قافیہ اور ردیف کا بیان

0


قافیہ

قافیہ عربی لفظ *قفو* سے مشتق ہے ـ قافیہ کے لغوی معنی ہیں *پیچھے چلنے والا* اور اصطلاحِ عروض میں شعروں یا مصرعوں کے آخر الفاظ کے جو حروف اور حرکات مکرر ہوں ان کو قافیہ کہتے ہیں۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ قافیہ میں الفاظ کے آخر والا ہر ساکن حرف اور اس کے پہلے والی حرکت میں اتحاد ضروری ہے ـ قافیہ کو مصرع یاشعر کے سب سے آخر میں لانا لازمی ہوتا ہے اور اگر ردیف ہو تو یہ ردیف سے ٹھیک پہلے آئے گا یعنی ردیف اور قافیہ کے درمیان کوئی بھی لفظ موجود نہیں ہوتا ـ شعر کی بنیاد قافیہ ہے ردیف ہرگز نہیں۔ ردیف تو اضافی حسن ہے ـ عرف عام میں ہم صوت الفاظ کو *قافیہ* کہتے ہیں ـ

*قافیہ* ان مختلف المعنی ہم صوت الفاظ کو کہتے ہیں جو مصرعے کے آخر میں آتے ہیں اور اس کے بعد *ہم ردیف* ـ

قافیہ نو حروف پر مشتمل ہوتا ہے اور اس میں *حرف روی* قوافی کی بنیاد ہے اور اس میں چار حروف *حرف روی* سے پہلے اور چار حروف *حرف روی* کے بعد آتے ہیں جو بالترتیب حسب ذیل ہیں :

  • 1. *حرفِ ردف*
  • 2. *حرفِ قید*
  • 3. *حرفِ تاسیس*
  • 4. *حرفِ دخیل*
  • 5. *حرفِ روی*
  • 6. *حرفِ وصل*
  • 7. *حرفِ خروج*
  • 8. *حرفِ مزید*
  • 9. *حرفِ نائرہ*

جو چار *حرف روی* سے پہلے آتے ہیں وہ یہ ہیں:

1. ردف

ردف اس حروف علت (ا، و ،ی) کو کہتے ہیں جو *حرفِ روی* کے پہلے بلا فصل آتے ہیں ان کی تکرار لازمی ہے ـ جیسے نور، طور، حور، دستور وغیرہ

2. قید

ردف کے علاوہ اس حرفِ ساکن کا نام ہے جو *حرفِ روی* کے پہلے بلا فصل کے واقع ہو پر یہ حرفِ علت نہ ہو *قید* کہلاتا ہے اس کی تکرار بھی لازم ہے ـ جیسے قبر، صبر، جبر وغیرہ

3. تاسیس

وہ الف ساکن ہے جو *حرفِ روی* کے درمیان ایک حرفِ متحرک کا فصل ہو اسے *تاسیس* کہتے ہیں ـ جیسے حاصِل، جاہِل، عاقِل ، شامِل وغیرہ

تاسیس کی تکرار ضروری نہیں لیکن اس کی تکرار سے قوافی کے حسن میں اضافہ ہو جاتا ہے جیسے ‘عاقل’ کا قافیہ ‘دل’ ہو سکتا ہے ـ

4. دخیل

وہ *حرفِ متحرک* ہے جو تاسیس اور حرفِ روی کے درمیان حائل ہو ـ جیسے حاصِل ، عاقِل میں *ص* اور *ق* دخیل کی مثال ہے ، یہاں آخری دو حروف *صِل اور قِل* ہیں ان دونوں میں *ل* مشترک ہے اسے *حرفِ روی* کہتے ہیں۔

ان دونوں میں پہلے والے حرف پر ایک جیسی *زیر* کی علامت ہے اس لئے ہم قافیہ ہیں یعنی قافیہ کے لئے یہ لازمی ہے کہ اس میں آخری حرف ایک جیسا ہو اور اس سے پہلے حرف پر ایک جیسی حرکت( زبر، زیر، پیش) بھی ہو ـ

دخیل کی تکرار بھی ضروری نہیں لیکن ہو تو قوافی کے حسن میں اضافہ کرتی ہے، قافیے میں ہمیشہ تلفظ کا خیال رکھنا چاہیے ـ

اور جو چار حرفِ روی کے بعد آتے ہیں وہ یہ ہیں ـ

1. وصل

وہ حرف جو حرفِ روی کے عین بعد آتا ہے یعنی حرفِ روی کے بعد بلا فاصلہ آنے والا حرف *وصل* کہلاتا ہے ، یہ حرفِ روی کو متحرک کر دیتا ہے ـ مثلاً حالی، خالی، بیماری، گرفتاری وغیرہ۔
وصل کی پہچان یہ ہے کہ حذف کرنے سے لفظ با معنی رہتا ہے ـ

2. خروج

وہ حرف جو وصل کے بعد بغیر فصل کے آئے یعنی وصل کے بعد بلا فاصلہ آنے والا حرف *خروج* کہلاتا ہے ـ مثلاً سوتا، روتا میں *ت* کے فورًا بعد *الف* ہے جو *حرفِ خروج* ہے ـ

3. مزید

یہ وہ حرف ہے جو خروج کے بعد ہی آتا ہے یعنی *خروج* کے بعد بلا فاصلہ آنے والا حرف *مزید* کہلاتا ہے ـ مثلاً بُنے گا، سنے گا میں *ن* “حرفِ روی” ہے ، *ے* “حرفِ وصل” ، *گ* “حرفِ خروج” اور *الف* ” حرفِ مزید” ہیں ـ

4. نائرہ

وہ حرف ہے جو *مزید* سے متصل آئے اور *مزید* کے بعد ہی واقع ہو یعنی *مزید*
کے بعد بلا فاصلہ آنے والا حرف *نائرہ* کہلاتا ہے ـ مثلا *کہوں گا، رہوں گا* میں *ہ* “حرفِ روی” ، *و* “حرفِ وصل” ، *ں* “حرفِ خروج” ، *گ* “حرفِ مزید” اور *الف* “حرفِ نائرہ” ہیں ـ

آخرالذکر یہ یاد رکھیں حرفِ روی کے بعد جتنے بھی حروف آتے ہیں قوافی میں ان کی تکرار لازمی ہے یا ان چار حروف کا شمار اگر *ردیف* میں کر لیا جائے تو طلبہ کے لئے سہولت ہوگی ـ جس طرح ردیف کا *اعادہ* ضروری ہے اسی طرح ان چاروں حروف کا *اعادہ* بھی ضروری ہےـ

written by

محمد نوشاد کامل قادری