نظم شامِ رنگین کی تشریح، سوالات و جوابات

0
  • نیشنل بک فاؤنڈیشن “اردو” برائے آٹھویں جماعت۔
  • سبق نمبر: 19
  • نظم کا نام: شامِ رنگین
  • شاعر کا نام:حفیظ جالندھری

نظم شامِ رنگین کی تشریح

مغرب ﮐﮯ گھر میں ﺳُﻮﺭﺝ ﺑِﺴﺘﺮ ﺟﻤﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ
ﺭﻧﮕﯿﻦ بادلوں ﻣﯿﮟ ﭼﮩﺮﮦ ﭼُﮭﭙﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ

یہ شعر حفیظ جالندھری کی نظم “شامِ رنگین” سے لیا گیا ہے اس نظم میں شاعر نے شام کے وقت کی رنگینی کو موضوع بنایا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ جیسے ہی شام کا وقت ہوا سورج کے جانے کا وقت ہو گیا اور وہ اپنے گھر کی جانب واپس کوٹنے ہوئے اپنے گھر بستر جمانے لگا۔ سورج کے غروب ہونے کا منظر یہ تھا کہ وہ رنگین بادلوں میں اپنا چہرہ چھپائے ہوئے تھا۔

ﮐِﺮﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﺭﻧﮓ ﮈﺍﻻ ﺑﺎﺩﻝ ﮐﯽ ﺩﮬﺎﺭِﯾﻮﮞ ﮐﻮ
ﭘﮭﯿﻼ ﺩِﯾﺎ ﻓﻠﮏ ﭘﺮ ﮔﻮﭨﮯ ﮐِﻨﺎﺭﯾﻮﮞ ﮐﻮ

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ محض سورج گھر کو ہی نہیں لوٹا بلکہ جاتے جاتے اس کی کرنیں آسمان پہ ایسا منظر پیش کر رہی تھیں کہ گویا انھوں نے بادلوں کی دھاریوں کو گھیر رکھا ہو۔آسمان ان کرنوں سے اتنا جگمگا اٹھا تھا کہ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے کسی نے آسمان ہر گوٹے کناریاں پھیلا رکھی ہوں۔

ﭼﮭﺎﯾﺎ ﮨﮯ ﺗﮭﻮﮌﺍ ﺗﮭﻮﮌﺍ ﭘﯿڑﻭﮞ ﺗﻠﮯ ﺍﻧْﺪﮬﯿﺮﺍ
ﭼﮍﯾﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮭﯿﺖ ﭼﮭﻮﮌﺍ ﻟﯿﻨﮯ ﭼﻠﯿﮟ ﺑَﺴﯿﺮﺍ

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ شام ہوتے ہی پیڑوں تلے ذرا ذرا اندھیرا چھانے لگا ہے۔جبکہ چڑیاں اور دیگر پرندے جو دن بھر کھیتوں میں دانہ چگنے میں مصروف تھے انھوں نے بھی اب کھیتوں کو چھوڑ کر گھر کا رخ کیا ہے اور اپنا بسیرا تلاش کرنے چل پڑی ہیں۔

ﮐﻠﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﻗﮩﻘﮩﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﻌﻤُﻮﺭ ﮨﯿﮟ ﮨَﻮﺍﺋﯿﮟ
ﭘﺮﯾﻮﮞ ﮐﯽ ﻟﻮﺭِﯾﺎﮞ ﮨﯿﮟ ﯾﮧ ﺭﺱ ﺑﮭﺮﯼ ﺻﺪﺍﺋﯿﮟ

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ شام کے وقت فضا میں بہت خوبصورت مہک پھیلی ہوئی ہے وہ مہک دن بھر کھلنے والی کلیوں کی ہے جن کی وجہ سے ساری فضا مہک رہی ہے۔ جبکہ شام کی صدائیں کسی پری کی لوری کی طرح محسوس ہورہی ہیں۔

ﮔُﻢ ﮨﻮ ﭼﻠﯽ ﮨﮯ ﺩُﻧﯿﺎ ﺑِﮑﮭﺮﮮ ﮨُﻮﺋﮯ ﺳﮑﻮُﮞ ﻣﯿﮟ
ﺩِﻥ ﻏﺮﻕ ﮨﻮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﭼُﭗ ﭼﺎﭖ ﮐﮯ ﻓﺴُﻮﮞ ﻣﯿﮟ

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ شام کے بعد رات کا وقت چونکہ آرام کا وقت ہوتا ہے اس لیے دنیا بھر میں سکون بکھرا ہوا ہے اور دنیا اس سکون میں گم ہو چکی ہے۔جب کہ دن کا بھی اس شام کے سکون مج۔میں اختتام ہو رہا ہے۔

ﮐﮭﯿﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﮐﮯ ﻟﻮﭨﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﺎﻡ ﻭﺍﻟﮯ
ﭼﺎﺩﺭ ﺳَﺮﻭﮞ ﭘﮧ ﮈﺍﻟﮯ، ﮐﻨﺪﮬﻮﮞ ﭘﮧ ﮨﻞ ﺳﻨْﺒﮭﺎﻟﮯ

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ دن بھر کام کاج کرنے والے اپنے کان سے فارغ ہو کر کھیتوں سے گھر کو لوٹ رہے ہیں۔ یہ محنت کش سر پہ چادر ڈالے ہوئے ہیں اور اپنے کندھوں پہ ہل سنبھالے گھر کی طرف آ رہے ہیں۔

ﺍﺏ ﺷﺎﻡ ﺁﮔﺌﯽ ﮨﮯ ﺟﺎﮔﮯ ﮨﯿﮟ ﺑﮭﺎﮒ ﺍِﻥ ﮐﮯ
ﮨﺮ ﺳِﻤﺖ ﮔﻮﻧْﺠﺘﮯ ﮨﮯ ﺭﺳﺘﻮﮞ ﭘﮧ ﺭﺍﮒ ﺍِﻥ ﮐﮯ

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ شام کا جیسے ہی آغاز ہوا دن بھر کام کرںے اور محنت کرنے والوں کے بھاگ(قسمت) جاگ اٹھے ہیں۔جبکہ راستے میں کر طرف انھی کے راگوں کی گونج سنائی دے رہی ہے۔

ﻟﮯ ﻟﮯ ﮐﮯ ﮈﻭﺭ ﮈﻧﮕﺮ ﭼﺮﻭَﺍﮨﮯ ﺁ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ
ﺳِﯿﭩﯽ ﺑﺠﺎ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ، ﺍﻭﺭ ﮔِﯿﺖ ﮔﺎ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ جانوروں کو چرانے والے چرواہے اپنے جانور لیے گھروں کی جانب آ رہےہیں۔وہ چرواہے سیٹی بجاتے اور گیت گاتے ہوئے اپنے گھر کی جانب بڑھ رہے ہیں۔

  • مشق:

دیے گئے سوالات کے جوابات لکھیں:

سورج کے بستر جمانے سے کیا مراد ہے؟

سورج کے بستر جمانے سے مراد سورج کا غروب ہونا ہے۔

شام کے وقت کھیتوں میں کام کرکے لوٹنے والوں کا کیا منتظر ہے؟

شام کے وقت کھیتوں سے کام کر کے لوٹنے والوں یعنی (کسان) کے سروں پر چادر اور کندھوں پر ہل موجود ہیں۔

چروا ہے کس طرح واپس آرہے ہیں؟

چرواہے اپنے جانور لا کر اور کوئی سیٹی بجاتے ہوئے جبکہ کوئی گیت گاتا ہوا پانے گھروں کو لوٹ رہا ہے۔

شام ہوتے ہی دنیا کس کیفیت میں مبتلا ہو جاتی ہے؟

شام ہوتے ہی دنیا سکون کی کیفیت میں مبتلا ہو جاتی ہے۔

شام کے وقت رستوں پر کن کے راگ گو نجتے ہیں؟

شام کے وقت رستوں پر دن بھر کھیتوں میں کام کرنے والے محنت کشوں کے راگ گونجتے ہیں۔

ایک طالب علم مندرجہ ذیل مکمل مصرعوں کو پڑھے اور دوسرے طلبہ نظم میں سے مناسب الفاظ دیکھ کر مصرعے مکمل کریں۔

  • ﮐِﺮﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﺭﻧﮓ ﮈﺍﻻ ﺑﺎﺩﻝ ﮐﯽ ﺩﮬﺎﺭِﯾﻮﮞ ﮐﻮ
  • ﭘﮭﯿﻼ ﺩِﯾﺎ ﻓﻠﮏ ﭘﺮ ﮔﻮﭨﮯ ﮐِﻨﺎﺭﯾﻮﮞ ﮐﻮ
  • ﺩِﻥ ﻏﺮﻕ ﮨﻮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﭼُﭗ ﭼﺎﭖ ﮐﮯ ﻓﺴُﻮﮞ ﻣﯿﮟ
  • ﮐﻠﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﻗﮩﻘﮩﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﻌﻤُﻮﺭ ﮨﯿﮟ ﮨَﻮﺍﺋﯿﮟ
  • ﭼﮭﺎﯾﺎ ﮨﮯ ﺗﮭﻮﮌﺍ ﺗﮭﻮﮌﺍ ﭘﯿڑﻭﮞ ﺗﻠﮯ ﺍﻧْﺪﮬﯿﺮﺍ

مندرجہ ذیل نظم پارے کو ایک طالب علم درست تلفظ ،آہنگ، لے اور حرکات و سکنات کے ساتھ پڑھے اور باقی طلبہ آخر میں دیے گئے سوالات کے جوابات کے متعلق باہم گفتگو کریں۔

ﮐﮭﯿﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﮐﮯ ﻟﻮﭨﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﺎﻡ ﻭﺍﻟﮯ
ﭼﺎﺩﺭ ﺳَﺮﻭﮞ ﭘﮧ ﮈﺍﻟﮯ، ﮐﻨﺪﮬﻮﮞ ﭘﮧ ﮨﻞ ﺳﻨْﺒﮭﺎﻟﮯ
ﺍﺏ ﺷﺎﻡ ﺁﮔﺌﯽ ﮨﮯ ﺟﺎﮔﮯ ﮨﯿﮟ ﺑﮭﺎﮒ ﺍِﻥ ﮐﮯ
ﮨﺮ ﺳِﻤﺖ ﮔﻮﻧْﺠﺘﮯ ﮨﮯ ﺭﺳﺘﻮﮞ ﭘﮧ ﺭﺍﮒ ﺍِﻥ ﮐﮯ
ﻟﮯ ﻟﮯ ﮐﮯ ﮈﻭﺭ ﮈﻧﮕﺮ ﭼﺮﻭَﺍﮨﮯ ﺁ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ
ﺳِﯿﭩﯽ ﺑﺠﺎ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ، ﺍﻭﺭ ﮔِﯿﺖ ﮔﺎ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ

سوالات:

کن کے سروں پر چادر اور کندھوں پر ہل ہیں ؟

کھیتوں سے کام کر کے لوٹنے والوں یعنی (کسان) کے سروں پر چادر اور کندھوں پر ہل ہیں۔

شام کے وقت بھاگ جاگنے سے کیا مراد ہے؟

شام کے وقت ان کے بھاگ جاگںے سے مراد ہے کہ یہ ان کے آرام کا وقت ہے جب وہ دن بھر کی محنت کے بعد لوٹتے ہیں۔

چرواہے کس انداز میں گھروں کو لوٹ رہے ہیں؟

چرواہے اپنے جانور لا کر اور کوئی سیٹی بجاتے ہوئے جبکہ کوئی گیت گاتا ہوا پانے گھروں کو لوٹ رہا ہے۔

اس نظم کا خلاصہ اپنے الفاظ میں تحریر کریں۔

اس نظم میں شاعر نے شام کی رنگینیوں کو بیان کیا ہے۔جیسے ہی شام کا وقت ہوا سورج کے جانے کا وقت ہو گیا اور وہ اپنے گھر کی جانب واپس کوٹنے ہوئے اپنے گھر بستر جمانے لگا۔ سورج کے غروب ہونے کا منظر یہ تھا کہ وہ رنگین بادلوں میں اپنا چہرہ چھپائے ہوئے تھا۔محض سورج گھر کو ہی نہیں لوٹا بلکہ جاتے جاتے اس کی کرنیں آسمان پہ ایسا منظر پیش کر رہی تھیں کہ گویا انھوں نے بادلوں کی دھاریوں کو گھیر رکھا ہو۔

آسمان ان کرنوں سے اتنا جگمگا اٹھا تھا کہ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے کسی نے آسمان ہر گوٹے کناریاں پھیلا رکھی ہوں۔شام ہوتے ہی پیڑوں تلے ذرا ذرا اندھیرا چھانے لگا ہے۔جبکہ چڑیاں اور دیگر پرندے جو دن بھر کھیتوں میں دانہ چگنے میں مصروف تھے انھوں نے بھی اب کھیتوں کو چھوڑ کر گھر کا رخ کیا ہے اور اپنا بسیرا تلاش کرنے چل پڑی ہیں۔شام کے وقت فضا میں بہت خوبصورت مہک پھیلی ہوئی ہے وہ مہک دن بھر کھلنے والی کلیوں کی ہے جن کی وجہ سے ساری فضا مہک رہی ہے۔ جبکہ شام کی صدائیں کسی پری کی لوری کی طرح محسوس ہورہی ہیں۔

شام کے وقت فضا میں بہت خوبصورت مہک پھیلی ہوئی ہے وہ مہک دن بھر کھلنے والی کلیوں کی ہے جن کی وجہ سے ساری فضا مہک رہی ہے۔ جبکہ شام کی صدائیں کسی پری کی لوری کی طرح محسوس ہورہی ہیں۔شام کے بعد رات کا وقت چونکہ آرام کا وقت ہوتا ہے اس لیے دنیا بھر میں سکون بکھرا ہوا ہے اور دنیا اس سکون میں گم ہو چکی ہے۔جب کہ دن کا بھی اس شام کے سکون مج۔میں اختتام ہو رہا ہے۔

دن بھر کام کاج کرنے والے اپنے کان سے فارغ ہو کر کھیتوں سے گھر کو لوٹ رہے ہیں۔ یہ محنت کش سر پہ چادر ڈالے ہوئے ہیں اور اپنے کندھوں پہ ہل سنبھالے گھر کی طرف آ رہے ہیں۔شام کا جیسے ہی آغاز ہوا دن بھر کام کرںے اور محنت کرنے والوں کے بھاگ(قسمت) جاگ اٹھے ہیں۔جبکہ راستے میں کر طرف انھی کے راگوں کی گونج سنائی دے رہی ہے۔جانوروں کو چرانے والے چرواہے اپنے جانور لیے گھروں کی جانب آ رہےہیں۔وہ چرواہے سیٹی بجاتے اور گیت گاتے ہوئے اپنے گھر کی جانب بڑھ رہے ہیں۔

درج ذیل بند کی اشعار کے حوالوں کے ساتھ تشریح کریں۔

ﮐﻠﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﻗﮩﻘﮩﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﻌﻤُﻮﺭ ﮨﯿﮟ ﮨَﻮﺍﺋﯿﮟ
ﭘﺮﯾﻮﮞ ﮐﯽ ﻟﻮﺭِﯾﺎﮞ ﮨﯿﮟ ﯾﮧ ﺭﺱ ﺑﮭﺮﯼ ﺻﺪﺍﺋﯿﮟ
ﮔُﻢ ﮨﻮ ﭼﻠﯽ ﮨﮯ ﺩُﻧﯿﺎ ﺑِﮑﮭﺮﮮ ﮨُﻮﺋﮯ ﺳﮑﻮُﮞ ﻣﯿں
ﺩِﻥ ﻏﺮﻕ ﮨﻮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﭼُﭗ ﭼﺎﭖ ﮐﮯ ﻓﺴُﻮﮞ ﻣﯿﮟ

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ شام کے وقت فضا میں بہت خوبصورت مہک پھیلی ہوئی ہے وہ مہک دن بھر کھلنے والی کلیوں کی ہے جن کی وجہ سے ساری فضا مہک رہی ہے۔ جبکہ شام کی صدائیں کسی پری کی لوری کی طرح محسوس ہورہی ہیں۔شام کے بعد رات کا وقت چونکہ آرام کا وقت ہوتا ہے اس لیے دنیا بھر میں سکون بکھرا ہوا ہے اور دنیا اس سکون میں گم ہو چکی ہے۔جب کہ دن کا بھی اس شام کے سکون مج۔میں اختتام ہو رہا ہے۔

کسی کی خوب صورت منظر کی تصویر کشی اپنے الفاظ میں کریں جس میں فطرت کے مختلف مظاہر یعنی پہاڑ ، دریا ، درخت ، بادل اور پرندوں کا ذکر ہو۔

سرسبز وشاداب اور گھنے درخت و جنگلات خوبصورتی کا ایسا روپ ہیں جس کا کوئی نیم البدل نہیں۔دریا، سمندر، پہاڑ، درخت، جھیلیں، ندیا ں، جنگلات اور صحرا ۔۔یہ سب کسی بھی علاقے کا قدرتی حسن ہیں اور پاکستان بھی اس حسن سے مالا مال ہے۔ایسے ہی مجھے ایک جنگل کی سیر کا اتفاق ہوا۔جنگل کی اس دنیا میں جانور بھی تھے، پرندے بھی اور کچھ قبائل بھی۔

یہ ایک آزاد دنیا تھی، جس میں ریاست تھی نہ قانون اور نہ ہی کوئی اخلاقی کرنیں۔ جب طاقتور کمزور کو مارتے تھے یا کھا جاتے تھے تو ان کی مدد کرنے والا کوئی نہ تھا، نہ انصاف تھا اور نہ رحم دلی، لیکن گھنے درختوں کی طویل قطاریں اور ان میں چمکتی سورج کی خاموشی کو توڑتی ہوئی پرندوں کی چہچہاہٹ ماحول کو سحر زدہ کر دیتی تھی۔کہیں کہیں پانی کی آبشاریں، پانی کے بہتے ہوئے چشمے اردگرد کی دنیا کو دلکش بنا دیتے تھے۔

پھلوں سے لدے ہوئے درخت اور پھولوں سے بھری ہوئی جھاڑیاں، بھینی بھینی خوشبو بکھیرتی تھیں۔ جو قبائل ادھر ادھر بکھرے ہوئے آباد تھے وہ جنگل کا ایک حصہ بن گئے تھے۔ جنگل کے بیچ میں جو چھوٹے پہاڑ اور پہاڑیاں تھیں وہ سبزے میں لپٹی ہوئی جاذب نظر بن جاتی تھیں۔ جنگل کی خاموشی اور تنہائی غور و فکر میں گہرائی کا باعث ہوتی بلاشبہ یہ قدرت کی فطری نظاروں کو جاننے کی ایک بہترین جگہ تھی۔