رہتی ہو تم؟۔
عافیہ : ارے بابا سانس تو لینے دو!۔
ثانیہ : او ہو! کیا کر کے آ رہی ہو میڈم؟ جو سانس پھول رہی ہے؟
عافیہ : بتا دوں؟
ثانیہ : ہاں ہاں بتاؤ!
عافیہ : (بیٹھتے ہوئے) سچ میں بتا دوں؟
ثانیہ : اللّٰه! اب بتا بھی دو!
عافیہ : اچھا! بتاتی ہوں، لیکن پرومِس کرو! ممّا پاپا سے نہیں کہو گی!
ثانیہ : نہیں کہوں گی، بتاؤ!
عافیہ : اچھا! سنو!، آج نہ، زین مجھے ایک ہوٹل میں لے گیا تھا، روم بُک کر کے۔
ثانیہ : اللّٰه! کیوں؟
عافیہ : کیوں مطلب کیا؟ وہ مجھے بہت پیار کرتا ہے، اللّٰه! آج تو اُس نے کمال ہی کر دیا۔
ثانیہ : کیوں؟ کیا کِیا اُس نے؟۔
عافیہ : آئی ایم شیور، تمہیں یقین نہیں ہو گا ثانو! پر سنو! جب وہ مجھے لے کر ہوٹل کے روم میں پہنچا، تو پہلے اُس نے بالکل ہائلی رومانٹک ہیروز کی طرح دروازہ لاک کر دیا۔
ثانیہ : (حیرت زدہ) پھر؟
عافیہ : پھر اُس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔۔۔۔
ثانیہ : کیا کہا؟
عافیہ : کہا، کہ “عافو! بیبی! آج مجھ میں سما جاؤ!”
ثانیہ : اللّٰه، پھر؟ تم نے کیا کہا؟
عافیہ : مَیں؟ مَیں کیا کہتی؟ آئی لَو ہِم، ہنس کر اُس کے گلے لگ گئی۔
ثانیہ : اچھا پھر؟
عافیہ : پھر، زین نے میرے فیس کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیا، اور۔۔۔۔۔۔
ثانیہ : اور۔۔۔۔؟
عافیہ : ایک بہت ہی لممممبا، کِس کِیا۔
ثانیہ : یا اللّٰه! تم سچ کہہ رہی ہو؟
عافیہ : او کم آن ثانو! یہ تو ہم ہمیشہ کرتے ہیں۔
ثانیہ : اللّٰه! مجھے یقین نہیں ہو رہا، اچھا پھر؟
عافیہ : پھر؟، پھر میرے زینو نے مجھے بیڈ پر دھکا دے دیا، اور۔۔۔۔
ثانیہ : اور اور اور۔۔۔؟
عافیہ : اور، اور کیا ضرورت ہے بتانے کی؟، اِتنی عقل تو تم میں ہو گی ہی، ایک سال ہی تو چھوٹی ہو مجھ سے، میرا بیبی، کتنا طاقتور ہے، آئی لَو ہِم۔
ثانیہ : (چیخ کر) اللّٰه! مجھے یقین نہیں ہو رہا، تم ایسا کیسے کر سکتی ہو؟۔
عافیہ : دھیرے بولو!، ممّا اوپر آ جائیں گی۔
ثانیہ : عافیہ! مجھے یقین نہیں ہو رہا؟، یہ تم نے کیا کِیا؟، کیسے ہونے دیا تم نے ایسا؟
عافیہ : سب سمجھ رہی ہوں مَیں، تمہیں مجھ سے جلن ہو رہی ہے، اِسی لئے اِتنی پاگل ہو رہی تم۔
ثانیہ : کیسی بات کر رہی ہو تم، مجھے کیوں جلن ہو گی، تمہیں نہیں پتا تم نے کِیا کیا ہے۔
عافیہ : جلن ہی ہو رہی ہے تمہیں، کیوں کہ تمہارا وہ جو حُسین ہے، وہ بھولا بِلّا، وہ تو تم سے ملتا تک نہیں، بڑی مشکل سے دو منٹ بات کر لیتا ہے کال پر، تمہیں تو پیار ملتا نہیں ہے، جلن تو ہو گی ہی۔
ثانیہ : عافیہ! یہ تمہیں کیا ہو گیا ہے؟، ایک تو تم اِتنا بڑا گناہ کر کے آئی ہو، اور اوپر سے تمہیں نہ ذلت کا ڈر ہے، نہ پریگنینسی کا۔
عافیہ : دیکھو ثانو! تم مجھ سے ایک سال چھوٹی ہو، تمہیں نہیں پتا، خواہشات پر قابو نہیں ہوتا، اور جب اپنی سچی محبت تنہائی میں اپنے بےحد قریب ہو، تب تو بالکل نہیں، رہی بات پریگنینسی کی، تو تین ہی تو مہینے ہیں نکاح میں، آئی کین ایڈجسٹ۔
ثانیہ : عافیہ کیا کیا کہہ رہی ہو تم؟ تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے، سچی محبت کی بات کر رہی ہو؟، جانتی بھی ہو محبت کیا ہے؟، میرے حسین کے الفاظ سنو کہ محبت ہوتی کیا ہے، وہ کہتا ہے “بغیر محبوب کے دامن کو داغ لگائے، اُسے اپنا لینا محبت ہے”، اور یہ جو تم دونوں کر کے آئے ہو نا، اِسے عیاشی کہتے ہیں، محبت نہیں، آج مجھے یقین ہو گیا ہے کہ زین تم سے کوئی محبت وحبت نہیں کرتا، ذرا سوچو! اگر کل کو ممّا پاپا کو پتا چل گیا، تو اُنہیں کتنا صدمہ ہو گا؟”
عافیہ : ارے میری بہن! تم کتنا سوچتی ہو، ممّا پاپا کو بتا کون رہا ہے، ہم دو کے علاوہ یہ بات جانتا کون ہے؟ اور پھر، بس تین ہی مہینے تو ہیں، پھر زین اور مَیں ہمیشہ کے لئے ایک ہو جائیں گے۔
ثانیہ : اللّٰه کرے سب آسانی سے ہو جائے! نہیں آپ تو پاگل ہوں گی ہی، مجھے بھی پاگل کر جائیں گی۔
عافیہ : اووووووو! اِتنا پیار کرتی ہو مجھے؟
ثانیہ : نہیں!، مَیں تو آپ سے جلن کرتی ہوں۔
عافیہ : اے! ثانو! سوری یار!
ثانیہ : جائیے معاف کِیا، خوش رہئے!
(دونوں بہنے گلے ملتی ہیں)

سین سوم

(دو مہینے بیت گئے ہیں، صبح کا وقت ہے، زین، حسین، اور اِن کے پاپا سعید احمد ڈائننگ ٹیبل پر ناشتہ کر رہے ہیں، تبھی اِن کی ماں زبیدہ آلو کے پراٹھے بنا کر لاتی ہیں)
زبیدہ : لو بچوں آلو کے پراٹھے!
حسین : بہت شکریہ امی جان!
سعید : بھئی ہمارے لئے نہیں ہیں پراٹھے؟
زبیدہ : (بیٹھتے ہوئے) کیوں نہیں؟ لیجئے آپ بھی! اور تم! میرے ہوبہو ایک جیسے پھولو! طبیعت سے کھانا! بچیں نا پراٹھے!
حسین : جی امی، ضرور!۔ ارے زین! کیا ہوا میرے ہم شکل؟ بڑے خاموش ہو؟
زین : ہاں؟ اوہ، کچھ نہیں بھائی جان، بس دوست سے ملنے جانا ہے، اِس لئے جلدی ہے۔
سعید : بڑا یار دوستوں میں دماغ رہتا ہے، کام میں من لگ رہا ہے نہیں؟ یا فیکٹری بند کراؤں؟، ہمارے حسین کو دیکھو! صبح ہی فیکٹری پہنچتا ہے، اور دیر رات میں آتا ہے، میاں! ایک مہینے میں نکاح ہے تمہارا، بیوی بچے والے ہونے جا رہے ہو، سدھر جاؤ! یار دوست کام نہیں آئیں گے، پیسا کام آئے گا پیسا۔
زین : جی پاپا! سہی کہا آپ نے، الحمدللّٰه ہمارا الیکٹرانکس کا بزنس ہے، پیسوں کی کمی نہیں ہو گی۔
حسین : حضرت محنت تو کرنی پڑے گی!، دن بھر گھومتے رہنے سے تھوڑی آئے گا پیسا۔
زین : جی بھائی، درست فرما رہے ہیں آپ، اب سے کروں گا محنت، امی جان! میری بائک کی چابی کہاں ہے؟ مَیں جا رہا ہوں۔
زبیدہ : مین گیٹ کے پاس ہینگر پر ٹنگی ہے۔
زین : ٹھیک ہے، السلام علیکم! (زین چلا جاتا ہے)
زبیدہ : بیٹا حسین! ہونے والی بیوی پسند ہے نہ؟
حسین : آپ کو پسند ہے امی؟ اگر آپ کو ہے تو مجھے بھی ہے۔
زبیدہ : میرے لعل! نکاح تمہارا ہے، پسند تمہاری دیکھی جائے گی۔
سعید : اور کیا بیٹا، بیوی تمہاری رہے گی، ہم پسند کر کے کیا کریں گے؟
حسین : اچھا، مجھے پسند ہے، بہت پسند، مَیں ثانیہ سے بہت محبت کرتا ہوں۔
زبیدہ : الے‌ میرا بچہ! کبھی ایسی بات تمہاری زبان سے نہیں سنی، شدت والی محبت ہے، ہاں؟
حسین : نہیں امی جان! “محبت والی محبت ہے”۔
سعید : بھئی واہ، غضب ڈائیلاگ ہے!۔
حسین : کیا پاپا آپ بھی آہا اہا اہا ہا۔
زبیدہ : سہی تو کہہ رہے ہیں، پہلے تو ہمارا حسین سناٹا رہتا تھا ہر گھڑی، اب منہ کھلا ہے۔
حسین : یا رب! اہا ہا ہا ہا آہا۔
(گھر کا نوکر نفیس روتے ہوئے آتا ہے)
نفیس : مالکن! زین بھیا ٹرک کے نیچے پِس گئے۔
زبیدہ : یا اللّٰه! (بیہوش ہوجاتی ہیں)
سعید : آہ! (دل تھام کر بیٹھ جاتے ہیں)
حسین : (گھبرا کر) نفیس! کیا کہہ رہا ہے؟، کہہ کیا رہا ہے بھائی؟
نفیس : (سسک سسک کر) بھیا! وہ زین بھیا، ہم بازار سے سبزی لا رہے تھے، تو دیکھے کہ زین بھیا بائک سے جا رہے ہیں، سامنے سے ایک ٹرک آیا اور انہیں پیس گیا، زین بھیا، بھیا ختم ہو گئے۔
حسین : (گھٹنوں کے بل بیٹھ جاتا ہے) اِنّا لِلّٰهِ وَاِنّا اِلَیهِ راجِعُون۔

سین چوتھا

(حسین کا گھر، زین کی تدفین کے بعد، نکاح سے ایک روز قبل، ہو کا سا عالم، سعید، زبیدہ، اور حسین خاموش بیٹھے ہیں)
حسین : امی جان؟
حسین : امی جان؟
سعید : وہ نہیں بولے گی بیٹا، اُس کا لعل فوت ہو گیا۔
حسین : پاپا! کل نکاح کا دن ہے۔
سعید : بیٹے! تُو ایسے میں نکاح کرے گا؟
حسین : ہاں، نہیں۔
سعید : کیا کہنا چاہتا ہے بیٹے؟
حسین : پاپا!، عافیہ کو بہت غم ہو گا۔
سعید : کیوں؟ صرف عافیہ کو ہی ہو گا؟ ثانیہ تجھے نہیں چاہتی؟
حسین : چاہتی ہے، پر وہ بھول جائے گی۔
سعید : اور عافیہ کیوں نہیں بھولے گی؟
حسین : پاپا! زین کے عافیہ کے ساتھ جسمانی تعلقات تھے، وہ اُس کی مَوت بالکل برداشت نہ کر سکے گی۔
سعید : (سخت حیران) کیا۔۔۔۔۔۔؟
حسین : ہاں پاپا!، اور اُس کے برخلاف مَیں نے ثانیہ کو چھوا تک نہیں، وہ مجھے بھول جائے گی۔
سعید : (رو کر) میرے بچے! لیکن مَوت تو زین کی ہوئی ہے۔
حسین : نہیں پاپا!، انتقال حسین کا ہوا ہے، مَیں ہی آج سے زین ہوں، آپ کا بیٹا زین، آپ کا لعل امی جان! (زبیدہ سے گلے ملتا ہے)۔
سعید : لیکن بیٹا! تُو تو ثانیہ سے بہت محبت کرتا ہے نہ، اُسے کیسے سمجھائے گا بیٹے؟
حسین : (ماں کو چھوڑ کر) ابھی کال کرتا ہوں۔
(گھنٹی جاتی ہے، ثانیہ فون اٹھاتی ہے)۔
ثانیہ : السلام علیکم!
حسین : (آنسو روکتے ہوئے) ثانو۔۔۔۔۔
ثانیہ : نہیں نہیں نہیں! رکئے رکئے رکئے!، مَیں بولوں گی، آپ سنیں گے۔ تو سنئے! مجھے ہنیمون کے لئے، پہلے جانا ہے اٹلی، پھر سویٹزرلینڈ، پھر لاس ویگاس اور۔۔۔
حسین : (آواز قابو کرتے ہوئے) ثانیہ! مَیں۔ حسین نہیں زین بات کر رہا ہوں، حسین بھیا کا انتقال ہو گیا۔
ثانیہ : کیا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
حسین : مَیں نے کہا، حسین بھیا نہیں رہے، ثانیہ!
ثانیہ : او ہیلو! اِتنا بھدا مذاق مت کرو مجھ سے! مَیں کہہ رہی ہوں۔
حسین : یہ سچ ہے۔
ثانیہ : حسین! تم نے مجھے بے وقوف سمجھ رکھا ہے، مَیں تمہاری آواز پہچانتی ہوں، اب بس کرو! مجھے رونا آ رہا ہے (روتی ہے)۔
حسین : او ثانو! تم کتنی بری ہو! مان کیوں نہیں لیتی؟ مَیں مر گیا ہوں۔
ثانیہ : (بلکتے ہوئے) ہوا کیا ہے میرے حسینُو؟
حسین : ثانو! وہ زین، زین مر گیا۔
ثانیہ : کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟
حسین : ہاں ثانو! وہ اب نہیں رہا۔
ثانیہ : یا اللّٰه! میری بہن (پھوٹ پھوٹ کر روتی ہے)۔
حسین : ثانو! اب رونے سے کوئی فائدہ نہیں۔
ثانیہ : (سسکیاں روکتے ہوئے) تو کس سے ہے فائدہ؟، تمہارے زین بننے سے؟
حسین : ہاں، دیکھو تمہارے اور میرے بیچ کچھ نہیں ہے، لیکن عافیہ اور زین کے جسمانی تعلقات تھے، وہ زین کی مَوت برداشت نہیں کر پائے گی۔
ثانیہ : (رو رو کر) ہاں! نہیں کر پائے گی، تو اب تم کیا کرو گے؟، مجھے بھول کر عافیہ کے لئے زین بن جاؤ گے؟
حسین : ہاں! اور مَیں کیا کروں؟
ثانیہ : ہاں مگر، میرا تمہارے بنا کیا ہو گا؟، مَیں بھی مر جاؤں گی۔
حسین : نہیں ثانو! تم ایسا نہیں کر سکتی، مَیں تمہارا تھا ہی کب، جو تم میرے لئے ایسا کرو گی؟
ثانیہ : اچھا؟، اب مَیں تمہاری کچھ رہی بھی نہیں؟، جان جان کسے بلاتے تھے تم؟
حسین : ثانو پلیز! اپنی بہن کے بارے میں سوچو! وہ مر جائے گی۔
ثانیہ : تم، تم اُسے اپناؤ گے؟، وہ زین سے پریگنینٹ ہے۔
حسین : یا رب! آہ! (بلکتے ہوئے) یہ کب ہوا؟؟؟
ثانیہ : تین مہینے پہلے۔
حسین : کوئی بات نہیں، مَیں اپناؤں گا، بس ثانو! طے رہا، تم اپنے گھر پر انکل آنٹی کو بتاؤ! کہ حسین اب نہیں رہا!
ثانیہ : مَیں یہ کیسے کہہ دوں حسینو؟، تم زندہ ہو، اور مجھے پتا ہے مجھے بہت پیار کرتے ہو تم!۔
حسین : (بلک کر) نہیں! مَیں نہیں کرتا تم سے محبت، تم بھی مت کرو!
ثانیہ : (سسکتے ہوئے) پر کیسے ؟؟؟
حسین : بس تم سمجھو کہ مَیں مر گیا!
ثانیہ : کیسے سمجھوں؟ تم زندہ ہو، اور میرے ہو۔
حسین : ثانو! بیشک مَیں تمہارا ہی ہوں، اور تمہارا ہی رہوں گا، مگر کیا یہ ضروری ہے کہ ہم ایک ہوں؟، ہم پہلے بھی تو محبت کرتے تھے، بنا ملے، بنا اک دوجے کو چھوئے، جانو! ہمیں قربانی دینی ہو گی۔
ثانیہ : مت کرو ایسا! مَیں مر جاؤں گی۔
حسین : ثانیہ! ثانیہ! “تم مجھ سے محبت کرتی بھی ہو؟۔
ثانیہ : (روتی رہتی ہے)
حسین : ثانیہ! سن بھی رہی ہو تم؟
ثانیہ : (بلک کر) ہاں، سن رہی ہوں۔
حسین : تو بتاؤ نا!، تم مجھ سے محبت کرتی بھی ہو؟۔
ثانیہ : تمہیں مجھ پر اعتبار نہیں؟
حسین : مَیں کیسے کروں اعتبار؟ ہاں؟ بتاؤ!، تم میری کوئی بات ہی نہیں مانتی۔
ثانیہ : مانتی تو ہوں، بس یہ والی،،، یہ والی نہیں مانوں گی۔
حسین : میری جان نہیں ہو تم؟
ثانیہ : (بری طرح روتے ہوئے) ہوں۔
حسین : تو میری بات مانو! تمہیں ضرور کوئی مجھ سے اچھا ملے گا، مجھے بھول جاؤ!
(دونوں دیر تک خون روتے ہیں)
ثانیہ : ٹھیک ہے، کر لو نکاح عافیہ سے! خوش رہو!
حسین : ہاں، تم بھی خوش رہو! اور مجھے یاد مت کرنا!
ثانیہ : تم بھی مجھے یاد مت کرنا!
حسین : ارے!!! مَیں کیوں نہ کروں یاد؟ میری مرضی، مَیں تو کروں گا۔
ثانیہ : تو میری بھی مرضی، مَیں بھی کروں گی۔
حسین : ثانو!
ثانیہ : حسین!
حسین : اچھا!، چلو ٹھیک ہے!، مَیں نہیں کروں گا یاد، تم بھی مت کرنا!۔
ثانیہ : ٹھیک ہے جیسا تم کہو!، خوش رہو!، اور میری بہن کو بھی خوش رکھنا!۔
حسین : ہاں!، تم بھی!۔
ثانیہ : ٹھیک ہے!۔
حسین : ٹھیک ہے ثانو!

(دونوں روتے روتے کال کاٹ دیتے ہیں)

پردہ گرتا ہے!!!

تحریر عزیؔز اختر