منشیات کے اثرات، خلاصہ، سوالات و جوابات

0
  • نیشنل بک فاؤنڈیشن “اردو” برائے آٹھویں جماعت
  • سبق نمبر: 12
  • سبق کا نام: منشیات کے اثرات

خلاصہ سبق:

منشیات کے اثرات ایک مکالماتی انداز میں پیش کیا گیا سبق ہے بشیر اور لیاقت دونوں کی ملاقات ہوتی ہے۔ لیاقت کچھ پریشان دکھائی دیتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے چند نو جوانوں کو سگریٹ پیتے دیکھا تو دل بھر آیا۔ان نوجوان سے اسے اپنا بھائی یاد آیا جو اسی نشے کی لت سے موت کے منھ میں گیا۔ بشیر اسے کہتا ہے کہ آج کل کے نوجوانوں میں سگریٹ نوشی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔لیاقت بتاتا ہے کہ ہمیں اپنے بھائی کی سگریٹ نوشی کا پتاہی نہیں چلا تھا۔ نہ جانے کب وہ سگریٹ سے نشے کا عادی ہوتا چلا گیا۔ پتا اس وقت چلا جب پانی سر سے گزرگیا تھا۔

بشیر: یہی سب سے پہلی غلطی ہے۔ والدین اور اساتذہ کو بچوں پر نظر رکھنی چاہیے ۔ شروع شروع میں تو انھیں یہ لگتا ہے کہ سگریٹ نوشی کی عادت معمولی ہے اور آسانی سے چھوڑی جا سکتی ہے لیکن جلد ہی وہ اس کے عادی ہو جاتے ہیں اور پھر چاہتے ہوئے بھی آسانی سے اس بری عادت کو چھوڑ نہیں سکتے اس کا نقصان محض ان نوجوانوں کو ہی نہیں بلکہ ان کے پورے خاندان کو اٹھانا پڑتا ہے۔ اسی دوران عابد وہاں آتا ہے اور اس گفتگو میں حصہ لیتا ہے۔

عابد کا بھائی بھی اس منشیات کے نشے کی لت میں اپنی جان کی بازی ہار چکا تھا۔عابد جو کہ پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہے بتاتا ہے کہ منشیات کے استعمال اور اثرات سے معاشرے تباہ ہو جاتے ہیں صرف سگریٹ پینے سے سانس کی بیماریاں ٹی بی، کالی کھانسی ، ہارٹ اٹیک اور کینسر جیسی موذی یماریاں لاحق ہوسکتی ہیں۔منشیات کے اثرات کی وجہ سے جسمانی صلاحیتیں ختم ہو جاتی ہیں۔عابد کا کہنا ہے کہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے بچوں پر نظر رکھیں۔تاکہ وہ بری عادات سے دور رہیں والدین کے ساتھ تھ ساتھ تعلیمی اداروں کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ طلبہ کی اس انداز میں تربیت کریں کہ وہ منشیات سے دور رہیں۔

بشیرکہتا ہے کہ حکومتی اداروں کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنی ذمے داریاں نبھا ئیں ۔ منشیات کے اڈوں کو ختم کریں۔ جو لوگ اس کے کاروبار میں ملوث ہیں انھیں قانون کے مطابق سزا دیں تا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی بھی قائم رہے اور معاشرے سے منشیات کی لعنت کا بھی خاتمہ ہو۔اینٹی نارکوٹکس فورس اور پولیس ایسے ادارے ہیں جو منشیات کی فراہمی کو روکنے کے ساتھ ساتھ اس غلیظ دھندے میں ملوث ملک دشمن عناصر کا قلع قمع کرنے عابدکہتا ہے کہ یقیناً اس سسلے میں منشیات کی روک تھام کے لیے قائم ادارے اینٹی نارکوٹکس فورس اور پولیس کے ساتھ ساتھ گھر ، اسکول اور مسجد کا کردار بہت اہم ہے۔آخر میں وہ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ ہم سب کو خاص کر ہمارے نوجوانوں کو اپنی حفظ وامان میں رکھے۔

  • مشق:

درج ذیل سوالات کے جوابات ہیں:

نوجوانوں میں کس قسم کا رجحان بڑھ رہا ہے؟

آج کل کے نوجوانوں میں سگریٹ نوشی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔

لیاقت کے دل بھر آنے کی وجہ کیا تھی؟

لیاقت نے چند نو جوانوں کو سگریٹ پیتے دیکھا تو دل بھر آیا۔

منشیات کی روک تھام کے لیے قائم اداروں کے نام بتائیں۔

اینٹی نارکوٹکس فورس منشیات پابندی بورڈ،منشیات پابندی کمیشن،منشیات پابندی ٹرائبونل،منشیات پابندی اتھارٹی،منشیات پابندی مرکز اور پولیس ایسے ادارے ہیں۔

سگریٹ نوشی کے صحت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟

منشیات کے استعمال اور اثرات سے معاشرے تباہ ہو جاتے ہیں صرف سگریٹ پینے سے سانس کی بیماریاں ٹی بی، کالی کھانسی ، ہارٹ اٹیک اور کینسر جیسی موذی یماریاں لاحق ہوسکتی ہیں۔

منشیات کی روک تھام کے لیے تعلیمی ادارے کیا کر سکتے ہیں؟

والدین کے ساتھ تھ ساتھ تعلیمی اداروں کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ طلبہ کی اس انداز میں تربیت کریں کہ وہ منشیات سے دور رہیں۔

سبق کے مطابق خالی جگہ پر کریں:

  • حکومت کو سگریٹ نوشی کے سدباب کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔
  • دراصل مجھے اپنا بھائی یاد آ گیا تھا۔
  • آج کل کے نوجوان سگریٹ پینا فیشن سمجھتے ہیں۔
  • منشیات کے اثرات کی وجہ سے جسمانی صلاحیتیں ختم ہو جاتی ہیں۔
  • ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے بچوں پر نظر رکھیں۔
  • اللہ تعالیٰ ہم سب کو خاص کر ہمارے نوجوانوں کو اپنی حفظ وامان میں رکھے۔

اپنی روزمرہ زندگی کے مشاہدے پر بھی کوئی واقعہ جس میں آپ نے کسی کو منشیات استعمال کرتے دیکھا ہو :

میں نے ایک مرتبہ اپنے دوست کو منشیات کا استعمال کرتے دیکھا ہے۔اس نے ایک نئی نوکری شروع کی تھی اور وہ اس کے بارے میں بہت زیادہ تناؤ محسوس کر رہے تھے۔ وہ اس تناؤ کو آرام دینے کے لئے منشیات استعمال کرنےلگا۔کچھ دنوں تک انہوں نے منشیات کھانے کے بعد تبدیلی محسوس کی۔ وہ زیادہ خوش نہیں تھا اور اس کی توجہ میں بھی کمی آئی۔ جب میں اس سے ملنے گیا تو میں نے اس کو بہت ضعیف اور بے بس دیکھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ اسے اب بغیر منشیات کے کام کرنے کا مشکل ہو رہا ہے۔مجھے بہت دکھ ہوا کہ میرے دوست نے منشیات کے استعمال کی وجہ سے اپنے آپ کو اس حالت میں پھنسا لیا۔ میں نے اسے اس بارے میں آگاہ کیا کہ ایسا کرنا ان کی صحت کے لحاظ سے خطرناک ہے اور یہ اس کی زندگی کو بھی متاثر کرتا ہے۔ اس نے میری باتوں کو سنا اور پھر سے منشیات کے استعمال سے منہ موڑ لیا۔

درج ذیل موضوع پر دو سو الفاظ پر مشتمل تقریر لکھیں: جس میں ضرب الامثال اشعار اور محاورات بھی استعمال ہوئے ہوں:

منشیات سے انکار زندگی سے پیار
صدرِ ذی وقار اور میرے ہم مکتب ساتھیوں اسلام علیکم!
آج مجھے جس موضوع پر لب کشائی کا موقع ملا ہے وہ ہے۔منشیات سے انکار زندگی سے پیار
جنابِ صدر!
زندگی سے پیار٬ منشیات سے انکار
زندگی اﷲ تعالٰی کی ایک عظیم نعمت ہے ‘اس کی قدر ہر ایک پر فرض ہے جس کو یہ زندگی ملی ہے کیونکہ وہ زندگی ایک بار ملتی ہے‘ انسانی زندگی صحت عامہ کے حوالے سے آج پوری دنیا خصوصا ترقی پذیر اور غریب ممالک کو جن بڑے خطرات اور چیلنجوں کا سامناہے ۔اس میں منشیات اس لخاظ سے سرفہرست ہے ۔منشیات کی استعمال کی وجہ سے سالانہ لاکھوں افراد موت کے منہ میں چلتے رہے ہیں اور تیزی سے ہزاروں انسانوں کو اپنی علت کا غلام بناتی جارہی ہے ،جس میں خواتین ،نوجوان اور بچے بری طرح پھنستے جارہے ہیں اور اپنی زندگی کو اپنے ہی ہاتھوں سے تباہ و برباد کرتے جارہے ہیں، َ”زندگی واپس نہیں مل سکتی ” دنیا بھر میں اس بار انسداد منشیات کا عالمی دن اس موضوع کے ساتھ منایا جارہاہے۔

26 جون کو ہرسال پوری دنیا میں اس عہد کے ساتھ منایا جاتا ہے کہ منشیات کے نقصانات اور تابکاریوں کے کے بارے میں عوام و الناس کو آگہی دینا ہے اور اس مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگر کرنا ہے ،عالمی سطح پر اس دن کو منانا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اس وقت منشیات پوری دنیا کا ایک سنگین مسئلہ ہے ،ہمارے ہاں ضلع لسبیلہ میں منشیات کا مسئلہ اپنے عروج پر ہے ،انسداد منشیات کے لیے لسبیلہ کے اندر بہت ساری سیکورٹی فورسز ،حکومتی ادارے اور غیرسرکاری ادارے عمل پیرا ہیں ،جو کہ ماہانہ اور سالانہ طورپر رپورٹس کے لیے کاغذوں کے پیٹ بھرتے رہتے ہیں۔مگر حالات روز بہ روز خراب ہوتے جارہے ہیں ،بچے ،نوجوان ،خواتین اور بزرگ بری طرح منشیات کی علت کا شکار ہیں،ضلع لسبیلہ میں ایک دور ایسا تھا جب یہاں کے لوگ پان کے بچاری ہوا کرتے تھے۔

ہر چھوٹے بڑے گوٹھ،گاؤں اور شہر میں کبین ہوا کرتی تھی جس میں پان کا کاروبار چلتا ہے ۔لوگ پان کو بادشاہوں کی طرح شوقیہ طور پر پان استعمال کرنے کے بجائے نشہ کے طور پر استعمال کرنے لگے ،کیا ہوا کہ لسبیلہ کے عوام کو یہ نشان عبرت مل گیا کہ دنیا کا سب سے زیاد ہ پان لس میں ہی کھایا جاتاہے ۔مجھ جیسے سماجی تبدیلی کا شوق رکھنے والے دوستوں نے معاشرے میں پان کی لعنت کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے معاشرے میں Change maker بننے کی کوشش کی مگر پان کی نشہ ختم ہونے کے بجائے اس نشہ نے ایک خطرناک شکل کی اختیار کردی جو ابھی لسبیلہ کے ہر گھر کو اپنا نشانہ بنا گیا اور اب تیزی کے ساتھ ہرفرد کو نشانہ بنا رہاہے۔یہ نشہ ہے گٹکے کا نشہ ، اس نشے نے اس وقت لسبیلہ کے ہرگھر کو اپنے رحم و کرم پر رکھا ہے لس میں ایسے بہت کم گھرانے ہونگے جہاں گٹکا کو نہیں کھایا جاتاہوگا۔

صدرِ ذی وقار!
کہتے ہیں کہ اکثرلوگ لاعلمی و جہالت کی وجہ سے مختلف برائیوں کا شکار ہوجاتے ہیں ،اور اپنی زندگی کو خود مسائل کے دلدل میں دھکیل دیتے ہیںمگرہمارے ہاں جہالت کے ماروں کے ساتھ ساتھ ہمارا پڑھا لکھا طبقہ بھی اس برائی کا شکار ہوا ہے ،ہم سب نے ایسے بہت سارے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں گٹکاخوری کرتے ہوے دیکھا ہے ،اور بہت سارے بااثر لوگوں کو گٹکاخوری کی دانستہ اور غیر دانستہ سپورٹ کرتے دیکھاہےدوسری طرف کٹگا کے کاروبار کرنے والوں جس کو ہم گٹکا مافیا کہتے ہیں۔انہوںنے بھی لسبیلہ کو گٹکے کے قہرمیں ڈبونے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی ۔چند ٹکوں کی خاطر لسبیلہ کے نوجوانوں کی زندگی کو موت سے کھیلا رہے ہیں،ہر گاؤں ،ہر محلہ ،ہر شہر میں ہمیں گٹکے کے یہ کھوکے زہر بیچتے نظر آتے ہیں مگر ہماری حکومت کو آنکھیں رکھتے ہوئے بھی کچھ دیکھائی نہیں دیتا ۔ہمارے ہاں سماجی تنظمیں گٹکے کے خلاف آوازیں بلند کر کر کے بیٹھ گئی مگر یہ گٹکا ہے کہ گھٹا ہی نہیں۔

جناب صدر!
اس وقت بہت سارے نوجوان گٹکے کی نشے میں مبتلا ہوکر تیزی کے ساتھ منہ و گلے کے کنیسر ،سرطان جیسے بیماریوں کا شکار ہو کر صحت جیسی عظیم نعمت کی ناشکری کررہے ہیں۔لسبیلہ میں اس وقت بہت سارے لوگ جن میں بچے ،نوجوان ،بزرگ اور خواتین شامل ہیں ،گٹکے کا شکار ہوکر موت کے منہ میں چلے گئے ہیں اور باقی ان منہ کی بیماریوں میں مبتلا ہوکر سسک سسک کر جی رہے ہیں ،ہمارے ہاں صحت کے مسائل پر سوچھنے و سمجھنے کے عمل کو اہمیت ہی نہیں دی جاتی ، معاشرے میں رشتوں کے اندر تمیز ختم ہوتی جارہی ہے ایک باپ،ماں یا استاد بچوں کو گٹکے کھانے سے کیسے کر منا کرسکتاہے جبکہ اسکے خود کے منہ میں 24 گھنٹہ گٹکا ہوتاہے ،یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں پورے گھر کا گھر گٹکے کے نشہ کا شکار ہے ۔اور یہ عمل بہت خطرناک نتائج کو جنم دے گا جس کا شاہد ہم نے تصور نہ کیا ہو اور آنے والی نسلیں گٹکے خوروں کی نسلوں سے جانی جائیں ہمیں سوچنا اور سمجھنا ہوگا کہ ہم کس سمت جارہے ہیں۔جنابِ صدر آخر میں اتنا کہوں گی اگر بندق کی زور پر بولیوں پلا سکتے ہیں تو بندوق کی زور پر منشیات فروشوں کے . خلاف کاروائی کیوں نہیں کر سکتے۔

درج ذیل اشارات کی مدد سے تین سو الفاظ پر مشتمل کہانی لکھیں۔

دو بکریاں ۔۔۔۔مغرور رویے۔۔۔۔۔ پل کا تنگ ہونا۔۔۔۔ ایک دوسرے کو راستہ نہ دینا۔۔۔۔۔ ندی میں گر جانا۔۔۔۔ اخلاقی نتیجہ

ایک گاؤں کے پاس ایک نہر بہتی تھی.اس نہر پر ایک لکڑی کا پل تھا وہ کم چوڑا تھا اس پر ایک وقت میں ایک ہی آدمی گزر سکتا تھا ایک دن کی بات ہے ایک بکری پل پار سے دوسری طرف جا رہی تھی ایک اور بکری آ گئی ایک بکری نے دوسری بکری سے پوچھا کہ تم کہاں جا رہی ہو تو اس نے جواب دیا کہ میں نہر کے پار جا رہی ہوں دوسری بکری نے پہلی بکری سے پوچھا کہ تم کہاں جا رہی ہو اس نے جواب دیا کہ میں اپنے گاؤں جا رہی ہوں تو پہلے بکری نے کہا کہ میں پار جا رہی ہیں پھر تم میرے پیچھے آ جانا تو دوسری بکری کہتی ہے پہلے میں جاؤ گی میں کیوں تمہارے پیچھے جاؤ میں میں کر کے دونوں لڑنے لگے میں میں کر کے دو بکریاں نہر میں گر گئیں۔۔
نتیجہ: غرور کا سر نیچا۔

اس سبق میں درج ذیل محاورات استعمال ہوئے ہیں۔ آپ لغت سے ان کے معانی تلاش کریں اور انھیں اپنے جملوں استعمال کریں۔

الفاظ معنی جملے
موت کی وادی میں اُترنا جان لیوا کام کرنا منشیات کا مسلسل استعمال کرنا گویا موت کی وادی میں اترنے کے مترادف ہے۔
کارگر ثابت ہونا کام کر جانا بچے کو کھانا کھلانے کا کوئی طریقہ تو کارگر ثابت ہوا۔
لاحق ہونا مبتلا ہونا احمد مو کینسر کا موذی مرض لاحق ہے۔
درہم برہم ہونا تباہ ہونا زلزلے کی وجہ سے مواصلاتی نظام درہم برہم ہو گیا
سوا ہونا حد سے بڑھنا منشیات کا استعمال دن بدن حد سے سوا ہو رہا ہے۔