علامہ اقبال کا تصورِ شاہین، خلاصہ، سوالات و جوابات

0
  • نیشنل بک فاؤنڈیشن “اردو” برائے آٹھویں جماعت
  • سبق نمبر: 15
  • سبق کا نام: علامہ اقبال کا تصورِ شاہین

خلاصہ سبق:

اس سبق میں علامہ محمد اقبال کی شاعری کے خاص پہلو تصور شاہین کو اجاگر کیا گیا ہے۔علامہ محمد اقبال سے ہمارے قومی شاعر ہیں انھوں نے اپنے کلام کے ذریعے سے مسلمانوں کو اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے کے لیے عمل پیہم کی تلقین کی۔ انھوں نے مسلمانوں کو اپنی شاعری کے ذریعے آفاقی پیغام پہنچایا۔ ان کی شاعری نے دنیا کے تمام مسلمانوں کے دلوں میں ایک نیا ولولہ پیدا کیا ہے۔اقبال نے اپنے پیغام کو عام کرنے کے لیے اپنی شاعری میں کئی تصورات پیش کیے۔

ان کے تصور شاہین کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ شاہین ایک خود دار، غیرت مند، تیز نگاہ اور بلند پرواز پرندہ ہے۔ وہ اپنے زور بازو سے شکار کرتا ہے اور دوسروں کا کیا ہواشکار نہیں کھاتا۔ شاہین کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ نہایت اونچی اڑان بھر سکتا ہے اور اس دوران میں اسے تھک کر گرنے کا خوف نہیں ہوتا۔شاہین کی دوسری خوبی یہ ہے کہ وہ صرف اپنے جیسے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ اُڑنا پسند کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ خود کو اعلیٰ سمجھتا ہے بل کہ اس کا مطلب بری صحبت سے گریز کرنا ہے۔

شاہین کی اس خوبی سے یہ سبق ملتا ہے کہ نوجوان ہمیشہ نیک اور صالح لوگوں کی صحبت اختیار کریں۔شاہین کے حوالے سے علامہ اقبال نوجوانوں کو پیغام دیتے ہیں کہ انسان کو اپنی زندگی میں ہمیشہ عظیم مقصد رکھنا چاہیے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اپنی سوچ اور عمل کو مربوط کرنا چاہیے۔ اقبال نے کی خواہش تھی کہ نو جوانوں میں شاہینی صفات پیدا ہوں تا کہ وہ حصول منزل کے لیے جدو جہد کو اپنا میں ، آگے بڑھیں اور اپنا مقام پیدا کریں۔علامہ اقبال نوجوانوں کو سمجھاتے ہیں کہ شاہین اور کرگس یعنی گدھ ایک ہی فضا میں اڑتے ہیں۔

شاہین ہمیشہ تازہ شکار کر کے کھانا پسند کرتا ہے۔ گدھ کی طرح مردار نہیں کھاتا۔ اس طرح مومن کبھی حرام نہیں کھاتا بل کہ اپنی محنت سے حلال کھانا پسند کرتا ہے۔علامہ محمد اقبال نے اپنے کلام میں نو جوانوں کو محنت کا درس دینے کے ساتھ ساتھ ، منزل کی بھی نشان دہی کر دی ہے۔ اقبال نے نوجوانوں کے لیے اپنے کلام میں شاہین کوبہ طورعلامت بخوبی استعمال کیا ہے۔علامہ محمداقبال چاہتے تھے کہ ہمارے نوجوان عصر حاضر کی مصنوعی زندگی اور تہذیب مغرب کی مصنوعی ترقی سے مرعوب نہ ہوں اور اپنی خودی کو بلند رکھیں۔ ایک مسلمان کوشاہین کی طرح بہادر اور بے خوف ہونا چاہیے۔

  • جوانوں کی زندگی میں کامیابی کے لیے شاہین کی طرح کا جنون اور عشق شامل ہونا چاہیے:
  • جوانوں کو مری آہ سحر دے
  • پھران شاہیں بچوں کوبال و پر دے
  • خدایا! آرزو میری یہی ہے
  • مرا نور بصیرت عام کر دے
  • مشق:

سبق کے مطابق درج ذیل سوالات کے جواب دیں۔

اقبال کے کلام میں تصور شاہین کی کیا اہمیت ہے؟

اقبال نے اپنے پیغام کو عام کرنے کے لیے اپنی شاعری میں کئی تصورات پیش کیے۔ ان کے تصور شاہین کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ شاہین ایک خود دار، غیرت مند، تیز نگاہ اور بلند پرواز پرندہ ہے۔ وہ اپنے زور بازو سے شکار کرتا ہے اور دوسروں کا کیا ہواشکار نہیں کھاتا۔ شاہین کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ نہایت اونچی اڑان بھر سکتا ہے اور اس دوران میں اسے تھک کر گرنے کا خوف نہیں ہوتا۔

شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
پردم ہے اگر تو ، تو نہیں خطرہ افتاد

شاہین کی دوسری خوبی یہ ہے کہ وہ صرف اپنے جیسے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ اُڑنا پسند کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ خود کو اعلیٰ سمجھتا ہے بل کہ اس کا مطلب بری صحبت سے گریز کرنا ہے ۔ شاہین کی اس خوبی سے یہ سبق ملتا ہے کہ نوجوان ہمیشہ نیک اور صالح لوگوں کی صحبت اختیار کریں۔

آپ کو شاہین پرندے کی کون سی صفت پسند ہے اور کیوں ؟

مجھے شاہین کی رزقِ حلال اور اونچی اڑان بھرنے کی خوبی پسند ہے کیونکہ شاہین ایک خود دار، غیرت مند، تیز نگاہ اور بلند پرواز پرندہ ہے۔ وہ اپنے زور بازو سے شکار کرتا ہے اور دوسروں کا کیا ہواشکار نہیں کھاتا۔ شاہین کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ نہایت اونچی اڑان بھر سکتا ہے اور اس دوران میں اسے تھک کر گرنے کا خوف نہیں ہوتا۔

شاہین کے حوالے سے اقبال نے کس طرح کی جدوجہد کا پیغام دیا ؟

شاہین کے حوالے سے علامہ اقبال نوجوانوں کو پیغام دیتے ہیں کہ انسان کو اپنی زندگی میں ہمیشہ عظیم مقصد رکھنا چاہیے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اپنی سوچ اور عمل کو مربوط کرنا چاہیے۔ اقبال نے کی خواہش تھی کہ نو جوانوں میں شاہینی صفات پیدا ہوں تا کہ وہ حصول منزل کے لیے جدو جہد کو اپنا میں ، آگے بڑھیں اور اپنا مقام پیدا کریں۔علامہ اقبال نوجوانوں کو سمجھاتے ہیں کہ شاہین اور کرگس یعنی گدھ ایک ہی فضا میں اڑتے ہیں۔ شاہین ہمیشہ تازہ شکار کر کے کھانا پسند کرتا ہے۔ گدھ کی طرح مردار نہیں کھاتا۔ اس طرح مومن کبھی حرام نہیں کھاتا بل کہ اپنی محنت سے حلال کھانا پسند کرتا ہے۔

کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور کی وضاحت کریں۔

شاہین اور کرگس یعنی گدھ ایک ہی فضا میں اڑتے ہیں۔ شاہین ہمیشہ تازہ شکار کر کے کھانا پسند کرتا ہے۔ گدھ کی طرح مردار نہیں کھاتا۔ اس طرح مومن کبھی حرام نہیں کھاتا بل کہ اپنی محنت سے حلال کھانا پسند کرتا ہے۔

اقبال نے نو جوانوں میں کون سی خوبیاں دیکھنا چاہتے تھے؟

علامہ محمداقبال چاہتے تھے کہ ہمارے نوجوان عصر حاضر کی مصنوعی زندگی اور تہذیب مغرب کی مصنوعی ترقی سے مرعوب نہ ہوں اور اپنی خودی کو بلند رکھیں۔ ایک مسلمان کوشاہین کی طرح بہادر اور بے خوف ہونا چاہیے۔ جوانوں کی زندگی میں کامیابی کے لیے شاہین کی طرح کا جنون اور عشق شامل ہونا چاہیے:
جوانوں کو مری آہ سحر دے
پھران شاہیں بچوں کوبال و پر دے
خدایا! آرزو میری یہی ہے
مرا نور بصیرت عام کر دے

سبق کے مطابق خالی جگہ پر کریں۔

  • علامہ اقبال ہمارے قومی شاعر ہیں۔
  • علام اقبال چاہتے تھے مسلمان اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کریں۔
  • علامہ اقبال نوجوانوں میں شاہینی صفات پیدا کرنا چاہتے تھے۔
  • شاہین مردار نہیں کھاتا۔

درج ذیل آواز کے لحاظ سے متشابہ الفاظ کے معنی لغت سے دیکھ کر جملے بنائیں:

الفاظ معنی جملے
ارض زمین اللہ کی ذات ارض و سما کی مالک ہے۔
عرض گزارش شاعر نے عرض کیا ہے کہ۔۔۔
آم پھل مجھے آم پسند ہے۔
عام معمولی عام آدمی کو اس کے حقوق ملنے چاہییں۔
اثر تاثیر یہ دوا بہت اثر انگیز ہے۔
عصر وقت عصر حاضر سائنسی ایجادات کا دور ہے۔
اتوار دن آج اتوار کا دن ہے۔
اطوار طور طریقے آج موسم کے اطوار بھلے نہیں معلوم ہوتے۔
اسرار راز ہر ایک چیز میں قدرت کے اسرار پوشیدہ ہیں۔
اصرار زور دینا ڈاکٹر نے مریض سے دوا لینے کے لیے پر زود اصرار کیا۔

درج ذیل الفاظ و تراکیب کو اپنے جملوں میں استعمال کریں :

الفاظ جملے
ولولہ تازہ علامہ اقبال کے کلام نے نوجوانوں میں ولولہ تازہ بیداد کیا۔
عملِ پیہم عملِ پیہم عملِ صالح کے لیے ضروری ہے۔
خطره افتاد مسلمان کسی بھی خطرہ افتاد سے نہیں گھبراتا۔
ذلت ہمیں کسی کی ذلت و رسوائی کا سبب نہیں بننا چاہیے۔
شباب احمد اپنے عالم شباب میں جی رہا ہے۔
باد بہاری باد بہاری تروتازہ ہوا کو کہتے ہیں۔

محنت میں عظمت ہے ” کے موضوع پر ۳۰۰ الفاظ پر مشتمل مضمون لکھیں۔

زندگی مسلسل جدو جہد اور جستجو کانام ہے۔ کیونکہ اللہ ہر پرندے کو رزق دیتا ہے مگر اس کے گھونسلے میں نہیں ڈالتا۔ محنت کی عظمت سے مراد کام کرنے میں ہی انسان کا وقار ہے تھے آدمی کو کبھی بھی عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ روز اول سے لے کر آج تک انسان نے جو ترقی کی منزلیں طے کی ہیں ان میں محنت کو سب سے زیادہ دخل حاصل ہے۔ رات دن کی کوششوں سے ہی انسان نے نئی ایجادات کی ہیں۔ قرآن مجید میں انسان کو سعی اور کوشش کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔ یعنی اللہ کا فضل تلاش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔آپ صلی وعلیہ وسلم نے بھی فرمایا ” محنت کرنے والا خدا کا دوست ہے۔

جس چیز کے لئے من سے کوشش کی جائے وہ ضرورمل جاتی ہے۔اپنے کام خودکرنا ہواس کے لئے دماغی اور جسمانی محنت کرنا اعلی ظرفی کی نشانی ہے۔ دنیا کی جو قومیں ترقی کرتی ہیں ان کے پیچھے برسوں کی محنت ہوتی ہے۔ اگر انسان محنت کا قائل ہو جائے تو وہ دن دگنی رات کی ترقی کرنے لگ جائے گا۔ جس کسی نے بھی اس دنیا میں عزت شہرت اور دولت حاصل کی ہے وہ محنت ہی کی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایسی بے شمار ہستیاں گزریں ہیں جنہوں نے محنت کے بل بوتے پر ناممکن کو ممکن کر دکھایا بڑی اہم مثال تو ہمارے قائد اعظم محمد علی جناح اور ان کے رفقائے کار کی ہے جن کی شب و روز کی محنت کی بدولت یہ ملک پاکستان ہمیں ملا۔

آج جو بھی چیزیں نظر آرہی ہیں جیسے ریڈیو ، ٹیلی ویژن ، بجلی، ہوائی جہاز، موبائل فون کمپیوٹر اور دیگر چیزیں انسان کی محنت سے کی ہوئیں ایجادات ہیں ۔ اور یہ سب کچھ مختلف اور لوگوں کی محنت و کوشش سے وجود میں آئی ہیں ۔ اور جو قومیں محنت اور کوشش نہیں کرتیں وہ پیچھے رہ جاتی ہیں اور ان کو یاد کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ اور اپنی عزت وقار کھو بیٹھتی ہیں ۔ انہیں ترقی یافتہ قوموں کا محتاج ہونا ہوتا ہے۔ محنت ہی سے ترقی ممکن ہے جس چیز کے لیے محنت اور کوشش کی جائے وہ ضرور ملتی ہے۔

جیسا کہ کسان محنت سے کھیت میں بیچ ڈالتا ہے۔ اُس کو وقت پر کاشت کرتا ہے اور اس کا خیال رکھتا ہے اسے وقت پرپانی دیتا ہے۔ سارا دن محنت کرتا ہے۔ پھر اس کو محنت کا پھل اناج کی صورت ملتا ہے ۔ محنت اور کوشش ایک ایسا عمل ہے جس سے انسان ترقی کی منازل طے کرتا ہے ۔ اور ترقی کے نئے راستے کھلتے جاتے ہیں ۔ محنت کی ہو تو ہی انسان کی عظمت بھی ہوتی ہے۔ہمیں بھی دل لگا کر محنت کرنی چاہیے تا کہ کامیابی ہمارے قدم چو ہے۔

اسکول میں ہونے والی یوم اقبال کی تقریب کے حوالے سے ۲۰۰ الفاظ پر مشتمل روداد لکھیں۔

علامہ اقبال کے یوم ولادت کے حوالے سے 4 نومبر کو ہمارے سکول کے جوبلی ہال میں ایک خصوصی تقریب ہوئی۔ مہمان خصوصی کے بروقت پہنچنے پر تقریب کا با قاعدہ آغاز بھی تلاوت کلام پاک سے بر وقت ہوا۔ تلاوت کے بعد جماعت نہم کے طالب علم نے سرور کا ئنات کی بارگاہ میں نذرانہ نعت پیش کیا۔ اس کے بعد جماعت دہم کے طالب علم نے اقبال اور تصور مشرق کے حوالے سے تقریر کی۔ اس نے اقبال کی زندگی اور کام سے مثالوں کے ذریعے اس نکتے کی وضاحت کی کہ ان کا دل عشق رسول کے جذبے سے کس طرح لبریز تھا۔

مختلف جماعتوں کے طلباء نے اقبال کی شاعری کو اپنی خوبصورت آواز میں پیش کر کے حاضرین کا دل جیت لیا۔ اسٹیج سیکریڑی نے مہمان خصوصی سے درخواست کی کہ فکر اقبال کے حوالے سے اپنے قیمتی خیالات سے حاضرین کو مستفید کریں۔ مہمان خصوصی نے اقبال کی شخصیت پر گفتگو کرتے ہوئے خاص طور پر اس امر کا اظہار کیا کہ عصر حاضر میں فکر اقبال پرعمل ہی ہماری ملکی بقا کا انحصار ہے۔ انہوں نے طلباء کو تلقین کی وہ فکر اقبال کی پیروی کرتے ہوئےایک مضبوط اور مستحکم پاکستان کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کریں۔ اس کے بعد سٹیج سیکریزی نے تقریب کے اختتام کا اعلان کیا۔ مہمان خصوصی، اساتذہ کرام اور طلباء کی چائے کے ساتھ ضیافت کی گئی جبکہ باقی طلباء نے اپنے اپنے گھروں کا رخ کیا۔

اپنے اسکول یا محلے کے پانچ مسائل بیان کریں اور ان کا حل بھی بتائیں۔

محلے کے مسائل مختلف ہو سکتے ہیں اور ان کے حل بھی اس کے مطابق مختلف ہوں گے۔ تاہم، چند عمومی مسائل اور ان کے ممکنہ حلوں کو درج ذیل بیان کیا گیا ہے:

بچوں کی تعلیم:

اگر محلے میں بچوں کی تعلیم کی سطح کم ہے، تو اس مسئلے کا حل یہ ہو سکتا ہے کہ ایک ایسے فریق کی تشکیل کریں جو بچوں کی تعلیم کے لئے وقت دے۔ اس فریق کو محلے کے بزرگوں سے مدد لیتے ہوئے ایسی جگہ تلاش کریں جہاں بچوں کی تعلیم کیلئے معلومات اور وسائل دستیاب ہوں۔

فضائی مسائل:

اگر محلے میں فضائی مسائل ہیں جیسے کہ گندگی، سڑکوں کی برائی، گلیوں کی خرابی وغیرہ تو ان کا حل محلے کے بازار میں کچھ کاروباری آدمیوں مل کر کر سکتے ہیں۔ ان لوگوں کو منتخب کریں جو اس مسئلے کے حل کے لئے کوشش کریں۔گندگی کے مسائل کو حل کرنے کی موثر کوشش کی جائے۔

بجلی کی کمی:

اگر محلے میں بجلی کی کمی ہے تو اس مسئلے کا حل یہ ہو سکتا ہے کہ بجلی کی کمی کے مسائل کو تلاش کریں اور وسائل پیدا کریں۔ اگر یہ ممکن نہیں ہو تو کم سے کم بجلی کے استعمال کو کم کرنے کے طریقوں کو تلاش کریں۔

فضائی تناؤ اور میوزک:

محلے میں فضائی تناؤ کے مسئلے ہونے کا سبب مختلف مواد کی بلند اور اونچی آوازوں ہو سکتی ہے جیسے کہ میوزک اور گفتگو۔ اس کے حل کے لئے، ہم سب سے پہلے سے پہلے یقینی بنائیں کہ ہمارے گھر یا آپ کے گھر میں کوئی آلہ یا انعامی موسیقی کی آواز نہیں آرہی ہے۔ اگر آپ یقینی ہیں کہ یہ از خود محلے کی آواز ہے تو، آپ اپنے محلے کے ناظرین یا پولیس سے رابطہ کرکے ان کو مسئلے کے بارے میں بتائیں۔
سڑکوں کے مسائل ہیں ، تو آپ اپنے محلے کے لوگوں سے مطالبہ کریں کہ وہ اپنے گاڑیوں کو صاف ستھرا کریں اور سڑک پر کوئی بھی مواد نہ پھینکیں۔ اور سڑکوں کی تعمیر و مرمت پر اجتماعی طور سے کام کریں۔

عملی زندگی میں ٹیلی وژن کے مثبت اور منفی پہلوؤں پر گفتگو کریں۔

ٹیلی ویژن سائنس کے عجائبات میں سے ایک ہے۔ ٹیلی ویژن ایجاد کے بعد سے، زندگی کے تمام شعبوں کے افراد کے لیے تفریح ​​کا بہترین ذریعہ بن گیا ہے۔ تاہم، موبائل فون کی ایجاد کے ساتھ، ٹیلی ویژن کی مقبولیت میں کچھ کمی ہوئی ہے لیکن پھر بھی، ٹیلی ویژن کو مواصلات اور تفریح ​​کا ایک جدید ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ بچے اور بڑے اپنی تفریح کے لیے اکثر ٹیلی ویژن دیکھتے ہیں۔ٹیلی ویژن کے بھی ہر ایک چیز کی طرح مثبت اور منفی دونوں پہلو ہماری زندگی میں موجود ہیں۔ٹیلی ویژن کے فائدے یہ ہیں کہ ہم کو ٹیلی ویژن کے ذریعہ سے روزانہ صبح عربی چینل دیکھنے اور سننے کوملتے ہیں۔ جس میں درس قرآن ، درس حدیث اورکئی ایک علماء کے بیانات سننے کوملتے ہیں۔ جن کی بناپر ہماری معلومات میں اضافہ ہوتاہے۔یہ ہمیں دنیا کی سیاست، سائنس، کھیل اور تفریح ​​کے بارے میں آگاہ کرتا ہے۔ اس کے علاوہ، یہ رابطے کا بھی ایک بہترین ذریعہ ہے۔جبکہ اس کے کچھ منفی پہلو بھی ہیں۔ ہمارے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں پڑھنے کی بجائے اسے دیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ بعض اوقات، اس کی وجہ سے اپنی پڑھائی کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ضرورت سے زیادہ ٹیلی ویژن دیکھنا نہ صرف ہماری آنکھوں کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ اس سے ہمارا وقت بھی ضائع ہوتا ہے۔