جملہ کا بیان

0

جملہ:

الفاظ کے ایسے مسلسل مجموعے کو جملہ کہتے ہیں جس سے سننے والا بات کو پوری طرح سمجھ لے اور اس کا مفہوم حاصل کرلے، چاہے بات تقریر میں ہو یا تحریر میں۔جملے کے دو اصل عناصر ہوتے ہیں۔

١-مبتدا:

جب کسی شخص یا چیز کا ذکر کیا جائے تو اسے مبتدا کہتے ہیں۔

٢-خبر:

جو کچھ بھی مبتدا کے بارے میں کہا جائے اسے خبر کہتے ہیں۔

جملے کےدو بڑے جزو:

١-مسند الیہ:

مسندالیہ جملہ کا وہ جزو ہے کہ جس کی نسبت کچھ کہا جائے۔

٢-مسند:

مسند جملے کا وہ جزو ہے جس میں کسی شخص یا چیز کی بابت کچھ کہا جائے۔
آئیےمسندد اور مسندالںہ کو مثالوں سے سمجھتے ہیں۔

  • چیزیں دکانوں پر سجی ہوئی ہیں۔
  • رات گزر گئی۔
  • دن چڑھ آیا۔
  • چور بھاگ گیا۔
  • ہوا چل رہی ہے۔

دیکھو اُوپر کے جملوں کے دو بڑے جز ہیں۔

چیزیں               دکانوں پر سجی ہوئی ہیں
رات                       گزر گئی
دن                         چڑھ آیا
چور                      بھاگ گیا
ہوا                        چل رہی ہے۔

پہلا جزو مثلاً:-چیزیں، رات، دن ،چور، اور ہوا ایسی چیزیں ہیں کہ جن کی بابت کچھ کہا گیا ہے ایسے جزو کو مسند الیہ کہتے ہیں۔
نمبر ٢ کے جزو مثلاً:-دکانوں پر سجی ہوئی ہیں، گزر گئی، چڑھ آیا، بھاگ گیا اور چل رہی ہے ایسے الفاظ ہیں جن میں مسندالیہ کے بارے میں کچھ کہا گیا ہے ایسے جزو کو مسند کہتے ہیں۔

(الف) ترکیب یا صورت کے لحاظ سے جملے کی دو قسمیں ہیں۔

(1) مفرد جملہ:

مفرد جملہ اس جملہ کو کہتے ہیں جس میں صرف ایک مسندالیہ اور ایک مسند ہو۔
مثلاً:- احمد لکھتا ہے، خواجہ کھاتا ہے وغیرہ۔

(2) مرکب جملہ:

مرکب جملہ اُس جملہ کو کہتے ہیں جس میں دو یا دو سے زیادہ مفرد جملے مل کر ایک مفہوم یا خیال کو ظاہر کریں۔
مثلاً:-ساجد اگر نہیں گیا تو میں بھی نہیں جاؤں گا۔

مرکّب جملہ کی دو قسمیں ہیں:

(1) مرکّب مطلق:

اس مرکّب جملہ کو کہتے ہیں جس میں ہر مفرد جملہ جدا گانہ برابر کی حیثیت رکھتا ہے اور معنی کے لحاظ سے دوسرے کا محتاج نہیں ہوتا۔
مثلاً:-احمد آیا۔اور شیر چلا گیا۔

(2) مرکّب ملتف:

اس مرکّب جملے کو کہتے ہیں جس میں ایک جملہ اصل ہوتا ہے اور باقی جملے اس کے ماتحت ہوتے ہیں۔جب تک ذیلی جملہ اصلی جملے سے ملا کر استعمال نہیں ہوتا اس وقت تک پورا مطلب بیان نہیں ہو سکتا۔
مثلاً: وہ کتاب جو گم ہوگئی تھی، مل گئی ہے۔ اس میں “وہ کتاب مل گئی”اصل جملہ ہے اور “جو گم ہوگئی تھی” ذیلی جملہ ہے۔معنی اور مطلب کے لیے دونوں کا ہونا ضروری ہے۔

(ب) معنی کے لحاظ سےجملے کی دو قسمیں ہیں:

(1) جملہ خبریہ:

اس جملہ کو کہتے ہیں جس سے کسی واقعہ کی حالت کی خبر ملے۔
مثلاً:-عادل آ گیا۔
فرید چلا گیا۔
خواجہ چالاک ہے۔ وغیرہ۔

(2) جملہ انشائیہ:

اس جملے کو کہتے ہیں جو کسی حکم یا استفہام یا انبساط یا تعجب یا تنبیہ اور دعا وغیرہ جیسے جذبات کو ظاہر کرے۔
مثلاً:- کاش! وہ آگے آتا۔
یہ کام کرنا اچھا نہیں۔
ماشااللہ! کیا خوب بات کہی ہے۔ وغیرہ۔

(ج) مسند کے لحاظ سے جملے کی دو قسمیں ہیں:

جملہ اسمیہ:

اس جملے کو کہتے ہیں جس میں مسند اور مسندالںہ دونوں موجود ہوں۔ مثلاً:- رام ذہین لڑکا ہے۔اس میں رام (مسند الیہ) اور ذہین لڑکا (مسند) ہے۔جملہ اسمیہ کے مسندالیہ کو مبتدا اور مسند کو خبر کہتے ہیں۔

جملہ اسمیہ کے مندرجہ ذیل ارکان ہوتے ہیں۔

  • ١-مبتدا:-اس اسم کو کہتے ہیں جس کی طرف کوئی اسم یا فعل منسوب ہوتا ہے۔
  • ٢-خبر:-اسے کہتے ہیں جو مبتدا کی طرف منسوب ہو۔
  • ٣-فعل ناقص:-وہ فعل ہے جس سے بات پوری نہ ہو۔
  • ٤-مسند اور مسندالیہ کی توسیع یا متعلقات خبر و مبتدا۔
  • مثلاً:-چاند روشن ہے۔ اس جملے میں چاند (مبتدا) روشن (خبر) اور ہے (فعل ناقص) ہے۔
  • موہن گھر میں نہ تھا۔اس جملے میں موہن (مبتدا) ہے،نہ تھا (فعل ناقص) ہے،اور گھر میں (متعلق خبر) ہے۔

جملہ اسمیہ کی پہچان کیسے کریں؟

١-اگر فعل ناقص ہے تو جملہ اسمیہ ہوگا۔ اگر فعل تام ہے تو جملہ فعلیہ ہوگا۔
٢-جملہ اسمیہ میں دو اسم ہوتے ہیں۔دونوں اسموں میں ایک اسم معرفہ اور دوسرا اسم نکرہ ہو تو معرفہ کو مبتدا اور نکرہ کو خبر کہتے ہیں۔
٣-اگر ایک اسم ذات ہوں اور ایک اسم صفت ہو تو اس ذات کو مبتدا اور صفت کوخبر کہتے ہیں۔
٤-اگر دونوں اسم معرفہ ہوں تو پہلے کو مبتدا اور دوسرے کو خبر کہتے ہیں۔
٥-اگر دونوں اسم نکرہ ہوں تو جو زیادہ خاص ہو وہ مبتدا اور دوسرے کو خبر کہتے ہیں۔
٦-مبتدا عام طور پر پہلے آتا ہے اور خبر بعد میں۔
٧-بعض اوقات مبتدا یا خبر یا فعل ناقص حذف ہوجاتا ہے۔
٨-خبر کبھی مفرد ہوتی ہے اور کبھی مرکب ہوتی ہے۔
٩-بعض اوقات مبتدا کی کئ خبریں ہوتی ہیں۔
١٠-بعض اوقات مبتدا مفرد ہوتا ہے اور کبھی مرکب ہوتا ہے۔
١١-بعض اوقات مبتدا اور خبر دونوں محذوف ہوتے ہیں۔

 جملہ فعلیہ:

اس جملہ کو کہتے ہیں جس میں مسند الیہ اسم یا فاعل، اور مسند فعل ہو۔مثلاً:-احمد نے کھانا کھایا۔اس میں احمد (فاعل یا اسم) کھانا (مفعول) اور کھایا (فعل) ہے۔

جملہ فعلیہ کے مندرجہ ذیل ارکان ہیں۔

  • ١-فاعل:-وہ اسم جس کی ذات پر فعل واقع ہو
  • ٢-مفعول:-وہ اسم ہے جس پر فاعل کا فعل واقع ہو۔
  • ٣-فعل:-وہ کام جو فاعل سے صادر ہو۔
  • ٤-فعل تام:-وہ فعل جس سے جملے کی تکمیل ہو۔
  • ٥-مفعول اور فعل کی توسیع یا مطلقات فعل۔
  • آپ یہ جانتے ہیں کہ جس کے بارے میں ذکر کیا جائے اسے مسند الیہ اور جو کچھ ذکر کیا جائے اسے مسند کہتے ہیں۔
  • افعال تام کے مسندالیہ کو فاعل اور مسند کو مفعول کہتے ہیں۔
  • افعال ناقص کے مسندالیہ کو مبتدا اور مسند کو خبر کہتے ہیں۔

جملہ فعلیہ کی پہچان کیسے کریں؟

  • ‎١-سب سے پہلے فعل پر نظر کیجیے اگر فعل تام ہے تو جملہ فعلیہ‌ہوگا
  • ‎٢-اگر جملہ میں فعل لازم ہوگا تو جملہ فاعل پر ختم ہوتا ہے
  • ٣-اگر فعل متعدی ہو تو مفعول ضرور آتا ہے۔ ‎
  • ‌ ٤-بعض اوقات متعدی افعال کے دو مفعول ہوتے ہیں پہلے کو مفعول بہ اور دوسرے کو مفعول ثانی کہتے ہیں۔
  • ٥-جملہ فعلیہ میں اجزا کی ترتیب یوں ہوتی ہے فاعل، مفعول،متعلق فعل،مگر متعلق فعل کبھی مفعول سے پہلے آتا ہے اور کبھی بعد میں۔
  • ٦-فعل جب فقروں کے شروع میں آئے تو زور ظاہر ہوتا ہے۔
  • ٧-کلام میں زور پیدا کرنے کی غرض سے کبھی مفعول پہلے بھی آسکتا ہے۔
  • ٨-بعض اوقات جملے میں فاعل کو حذف کردیا جاتا ہے۔
  • ٩-بعض اوقات جملے میں فاعل اور مفعول دونوں حذف کر دیے جاتے ہیں۔
  • ١٠-کبھی جملہ میں فعل اور فاعل دانوں حذف ہوتے ہیں۔
  • ١١-فعل مجہول میں فاعل نہیں آتا، بلکہ ہمیشہ مفعول آتا ہے۔
  • ١٢-ترکیب نحوی کے لحاظ سے جملہ فعلیہ میں سب سے پہلے فعل، پھرفاعل پھر مفعول اور آخر میں متعلقات فعل لکھے جاتے ہیں۔