ایوب عباسی

0

اس سبق کا خلاصہ اپنے الفاظ میں بیان کیجئے :

تعارفِ سبق : سبق ”ایوب عباسی“ کے مصنف کا نام ”رشید احمد صدیقی“ ہے۔ یہ سبق آپ کی کتاب ”گنج ہائے گراں مایہ“ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

تعارفِ مصنف :

رشید احمد صدیقی ایک اچھے استاد محقق اور ناقد بھی تھے مگر ان کی اصل وجہ شہرت طنز و مزاح کے میدان میں ان کی جولانی طبع کی بدولت مستحکم ہوتی ہے۔ رشید صاحب کی تحریروں کی سب سے بڑی خصوصیت ان کی طبعیت میں غور و فکر ہے۔ رشید احمد صاحب نے طنز و ظرافت کا پیرایہ اختیار کیا اور نصف صدی تک اس میدان کے نمایاں شہ سوار بنے رہے، مگر ان کے مطالعے میں ایک ایسی منزل بھی ہے جب وہ اپنے دور کے بعض ادبی میلانات اور ان کی اہمیت یا عدم اہمیت کے بارے میں قطعی فیصلہ بھی صادر کرتے ہیں، اس مقام پر ان کی شخصیت کا جو پہلو بہت نمایاں معلوم ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ رشید صاحب اپنی لطیف الطبعی کے باوصف بے حد سنجیدہ بھی تھے۔

خلاصہ :

اس سبق میں مصنف ایوب عباسی کے اعلیٰ اخلاق اور ان کی سیرت کی خوبصورتی کو بیان کررہے ہیں۔ ان کی پیدائش کی صدی اپنی کم مائیگی اور بانجھ پن کے احساس سے نڈھال ہچکولے لے رہی تھی کہ اس کے ضعیف ملن سے خوابوں اور تعبیروں کی سر زمین میں ایک انوکھے بچے نے جنم لیا۔ مذکورہ صدی کی اکھڑتی سانسوں میں ظہور ہونے والے اس سپوت نے آنے والی صدیوں کو ڈھنگ سے سانس لینے کا سلیقہ اور اعتماد بخشا۔

مصنف بتاتے ہیں کہ ایوب عباسی سادہ مزاج شخص محبت اور خدمت کے ایک غیر معمولی جذبے سے سرشار تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ایوب عباسی کے سب کے ساتھ گھل مل جاتے تھے۔

ایوب عباسی کی خدمت شعاری کا انداز یہ تھا کہ وہ ہر ایک کی ضرورتوں کا خیال رکھتے ، ہمہ وقت بلا امتیاز ہر ایک کی خدمت میں لگے رہتے، اور کبھی صلہ و ستائش کی تمنا نہ کرتے۔

مصنف کہتے ہیں کہ ایوب عباسی کی سیرت کا سب سے منفرد پہلو یہ ہے کہ وہ ہر بڑے اور ہر چھوٹے آدمی سے بلا امتیاز اور برابر کی عزت آمیز محبت کرتے تھے۔ یہاں تک کہ یونیورسٹی کے ملازمین کے ساتھ ایوب عباسی کا سلوک ایسا تھا کہ آپ یونیورسٹی میں سب ملازمین کی ضروریات کا خیال رکھتے اور ہر کسی کے کام کرانے میں مستعد رہتے۔ ان کی محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایوب عباسی کے انتقال پر لوگوں کے جذبات کا یہ عالم تھا کہ ایوب عباسی کے انتقال پر ہر دل دکھی اور ہر آنکھ اشک بار تھی۔

۱- سبق کے متن کو مد نظر رکھتے ہوئے درج ذیل سوالوں کے مختصر جواب دیجیے:

الف- ایوب عباسی کے سب کے ساتھ گھل مل جانے کا راز کیا تھا ؟

جواب : وہ سادہ مزاج شخص محبت اور خدمت کے ایک غیر معمولی جذ بے سے سرشار تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ایوب عباسی کے سب کے ساتھ گھل مل جاتے تھے۔

ب۔ ایوب عباسی خدمت شعاری کا انداز کیا تھا؟

جواب : وہ ہر ایک کی ضرورتوں کا خیال رکھتے ، ہمہ وقت بلا امتیاز ہر ایک کی خدمت میں لگے رہتے، اور کبھی صلہ و ستائش کی تمنا نہ کرتے۔

ج- ایوب عباسی کی سیرت کا سب سے منفرد پہلو کیا ہے؟

جواب : وہ ہر بڑے اور ہر چھوٹے آدمی سے بلا امتیاز اور برابر کی عزت آمیز محبت کرتے تھے۔

د- یونیورسٹی کے ملازمین کے ساتھ ایوب عباسی کا سلوک کیسا تھا ؟

جواب : آپ یونیورسٹی میں سب ملازمین کی ضروریات کا خیال رکھتے اور ہر کسی کے کام کرانے میں مستعد رہتے۔

ہ- ایوب عباسی کے انتقال پر لوگوں کے جذبات کا کیا عالم تھا۔

جواب : ایوب عباسی کے انتقال پر ہر دل دکھی اور ہر آنکھ اشک بار تھی۔

سوال نمبر ۲ : مندرجہ ذیل میں سے درست الفاظ منتخب کرکے خالی جگہ پر کیجیے :

واجب الادا ، دخیل ، صلیب احمر ، نعائم فطرت ، دل سوزی و خود سپاری، بے دریغ بخشی ، لطف و تندہی۔

  • الف۔ وہ موجود تھے تو ان کی مثال نعائم فطرت کی تھی۔
  • ب۔ میں نہیں بتا سکتا ہم سب کی زندگیوں میں ایوب کس قدر دخیل تھے۔
  • ج- خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ اس پیکر حقیقی میں دل سوزی و خود سپاری کا کیسا بےکراں و بیش قیمت خزانہ ودیعت تھا۔
  • د۔ چھوٹے بڑے کی خدمت یکساں لطف و تندہی سے کرتے تھے۔
  • ہ۔ ان کا طرزِ عمل لوگوں سے وہی ہوتا جو میدانِ جنگ میں صلیب احمر کا ہوتا ہے۔
  • و۔ “کیا یہاں کوئی ایسا بھی موجود ہے جس پر ایوب کی خدمات کا واجب الادا نہ ہو”۔

سوال نمبر ۳ : مندرجہ ذیل محاورات کو اپنے جملوں میں اس طرح سے استعمال کیجیے کہ ان کا مفہوم واضح ہو جائے :

جملے سر کرنا : بے تکلف دوست محفل میں ایک دوسرے کے بارے میں جملے سر کر رہے تھے۔
کانوں کان خبر نہ ہونا : ارے اتنی راز داری سے شادی کر لی اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔
دم گھٹنا : ریل کے ڈبے میں اتنے لوگ گھسے ہوئے تھے کہ دم گھٹتا تھا۔
جادو کام کرنا : اس کی شخصیت کا جادو کام کر رہا تھا،اس لیے پورا ہجوم سر ہلا ہلا کر اس کی باتوں کی تائید کر رہا تھا۔
جی ہلکا ہونا : امجد ایک بڑے صدمے سے دو چار ہوا مگر رو دھو کر اس نے اپنا جی ہلکا کرلیا۔
انگاروں پر لوٹنا : فائز کی شاندار کامیابی کی خبر سن کر رابعہ مارے حسد کے انگاروں پر لوٹنے لگی۔
بے دست و پا ہونا : حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ فیاض بے دست و پا ہوکر رہ گیا۔
جان چھڑکنا : جانے کیا جادو ہے شعیب کی شخصیت میں کہ ہر دوست اس پر جان چھڑکتا ہے۔
خاطر میں نہ لانا : اچانک دولت کیا ملی کہ اب وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتا۔

سوال نمبر ۴ : اپنی پسندیدہ شخصیت کا خاکہ تحریر کیجیے۔

جواب : خاکہ پیش خدمت ہے۔

غالب

اٹھارھویں صدی اپنی کم مائیگی اور بانجھ پن کے احساس سے نڈھال آخری ہچکولے لے رہی تھی کہ اس کے ضعیف ملن سے خوابوں اور تعبیروں کی سر زمین آگرہ میں ایک ایسے انوکھے بچے نے جنم لیا جو کچی عمر کی پون صدی کا لمحہ لمحہ وقت ، زمانے اور حالات کے ہاتھوں مغلوب رہنے کے باوجو ’غالب‘ بنارہا۔ مذکورہ صدی کی اکھڑتی سانسوں میں ظہور ہونے والے اس سپوت نے آنے والی صدیوں کو ڈھنگ سے سانس لینے کا سلیقہ اور اعتماد بخشا۔ روایتی داناؤں کا خیال ہے کہ مالی پسماندگی رفتہ رفتہ ذہنی پستی کا سبب بن جاتی ہے۔ بڑے بڑے لوگ ان حالات میں کاسہ لیسی اور چاپلوسی پہ اتر آتے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کسمپری میں تو بڑے بڑے سورماؤں کے دم اگ آتی ہے۔ یہ شخص عمر بھر پائی پائی کو ترستا رہا مگر رفعت تخیل میں روز بروز غالب تر ہوتا چلا گیا۔