سبق : نشان حیدر، خلاصہ، سوالات و جوابات

0
  • نیشنل بک فاؤنڈیشن “اردو” برائے آٹھویں جماعت
  • سبق نمبر:06
  • سبق کا نام: نشان حیدر

خلاصہ سبق:

اس سبق میں ملکی اعزاز نشانِ حیدر کے متعلق معلومات بیان کی گئی ہیں۔ ہر سال یوم پاکستان کے موقعے پر وطن عزیز کی خاطرشان دار خدمات پیش کرنے والی سول اور عسکری شخصیات کو نشان حیدر، ہلال جرات ستارہ جرات، ستارہ امتیاز تمغہ امتیاز اور تمغہ رسالت جیسے اعزازات سے نوازا جاتا ہے ۔

ان اعزازات میں نشان حیدر افواج پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز ہے۔یہ اعزاز ہے دین کی حفاظت کی خاطر اپنی جان قربان کرنے والے شیر دل فوجیوں کو دیا جاتا ہے۔اب تک دس بہادر نوجوان اس اعزاز کو پا چکے ہیں۔جن میں سوار حسین شہید کا شمار بھی ہوتا آپ کے والد ایک عام کاشت کار ہونے کے باوجود تعلیم کی ضرورت اور افادیت سے باخبر تھے۔

سوار محمد حسین شہید نے دیوی ہائی اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ گھر کے معاشی حالات بہتر نہ ہونے کی وجہ سے آپ مزید تعلیم جاری نہ رکھ سکے اور ملازمت کرنے کا ارادہ کر لیا۔1966ء میں آپ بطور ڈرائیور فوج میں شامل ہوئے۔1971ء میں شکر گڑھ سیکٹر پر دشمن کو ناکوں چنے چبوانے کے بعد شہید ہوئے۔اس بہادری کے لیے انھیں نشان حیدر ملا۔اسلام آباد کے نواحی گاؤں سے تعلق رکھنے والے لانس نائیک محمد محفوظ شہید بھی نشان حیدر رکھنے والے نوجوان ہیں۔

1971ء کی جنگ میں واہگہ اٹاری سرحد پر وطن کا دفاع کرتے ہوئے دشمن کی گولہ باری سے آپ شدید زخمی ہوئے اور شہادت کا رتبہ پایا۔ لانس نائیک محمد محفوظ شہید کی شہادت کے بعد ۲۳ مارچ ۱۹۷۲ء کو انھیں سب سے بڑے فوجی اعزاز نشان حیدر سے نوازا گیا اور ان کے گاؤں پنڈ ملکاں” کا نام بدل کر محفوظ آباد رکھ دیا گیا۔

اسی طرح کیپٹن کرنل شیر محمد جن کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے جن کا اصلی نام شیر محمد اوررینک کیپٹن تھا۔1999ء میں جب کارگل میں جنگ شروع ہوئی تو ہندوستان کی فوج نے سترہ ہزارفٹ کی بلندی سے پاکستانی چوکیوں کو گھیرنے کی کوشش کی جس کے جواب میں کیپٹن کرنل شیر خان شہید نے اپنے سپاہیوں کے ہمراہ مخالف فوج پر حملہ کر دیا۔کیپٹن کرنل شیر خان شہید کے ہمراہ ان کی دو بٹالین نے ہندوستان کی فوج سے نہ صرف اپنی پانچ چوکیوں کومحفوظ بنایا بلکہ دشمنوں کی کئی چوکیوں پر بھی قبضہ کیا اور ہندوستانی فوج کو ان کے بیس کیمپ تک واپس دھکیل دیا۔

البتہ ۵ جولائی 1999ء کو کیپٹن کرنل شیر خان شہید کی چوکی ایک بار ہندوستانی فوج کی زد میں آئی ، اس دوران میں وہ مشین گن کی فائرنگ سے شدید زخمی ہوئے اور ان کی شہادت ہوگئی۔حوالدار لالک جان شہید کا تعلق گلگت سے تھا۔حوالدار لالک جان شہید، یکم اپریل ۱۹۶۷ء کو گلگت بلتستان کے ضلع غذر میں پیدا ہوئے تو آپ ایک ہمدرد اور جذبہ خدمت سے سرشار جوان تھے۔ آپ غریبوں کا دکھ جانتے تھے اور ان کی خدمت کر کے آپ کو قلبی سکون حاصل ہوتا تھا۔

آپ نے اپنے علاقے میں ایک رفاعی تنظیم بھی بنائی تھی جس کا نام انھوں نے المدد ویلفیئر آرگنائیزیشن رکھا تھا۔ آپ اس تنظیم کے بانی اور سرگرم رکن تھے۔ آپ کو جب بھی موقع ملتا تو لوگوں کے کام آتے اور خدمت کر کے خوش ہوتے تھے۔آپ نے کارگل میں اپنی پوسٹ پر ہونے والے حملے ہو ناکام بنا کر یہ اعزاز اپنے نام کیا۔

  • مشق:

درج ذیل سوالات کے جواب دیں۔

پاکستان کا اعلی فوجی اعزاز نشان حیدر کن خدمات پر دیا جاتا ہے؟

یہ اعزاز ہے دین کی حفاظت کی خاطر اپنی جان قربان کرنے والے شیر دل فوجیوں کو دیا جاتا ہے۔

لانس نائیک محمدمحفوظ شہید کو کس موقعے پر نشان حیدر کے اعزاز سے نوازا گیا ؟

1971ء کی جنگ میں واہگہ اٹاری سرحد پر وطن کا دفاع کرتے ہوئے دشمن کی گولہ باری سے آپ شدید زخمی ہوئے اور شہادت کا رتبہ پایا۔ لانس نائیک محمد محفوظ شہید کی شہادت کے بعد ۲۳ مارچ ۱۹۷۲ء کو انھیں سب سے بڑے فوجی اعزاز نشان حیدر سے نوازا گیا اور ان کے گاؤں پنڈ ملکاں” کا نام بدل کر محفوظ آباد رکھ دیا گیا۔

حوالدار لالک جان کی اپنے وطن کے لیے کیا خدمات تھیں ؟

حوالدار لالک جان شہید، یکم اپریل ۱۹۶۷ء کو گلگت بلتستان کے ضلع غذر میں پیدا ہوئے تو آپ ایک ہمدرد اور جذبہ خدمت سے سرشار جوان تھے۔ آپ غریبوں کا دکھ جانتے تھے اور ان کی خدمت کر کے آپ کو قلبی سکون حاصل ہوتا تھا۔ آپ نے اپنے علاقے میں ایک رفاعی تنظیم بھی بنائی تھی جس کا نام انھوں نے المدد ویلفیئر آرگنائیزیشن رکھا تھا۔ آپ اس تنظیم کے بانی اور سرگرم رکن تھے۔ آپ کو جب بھی موقع ملتا تو لوگوں کے کام آتے اور خدمت کر کے خوش ہوتے تھے۔

کیپٹن کرنل شیر خان کی شہادت کسی محاذ پر اور کیسے ہوئی ؟

1999 ء میں جب کارگل میں جنگ شروع ہوئی تو ہندوستان کی فوج نے سترہ ہزارفٹ کی بلندی سے پاکستانی چوکیوں کو گھیرنے کی کوشش کی جس کے جواب میں کیپٹن کرنل شیر خان شہید نے اپنے سپاہیوں کے ہمراہ مخالف فوج پر حملہ کر دیا۔کیپٹن کرنل شیر خان شہید کے ہمراہ ان کی دو بٹالین نے ہندوستان کی فوج سے نہ صرف اپنی پانچ چوکیوں کومحفوظ بنایا بلکہ دشمنوں کی کئی چوکیوں پر بھی قبضہ کیا اور ہندوستانی فوج کو ان کے بیس کیمپ تک واپس دھکیل دیا۔ البتہ ۵ جولائی 1999ء کو کیپٹن کرنل شیر خان شہید کی چوکی ایک بار ہندوستانی فوج کی زد میں آئی ، اس دوران میں وہ مشین گن کی فائرنگ سے شدید زخمی ہوئے اور ان کی شہادت ہوگئی۔

سوار محمد حسین شہید کے والد کا تعلیم کی اہمیت کے بارے میں کیا تصور تھا؟

آپ کے والد ایک عام کاشت کار ہونے کے باوجود تعلیم کی ضرورت اور افادیت سے باخبر تھے ۔ سوار محمد حسین شہید نے دیوی ہائی اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ گھر کے معاشی حالات بہتر نہ ہونے کی وجہ سے آپ مزید تعلیم جاری نہ رکھ سکے اور ملازمت کرنے کا ارادہ کر لیا۔

سبق کے مطابق درج ذیل خالی جگہیں پر کریں:

  • سوار محمد حسین شہید نے دیوی ہائی اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔
  • لانس نائیک محمد محفوظ شہید 1971ء کی جنگ میں واہگہ اٹاری سرحد پر وطن کا دفاع کرتے ہوئے شہید ہوئے۔
  • کرنل شیر خان خیبر پختونخوا سے پہلے فوجی اہلکار تھے جن کو نشان حیدر ملا۔
  • حوالدار لالک جان شہید ایک ہمدرد اور جذبہ خدمت سرشار جوان تھے۔
  • اب تک پاکستان کے 10 فوجی جوان نشان حیدر کا اعزاز حاصل کر چکے ہیں۔

مندرجہ درج ذیل محاورات کو اپنے جملوں میں استعمال کریں :

الفاظ جملے
آج کل کرنا وہ میرے قرض کی رقم ادا کرنے میں ہمیشہ ج کل کرتا ہے۔
آگ بگولا ہونا احمد کے فیل ہونے کی خبر سن کر اس کے والدین غصے سے آگ بگولا ہوگئے۔
آنکھیں بچھانا وہ اس کے انتظار میں گویا اس کی راہ میں آنکھیں بچھائے بیٹھی ہے۔
آسمان سر پر اٹھانا بچوں نے شور مچا کرآسمان سر پر اٹھا لیا۔
ناکوں چنے چبوانا بچوں نے اپنی شرارتوں سے ہمیں ناکوں چنے چبوائے۔

متلازم الفاظ : وہ الفاظ جو ایک دوسرے کے لیے لازم، باہم لازم وملزوم ہوں۔

درج ذیل الفاظ کے پانچ پانچ متلازم الفاظ لکھیں۔

باغ پھل ، پھول ، تتلیاں، درخت ، پرندے
پہاڑ اونچا ، مٹی ، چٹان ، تودے ، پتھر
آسمان نیلا، بادل، سورج ، چاند ، ستارے

حب الوطنی کے عنوان پر ۳۰۰ الفاظ پر مضمون لکھیں۔

حب الوطنی سے مراد وہ جذباتی محبت ہے جو محبت کسی کو اپنے ملک سے ہوتی ہے۔ یہ خوبی کسی ملک کے شہریوں کو اپنے ملک کے لیے بے لوث کام کرنے اور اسے بہتر بنانے پر مجبور کرتی ہے۔ حقیقی معنوں میں ترقی یافتہ ملک سچے محب وطن لوگوں سے بنتا ہے۔

دوسرے لفظوں میں حب الوطنی کا مطلب ہے پہلے ملکی مفاد کو سامنے رکھنا اور پھر اپنے بارے میں سوچنا۔ یہ جذبہ خصوصی طور پر جنگ کے اوقات میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس سے قوم کو مضبوط بنانے میں مدد ملتی ہے۔ حب الوطنی کی دیگر اہمیتیں بھی ہیں۔حب الوطنی کا مطلب ہے اپنے ملک اور اس کے لوگوں کی خاطر محبت، فخر اور قربانی کا ایک عظیم جذبہ۔

ایک شخص، جو اپنے ملک کی حمایت کرتا ہے، اور دشمنوں یا مخالفین کے خلاف اس کا دفاع کرنے کے لئے تیار ہے، محب وطن کے طور پر جانا جاتا ہے. کہا جاتا ہے کہ حب الوطنی کا جذبہ ہم وطنوں کے خون میں بہتا ہے۔حب الوطنی اور قوم پرستی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ قوم پرستی میں ، قوم کو ایک نسلی گروہ کے لئے آزادی حاصل کرنے کی علامتی نمائندگی حاصل ہے ، جبکہ حب الوطنی میں قوم کی خود سب سے زیادہ قدر ہے۔

عام طور پر ہم اپنے ملک کو مادر وطن کہتے ہیں۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ہمیں اپنے ملک سے وہی محبت ہونی چاہیے جو ہمیں اپنی ماں سے ہے۔ بہرحال ہمارا ملک کسی ماں سے کم نہیں ہے۔ یہ ہماری پرورش کرتا ہے اور ہمیں بڑھنے میں مدد کرتا ہے۔ جذبہ حب الوطنی شہریوں کے معیار زندگی کو بھی بہتر بناتا ہے. یہ لوگوں کو ملک کے اجتماعی مفاد کے لئے کام کرنے پر مجبور کرکے ایسا کرتا ہےجب ہر کوئی ملک کی بہتری کے لئے کام کرے گا تو مفادات کا ٹکراؤ نہیں ہوگا۔

اس طرح، ایک خوشگوار ماحول پروان چڑھے گا۔حب الوطنی کے ذریعے امن اور ہم آہنگی برقرار رہے گی۔ جب شہریوں میں بھائی چارے کا جذبہ ہوگا تو وہ ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے۔ لہذا، یہ ملک کو زیادہ ہم آہنگی بنائے گا۔مختصریہ کہ ملک کی ترقی میں حب الوطنی کی بڑی اہمیت ہے۔ یہ جذبہ کسی بھی طرح کے خود غرض اور نقصان دہ محرکات کو ختم کرتا ہے جس کے نتیجے میں بدعنوانی میں کمی آتی ہے۔ اسی طرح جب حکومت بدعنوانی سے پاک ہو جائے گی تو ملک تیزی سے ترقی کرے گا۔

مندرجہ ذیل جدول کو مختلف ذرائع سے معلومات حاصل کر کے پر کریں۔

نام شہداء تاریخ پیدائش عہدہ مقام تاریخ شہادت
میجر طفیل محمد شهید 22جون 1914ء کشمیر/بنگلہ دیش 17 اگست 1956ء
میجر محمد اکرم شهید 14 اپریل 1908 میجر دہلی، انڈیا 5 دسمبر 1971ء
کمپین محمد سررو شہید 10 اکتوبر 1910ء کیپٹن اڑی 27 جولائی 1965ء
میجر راجا عزیز بھٹی شهید 16 اگست 1928ء میجر لاہور 12 ستمبر 1965ء
پائلٹ آفیسر راشد منہاس 17 فروری 1954ء پائلٹ آفیسر ٹھٹھہ 20 اگست 1971ء
میجر شبیر شریف شهید 28 اپریل 1943ء میجر اوکاڑہ 06 دسمبر 1971ء
جوان سوار محمد حسین شہید 18 جون 1949ء جوان شگر گڑھ سیکٹر 10 دسمبر 1971ء
لانس نائیک محمد محفوظ شہید 25 اکتوبر 1944ء لانس نائیک واہگہ اٹاری 23 مارچ 1972ء
کیپٹن کرنل شیر خان شہید یکم جنوری1970ء کیپٹن کرنل کارگل 5 جولائی 1999ء
حوالدار لالک جان شہید یکم اپریل 1967ء حوالدار کارگل 7 جولائی 1999ء