غزل : ترس رہے ہیں مِرے قدم اب کہ ہو نرالی کوئی مسافت

0
ترس رہے ہیں مِرے قدم اب کہ ہو نرالی کوئی مسافت
کہ مدتوں سے وہی ہے رستہ، وہی محالی کوئی مسافت
کہاں سے ہو گی ہمیں مقدر کبھی گُلالی کوئی مسافت
سیاہ دنیا بنا رہے ہیں، ملے گی کالی کوئی مسافت
اگرچہ تم اِن طویل راہوں میں ساتھ میرے نہیں ہو لیکن
تمہاری یادوں سے جانِ جاناں نہیں ہے خالی کوئی مسافت
جو بات کہنی تھی کہہ نہ پائے، تبھی ہیں رنج و الم کے سائے
جناب اب طے کرو تمام عمر تم ملالی کوئی مسافت
نہیں ہے ممکن کسی طرح بھی سراغ منزل کا ہم کو ملنا
کہ راہ دیتی ہی اب نہیں ہے ہمیں تو سالی کوئی مسافت
تمہاری قربت کا فی الحقیقت حصول ممکن نہیں ہے جاناں
سو کر رہا ہوں مَیں طے تمہاری طرف خیالی کوئی مسافت
کسی نے مایوسیوں کی مٹی میں خود کو در گور کر لیا ہے
کسی نے قسمت سے اور محنت سے ہے کما لی کوئی مسافت
عزیؔز اختر