فعل ماضی کی اقسام

0

فعل ماضی کی چھ قسمیں ہیں:

(١) ماضی مطلق (٢) ماضی قریب (٣) ماضی بعید (٤) ماضی استمراری (٥) ماضی احتمالی (٦) ماضی تمنائی یا شرطی

(١) ماضی مطلق:

ماضی مطلق وہ فعل ہے جس میں زمانہ گزشتہ پایا جائے اور اس میں زمانے کے قریب و بعید کی قید نہ ہو۔
مثلاً:– اشرف نے روٹی کھائی۔
اس نے چھٹی لی۔
محمود دوڑا۔
اُوپر کے فقروں میں کھائی، لی، دوڑا، فعل ماضی ہیں ان سے صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ کام زمانہ ماضی میں ہوا ہے اور یہ معلوم نہیں ہوتا ہے کہ کام کئے ہوئے تھوڑا عرصہ گزرا ہے یا بہت۔جس فعل ماضی میں نہ پایا جائے کہ زمانہ کو گزرے ہوئے تھوڑی دیر ہوئی ہے یا زیادہ اسے ماضی مطلق کہتے ہیں۔

(٢) ماضی قریب:

ماضی قریب وہ فعل ہے جس میں قریب کا گزرا ہوا زمانہ پایا جائے۔
مثلاً:- رشید نے خط لکھا ہے۔
قرشی نے مار کھائی ہے۔
دیکھو ان جملوں میں “لکھا ہے” اور “کھائی ہے” کے فعلوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ رشید نے ابھی خط لکھا ہے اور قرشی نے ابھی مار کھائی ہے یعنی ان فعلوں میں قریب کا گزرا ہوا زمانہ پایا جاتا ہے جسے ماضی قریب کہتے ہیں۔

(٣) ماضی بعید:

ماضی بعید وہ فعل ہے جس میں دور کا گزرا ہوا زمانہ پایا جائے۔
مثلاً:- ہم نے چور دیکھا تھا۔
مینہ برسا تھا۔
بجلی گری تھی۔
دیکھیے اُوپر کی مثالوں میں “دیکھا تھا” “برسا تھا” اور “گری تھی” ایسے فعل ہیں کہ ان سے دور کا گزرا ہوا زمانہ پایا جاتا ہے۔ایسے فعلوں کو ماضی بعید کہتے ہیں۔

(٤) ماضی استمراری:

اسے ماضی ناتمام بھی کہا جاتا ہے۔یہ وہ ماضی ہے جس میں گزرے ہوئے زمانہ میں کام کا جاری رہنا سمجھا جاتا ہے یعنی کام ختم نہیں ہوا ہوتا۔
مثلاً:-وہ گانا گا رھا تھا۔
رانی پھول توڑ رہی تھی۔
اس کی خاص پہچان یہ ہے کہ اس کے آخر میں “رہا تھا، رہے تھے، رہی تھی، رہیں تھیں” وغیرہ آتا ہے۔

(٥) ماضی احتمالی:

اسے ماضی شکیہ بھی کہتے ہیں۔یہ وہ ماضی ہے جس میں گزرے ہوئے زمانہ میں کسی کام کے ہونے یا نہ ہونے کا احتمال یعنی شک پایا جائے۔ماضی مطلق پر ہوگا بڑھانے سے ماضی احتمالی بن جاتا ہے۔
مثلاً:- کریم نے چڑیا دیکھی ہوگی۔
شیکسپیئر یہاں آیا ہوگا۔
منشی نے خط لکھا ہوگا۔
دیکھو اُوپر کی مثالوں میں کریم کا دیکھنا،شیکسپیئر کا آنا،اور منشی کا خط لکھنا، شک کے ساتھ سمجھا جاتا ہے۔جس فعل ماضی میں کام کا ہونا شک کے ساتھ سمجھا جائے اسے ماضی شکیہ یا احتمالی کہتے ہیں۔

(٦) ماضی تمنائی یا شرطی:

یہ وہ ماضی ہے جس میں گزرے ہوئے زمانہ میں کام کرنے کی تمنا، شرط، یا آرزو پائی جاتی ہے۔یہ مادہ کے بعد ‘تا’ بڑھانے سے بنتی ہے۔آتا، جاتا، کھاتا،روتا، پڑھتا، وغیرہ آخر میں ہوتے ہیں۔جیسے: اگر وہ آتا تو میں خوش آمدید کہتا، اگر تم جاتے تو وہ مان جاتا وغیرہ۔
ایک اور مثال دیکھیے۔
کاش! وہ اس وقت وہاں نہ جاتا۔
احمد سیب خریدتا۔اگر احمد نے سیب خرید ہ ہوتا۔احمد نے سیب خریدہ ہوں۔ایسے فعل ہیں جو شرط یا آرزو کے موقع پر بولے جاتے ہیں۔جیسے:-اگر احمد سیب دیتا تو میں کھاتا وغیرہ۔یہ شرطی صورت تھی، آرزو کے موقع پر یوں کہا کرتے ہیں۔
کاش! احمد سے خریدتا، کاش! احمد سیب خریدا ہوتا۔اس لیے اسے ماضی تمنائی بھی کہتے ہیں۔