ڈراما: قصور کس کا ہے؟

0

قصور کس کا ہے؟

کردار

  • چوہان – سیٹھ
  • بھگوان – چوہان سیٹھ کا پڑوسی
  • رام : بھگوان کا وکیل
  • چور
  • جج – منصف
  • شاطر – چور کا وکیل
  • صادق – سیٹھ کا وکیل
  • پی ایم – پردھان منتری

سین اول

(رات چوہان سیٹھ سونے چاندی اور روپے پیسے سے بھری اپنی تجوری کو بغیر مقفل کئے سو گئے، اِن کے پڑوسی نے کھڑکی سے کھڑکی یہ ماجرا دیکھا اور ایک چور کو تجوری کی صفائی کا ذمہ عطا کِیا، چور تجوری کو چاند سا چمکا کر رات و رات فرار ہو گیا۔ پولیس کی دس روز کی مسلسل تفتیش کے بعد بالآخر چور مقبوض ہوا لیکن اُس کا کہنا تھا کہ وہ اب تلک چوری کِیا ہوا سارا مال اُڑا چکا ہے اور تو اور خود کو قصور وار ماننے کو بھی تیار نہ تھا، بات کورٹ تلک پہنچی۔ سیٹھ دانش چوہان اور چور اپنے اپنے وکیل کے قریب کٹگھرے میں کھڑے ہیں، دونوں کٹگھروں کے پاس ایک ایک حولدار کھڑا ہے۔)

(پردہ اٹھتا ہے)

جج : آرڈر آرڈر! معاملے کی کاروائی شروع کی جائے!
چور: (رو رو کر) جج صاحب!،،، پرماتما!،،، داتا!،،، کرتا دھرتا!،،، مائی باپ!۔۔۔۔
شاطر – (بوکھلا کر) ابے چپ۔۔۔۔۔!!! جج جی کی ماں بہن کر رہا ہے،،، گھر لے جائیو اِنھیں!،،، اَہ اَہ،،، (گلا صاف کر کے) جج جی! آج اِس عدالت میں بڑا ہی سنگین بولے تو پتھریلا کیس آیا ہے،،،۔
جج : کیا؟؟؟،،، پتھریلا؟؟؟ کیسے؟؟؟
شاطر : جی جج جی! پتھریلا،،، اور وہ ایسے کہ اِس وقت، یہاں کٹگھرے میں، یہ جو معصوم صورت، مہذب اور وضعدار چور کھڑا ہوا ہے، اِس نے آج سے ٹھیک دس روز پہلے،،، اِس عیاش، پاکھنڈی اور دلال سیٹھ دانش کے مکان میں رات دہاڑے گھس کر سونے چاندی اور روپے پیسے سے بھری تجوری کو صاف کرنے کا نیک کام انجام دیا تھا۔
سیٹھ : زبان سنبھال کر بولئے وکیل صاحب! سیٹھ ہیں ہم، عیاش، پاکھنڈی اور دلال نہیں۔
صادق : (چیخ کر) ایک منٹ۔۔۔!!! جج صاحب! کیا کرنے گیا تھا یہ سیٹھ جی کے گھر؟،،، “سوچھتا ابھیان” کو فروغ دینے؟ تجوری میں صفائی نہیں کی ہے اِس نے،،، صفایا کِیا ہے صفایا،،، ہمارے سیٹھ کی ساری سمپتّی لے گیا،،، اور دس دن میں سب کھا بھی گیا،،، اور اب اپنا قصور مان کر نقصان کی بھرپائی کرنے کے بجائے معصوم بن کر دکھا رہا ہے۔
جج : (اُلجھ کر) ارے لیکن یہ کیس پتھریلا کیسے ہے؟؟؟
صادق : (باآوازِ بلند) جج صاحب! یہ کیس پتھریلا نہیں ہے!
شاطر : (مزید بلند) نہیں جج جی! یہ کیس پتھریلا ہے!
صادق: نہیں ہے……….!!
شاطر : ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
صادق : نہیں ہے، نہیں ہے، نہیں ہے۔۔۔۔۔۔!!!
شاطر : ہے،،، ہے،،، ہے،،، یہ کیس پتھریلا ہے جج جی!
جج : ابے چپ۔۔۔۔۔۔۔! منہ بند! بالکل چپ! مدعا بولو مدعا!
چور : (بلک کر) مائی باپ۔۔۔!،،،
شاطر : (چور کو ایک تھپڑ لگا کر) تِرے مائی باپ کی آرتی ماروں،،، مدعا بول! مدعا!
چور : (آنسو پونچھتے ہوئے) مدعا بول دیں؟
شاطر : ہاں بول!
چور : سچ میں بول دیں؟
شاطر : ابے کارڈ چھپاؤں تیرے لئے؟ بول! جلدی بول!
شاطر : تو اب ہم سچ میں بول دیں گے! جان لیو!(شاطر کلس کر چور کو دبوچتا ہے اور پاس کھڑے حولدار اُس کو جکڑتے ہیں)
شاطر : (حولداروں کو دھکا دیتے ہوئے) سالے اب کی تُو نے مدعا نا بولا تو یہیں گولی مار دوں گا تجھے،،، یہیں، جج جی کے سامنے۔
چور : (کانپتے اور ناخن چباتے ہوئے) بولتا ہوں، بولتا ہوں۔
شاطر : جلدی بول! جلدی بول!
چور : مدعا!،،، لیو بول دئے ہم مدعا!
شاطر : (چور پہ لد کے مکے ہی مکے، لات ہی لات بجاتے ہوئے) سالے! مدعا بولتا ہے،،، یہ لے، یہ لے!
چور : مائی باپ! تم ہی تو بولے کہ مدعا بول!
شاطر : (چور کو کھڑا کرتے ہوئے) ابے مدعا مطلب چوری کیوں کی بول!
چور : (بلک بلک کر) ارے تو ایسے بولتے نا پربھو!
سیٹھ : (غصے میں) ارے کیا بکواس لگا رکھی ہے یہ؟ بہت دیر سے دیکھ رہے ہیں ہم،،، کیا چل رہا ہے؟
جج : یار سیٹھ تم کام کے آدمی لگ رہے ہو، تمِہیں بتاؤ یار! کیا بات ہوئی تھی؟ اِس نے چوری کیوں کی؟
دانش سیٹھ: دیکھئے جج صاحب! پہلی بات تو ہم کام کے آدمی نہیں ہیں، نام کے آدمی ہیں۔
جج : کیا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ؟
دانش سیٹھ : ارے وہ کچھ نہیں،،، ہماری زبان پھسل گئی، ہاں دوسری بات ہم تمہارے یار نہیں ہیں، اور تیسری اِس چور نے ہماری تجوری لوٹی ہے، اور چوتھی جس نے چوری کی ہے اُس سے پوچھو اُس نے چوری کیوں کی؟ اور ہمارا مال ہمیں واپس دلاؤ! ہمیں بس ہمارا مال چاہئے، نہیں طوفان آئے گا۔
صادق : سیٹھ جی آپ بے فکر رہیں! آپ کا مال آپ کو واپس ملے گا، ضرور ملے گا۔
جج : (الجھ کر) بھائی چور! بتا دے یار چوری کیوں کی تُو نے، کیا مقصد تھا تیرا؟
چور : داتا!
شاطر : (آگے بڑھتے ہوئے) دانت ہی توڑ دوں تیرے۔
جج : آرڈر آرڈر! اوہ مہا پُرُش! بتا چوری کیوں کی؟
چور : ہم نے چوری نہیں کی، ہم سے کرائی گئی ہے۔
سب (ایک آواز ہو کر) : کیا۔۔۔۔۔۔؟ کس نے کرائی؟
چور : سیٹھ جی کے پڑوسی “بھگوان” نے۔
صادق : او تِری! نام کیسا، کام کیسا۔
شاطر : مجھے تو پہلے ہی معلوم تھا، یہ چور نردوش ہے۔
سیٹھ : اِس کی بھگوان کی۔۔۔۔۔!
جج : آرڈر آرڈر! بھگوان کو کچھ نہ کہا جائے۔
شاطر : جج جی! نام ہی تو بھگوان ہے،،، کام تھوڑی ہے۔
جج : وہ تو اُن سے مل کر ہی پتا چلے گا،،، کیا معلوم اُن کے پاس بھی کوئی معقول عذر ہو، ہم آج کی عدالت کو یہیں ختم کرتے ہیں،،، کل جب عدالت میں بھگوان حاضر ہوں گے، تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا،،، آرڈر آرڈر!۔

سین دوم

(کاروائی شروع ہونے کو ہے، سبھی لوگ موجود ہیں، مگر ابھی تک بھگوان نظر نہیں آئے۔)

(پردہ اٹھتا ہے)

جج : ارے بھگوان کہاں رہ گئے؟ آئے نہیں۔
(یکایک بھگوان منہ میں پان لئے اپنے وکیل رام گوپال کے ساتھ آتے ہیں اور کٹگھرے کے اندر کھڑے ہو جاتے ہیں، رام اُن کے قریب کھڑے ہو جاتے ہیں، شاطر اور صادق اپنے پرانے دشمن رام کو دیکھتے ہیں اور بوکھلا جاتے ہیں، سیٹھ بھگوان کو دیکھ کر آگ بگولہ ہو جاتا ہے اور مسلسل اُسے گھورتا رہتا ہے۔)
شاطر : لیجئے جج جی! بھگوان رام۔۔۔۔ میرا مطلب بھگوان اور رام بھی آ گئے، اب کاروائی شروع کیجئے!
صادق : ہاں ہاں ہاں شروع کیجئے!
جج : ارے اِتنی جلدی بھی کیا ہے،،، بھگوان جی یہاں روز روز تھوڑی آتے ہیں،،، اُن کا آشرواد تو لے لیں ہم۔
(جج جا کر بھگوان کے پاؤں چھو کر آشرواد لیتا ہے اور واپس آ کر اپنی جگہ بیٹھتا ہے)۔
بھگوان : (پان چباتے ہوئے) ہمیں بہُت کام ہے، اور رام کو بھی بہت جروری کام ہے،،، جدلی جلدی پوچھ لیو جو پوچھنا ہے!
رام : ہاں بھیا ہم کو بھی جروری کام ہے،،، جلدی جلدی مامِلہ رفع دفع کرو!
صادق : حضرات! عدالت ہے یہ، مقدمہ چل رہا ہے یہاں،،، چائے کی دکان نہیں ہے جو دو منٹ میں نوڈل مل جائے اور کام ختم۔
رام : بھگوان جی! چائے کی دکان پہ نوڈل بھی ملتا ہے کیا؟
بھگوان : پتا نہیں یار، ہم نے تو نہیں دیکھا،،، ابھی جاتے میں پوچھ کے دیکھیں گے۔
صادق : (بوکھلا کر) چپ! چپ! چپ!۔
جج : آرڈر آرڈر! عدالت کے وقار کا خیال رکھیں!
صادق : جج صاحب! دیکھئے نا یہ لوگ نوڈل کھانے کی باتیں کر رہے ہیں!۔
جج : ارے تو نوڈل ہے ہی ایسی چیز۔
صادق : اچھا! چھوڑئے! کام کی بات، تو بتائیے بھگوان جی!۔۔۔
جج : ارے رکو بھیا رکو! ہم پوچھتے ہیں،،، جی بھگوان جی! ہم نے سنا ہے کہ آپ نے اِس چور کے ذریعے اپنے پڑوسی چوہان سیٹھ کے گھر کی تجوری لوٹی ہے؟
بھگوان : جی جی! بالکل، سہی سنا ہے آپ نے،،، اِن کی تجوری کو لوٹا ہے ہم نے۔
جج : لیکن کیوں بھگوان جی؟
بھگوان : ارے کیوں مطلب کاؤ؟ اَیں؟ بہُت جیادہ بھر گئی تھی اُو،،، کئی ورشوں سے ہم کھڑکی سے دیکھتے آ رہے ہیں، لبالب بھری رہتی تھی سَدَیو، ہم نے سوچا کبھی خود تو صاف صفائی کراتے نہیں ہیں اُس کی، ہمِیں کرا ڈالیں۔
سیٹھ : بس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!! بہت ہو گیا جج صاحب! ہم اب ذرا بھی اِس کی بکواس نہیں سنیں گے،،، اِس نے چوری کرائی ہے، اِسی کے پاس ہمارا مال ہوگا، سارا قصور اِسی کا ہے، ہمیں بس اب ہمارا مال دلاؤ جلدی!۔
جج : ارے بھائی! صبر سے کام لیجیے! انصاف ہو گا۔
بھگوان : دیکھئے جج صاحب! کچھ بھی ہو قصور ہمارا تو بالکل نہیں ہے۔
جج : اچھا! لیکن بھگوان جی! پھر قصور کس کا ہے؟
بھگوان : قصور سارا چوہان سیٹھ کا ہی ہے،،، نہ وہ رات اپنی تجوری کھلی چھوڑتے، نہ ہماری نجریں پڑتیں،،، اور نہ ہی ہم اِن کی تجوری صاف کراتے۔
سیٹھ : اَیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!!
جج : بات تو پتے کی کہہ رہے ہیں آپ۔
رام : ہم تو پہلے سے جانتے تھے۔
شاطر : مجھے تو پہلے سے شک تھا جج جی۔
صادق : مَیں نے کبھی نہیں سوچا تھا میرا مؤکل ایسا بے وقوف ہو گا۔
سیٹھ : (سخت حیران) میاں تم ہماری طرف ہو! یہ ہو کیا رہا ہے؟ چوری ہمارے یہاں ہوئی اور قصور بھی ہمارا؟؟؟
رام : تجوری کھول کے سوؤ گے تو یہی ہو گا نا۔
سیٹھ : میاں ہمارا گھر ہے،،، ہم اُس میں تجوری کھول کے سوئیں یا خود کو کھول کے سوئیں، ہماری مرضی،،، اِس میں ہمارا کیا قصور؟؟؟
بھگوان : ارے کیسے نہیں ہے قصور؟ بھوکے کو کھانا دکھاؤ گے، تو اُو تو لپکے گا ہی نہ۔
جج : تو فیصلہ ہو گیا،،، چوہان سیٹھ اپنی تجوری کی چوری کے خود ذمے دار ہیں اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیٹھ : ایک منٹ جج صاحب! ہمیں ابھی سمجھ آیا،،، قصور ہمارا بھی بالکل نہیں ہے۔
جج : تو بتائیے! قصور کس کا ہے؟
رام : ہاں ہاں بتائیے! قصور کس کا ہے؟
شاطر : جی! قصور کس کا ہے؟
صادق : اب بتا ہی دیجئے سیٹھ جی! قصور کس کا ہے؟؟؟
سیٹھ : قصور! جج صاحب کا ہے۔
سبھی (ایک آواز میں) : اَیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!!!!!
جج : یہ کیا بکواس ہے،،، ہم تو انصاف کرنے والے ہیں،،، ہم کیسے قصوروار ہو سکتے ہیں؟
سیٹھ : یہی تو مسئلہ ہے جج صاحب! آپ منصف ہیں،،، وہ منصف جس سے مجرموں کو دھول برابر فرق نہیں پڑتا۔ وہ آپ کے منہ پر پیسا مار کے با عزت بری ہو جاتے ہیں،،، اُن کو کوئی سخت سزا نہیں دی جاتی کہ وہ رِہا ہونے کے بعد سزا کی سختی کا تصور کر کے دوبارہ چوری نہ کریں،،، اور چوروں کی بڑھتی تعداد کے ذمے دار بھی آپ کی بے ایمانی اور ڈھیلے قانون ہیں۔ سارا قصور قانون، یعنی آپ کا ہے، نہ آپ بھرشٹ ہوتے، نہ چور ہوتے اور نہ ہی ہمارے گھر میں چوری ہوتی۔
جج : بات تو آپ پتے کی کہہ رہے ہیں، یہ تو ہم سوچے ہی نہیں۔
رام : ہم تو پہلے سے جانتے تھے۔
شاطر : ہمیں بھی لگ ہی رہا تھا۔
جج : تو اب کیا کِیا جائے؟؟؟
شاطر : کرنا کیا ہے؟ جب پتا چل گیا ہے کہ قصور کس کا ہے تو اب قصوروار کو سزا دی جائے!۔
سیٹھ : لیکن کیا سزا دی جائے؟
صادق : عمر قید کیسی رہے گی؟
شاطر : ہم تو کہتے ہیں پھانسی دے دو جج جی کو!
رام : نہیں بھیا! پھانسی سے بہت جیادہ کشٹ ہو گا جج صاحب کو، ہمارا کہنا ہے توپ سے اُڑائے دو!
جج : ارے ارے ارے! یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ لوگ؟ ہمیں توپ سے اُڑائیں گے؟ دیکھئے! آپ ایسا نہیں کر سکتے۔
بھگوان : کیوں نہیں کر سکتے؟ پاپی ہو تم! تمہیں سزا ملے گی۔
جج : ارے ہم نے کچھ نہیں کِیا،،،، (کچھ سوچ کر) ارے اب سمجھے ہم!،،،، ابھی کے سمجھے،،،۔
رام : کیا سمجھ گئے جج صاحب؟
جج : اب ہم سمجھے کہ قصور کس کا ہے،،، قصور ہمارا بھی نہیں ہے،،، ہم تو کم بھرشٹ ہیں اور قانون کو صرف پاس کرتے ہیں،،، بناتی تو سرکار یعنی ہمارے پی ایم جی ہی ہیں،،، جو کہ بھرشٹاچار کے معاملے میں ہمارے استاد ہیں۔ قصور ہمارا نہیں ہے،،، قصور سرکار کا ہی ہے سارا۔
صادق : بات تو پتے کی کہہ رہے ہیں یہ۔
رام : ہم تو پہلے سے جانتے تھے۔
شاطر : ہمیں بھی شک تھا پہلے سے۔
جج : بس، آج کی کاروائی یہیں ختم کی جاتی ہے،،، کل ہمارے پی ایم جی بھی عدالت میں آئیں گے، اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔

سین سوم

(کاروائی شروع ہوئے ایک گھنٹا ہو گیا اور پی ایم جی ابھی تک نظر نہیں آ ئے،،، سبھی لوگ اپنی اپنی جگہ موجود اونگھ رہے ہیں۔)

(پردہ اٹھتا ہے)

جج : (نیند میں) آرڈر آرڈر! پی ایم جی کہاں رہ گئے؟۔
بھگوان : ارے وہ آنے والے نہیں، ہم تو کہتے ہیں تم ہی سزا لے لو! چھوڑو پی ایم وی ایم کو!۔
جج : ارے ایسے کیسے ہم لے لیں سزا؟ جب قصور ہمارا ہے ہی نہیں۔ رکو ہم فون کرتے ہیں پی ایم جی کو۔
(لاؤڈ سپیکر آن ہے، گھنٹی جاتی ہے، پی ایم فون اٹھاتا ہے)
جج : ہیلو پی ایم جی؟
پی ایم : ارے کون مر گیا؟
جج : نہیں پی ایم جی! کوئی مرا نہیں ہے،،، مارنا ہے۔
پی ایم : مارنا ہے؟ کس کو مارنا ہے بھئی؟
جج : جی آپ کو!
پی ایم : کیا۔۔۔۔۔۔؟؟؟ ارے دماغ تو ٹھیک ہے تمہارا؟ ہمیں کیوں مارو گے تم؟
جج : اب کیا بتائیں آپ کو،،، ایک سیٹھ جی کے گھر چوری ہو گئی،،، اُن کی تجوری لٹ گئی،،، اور اُن کا کہنا ہے کہ اِس لوٹ کے ذمے دار آپ ہیں۔
پی ایم : ہم؟ کیوں؟ ہم کیا اُن کے گھر کے چوکیدار ہیں؟
جج : نہیں، کیوں کہ آپ نہایت ہی بھرشٹ ہیں اور مجرموں کے لئے سخت قانون نہیں بناتے، اُنہیں بڑھاوا دیتے ہیں، جس کی وجہ سے لوٹ مار بڑھتی جا رہی ہے۔
پی ایم : کیا کیا کیا؟ یہ کیا بیہودہ بکواس ہے؟ ہم اگر بھرشٹ ہیں اور مجرموں کو ڈھیل دیتے ہیں تو اِس میں ہمارا کیا قصور ہے؟ ہم تو خود ہی چور ہیں، اگر اِتنے ہی برے لگتے ہیں ہم تو ہمیں پی ایم بنایا ہی کیوں؟ نا دیتے ہمیں سرکار! بڑے آئے ہمیں مارنے والے،،، مارنا ہی ہے تو خود کو مارو! سارا قصور تم ہی لوگوں کا ہے۔
جج : لیکن پی ایم جی! ہیلو؟ ہیلو؟؟؟

(کال کٹ جاتی ہے، سب حیرت زدہ و خاموش ایک دوسرے کو گھورتے ہیں۔)
(پردہ گرتا ہے)

عزیؔز اختر