نہ گیا کوئی عدم کو دل شاداں لے کر تشریح

0

شاعر : شیخ غلام ہمدانی مصحفی

ماخوذ از : دیوانِ مصحفی

تعارفِ غزل : 

یہ شعر ہماری درسی کتاب کی غزل سے لیا گیا ہے۔ اس غزل کے شاعر کا نام شیخ غلام ہمدانی مصحفی ہے۔ یہ غزل دیوانِ مصحفی سے ماخوذ کی گئی ہے۔

غزل نمبر ۲ :

نہ گیا کوئی عدم کو دل شاداں لے کر
یاں سے کیا کیا نہ گئے حسرت و ارماں لے کر۔

تشریح : اس شعر میں شاعر نے انسان کے دنیا میں آنے اور ناامید چلے جانے کا ذکر کیا ہے۔ شاعر کہتے ہیں کہ انسان جب پیدا ہوتا تو اس کی زندگی میں کئی کمیاں ہوتی ہیں۔ وہ زندگی میں کئی دکھ اور غم اٹھاتا ہے۔ اور انسان کے دل میں بے شمار خواہشات پیدا ہوتی ہیں جن کو وہ پورا نہیں کرپاتا اور وہ حسرت بن کر رہ جاتی ہیں۔ یہی حسرتیں اس کو زندگی بھر ناخوش رکھتی ہیں۔
شاعر کہتے ہیں کہ انسان اپنے ارمانوں کو پورا کرنے کی کچھ میں رہتا ہے لیکن جب وہ ارمان ادھورے رہ جاتے ہیں تو وہ جس دکھ میں زندگی گزارتا ہے اس دکھ کے ساتھ دنیا سے چلا جاتا ہے۔

باغ وہ دست جنوں تھا کبھی جس میں سے
لالہ و گل گئے ثابت نہ گریباں لے کر

تشریح : اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ انسان جب انسان پیدا ہوتا ہے تو اس کو دنیا خوبصورت نظر آتی ہے۔ انسان کو اپنے زندگی کسی باغ کی طرح خوشنما محسوس ہوتی ہے لیکن جب یہی زندگی انسان پر تکالیف کے در وا کرتی ہے تو انسان کو سمجھ آتا ہے کہ جسے وہ جیسے وہ خوشنما باغیچا سمجھتا رہا ہے وہ تو دراصل ایک دشت ہے جہاں کہیں خاردار راہ ہیں جن پر چل لینے کے لیے انسان جنونی ہوجاتا ہے اور اپنے اس جنون کی خاطر خود کو لہولہان کرلیتا ہے یہ حقیقت سمجھ آتے ہی انسان پھولوں کھلیوں کی طرح ریزہ ریزہ بکھر جاتا ہے۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ یہ دنیا ویسی نہیں ہوتی جیسی ہمیں ظاہری آنکھ سے نظر آتی ہے۔

پردہ خاک میں سو سو رہے جا کر افسوس
پردہ رخسار پہ کیا کیا مہ تاباں لے کر

تشریح : اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ انسان دنیا میں آکر اپنے اپنے آپ کو شہنشاہ سمجھنے لگتا ہے۔ اپنی زندگی کو کو پراسائش بنانے کی جہدو جہد میں لگ جاتا ہے۔ اور انسان کی زندگی اتنی پر اسائش ان کی خوشحالی لوگوں کے لیے قابل رشک بن جاتی ہے اور زندگی کے ایسے رنگوں میں کھو کر انسان موت کو بلکل بھول جاتا ہے اسے لگتا ہے کہ یہی زندگی اس کی ہمیشہ رہے گی۔ اور ایسے لوگوں پر جب موت کا وار ہوتا ہے تو لوگ ساکت رہ جاتے ہیں۔ شاعر کہتے ہیں کہ یہ ساری شان شوکت یہ چاند سے روشن چہرے مٹی میں مل جائیں گے خاک کی چادر اوڑھ لیں گے۔

ابر کی طرح ک دیویں گے عالم کو نہال
ہم جدھر جاویں گے یہ دیدہ گریاں لے کر

تشریح : اس شعر میں شاعر نے اپنے آنسو کو بارش سے تشبیہ دی ہے شاعر کہتے ہیں کہ انسان کی زندگی تکلیفوں اور مشکلات کے گھیرے میں ہوتی ہے اور انسان اپنی تکلیفوں پر ہر وقت ملول رہتا ہے اور اس کی آنکھیں ہمیشہ گریہ زاری میں مشغول ہوتی ہیں۔ شاعر کہتے ہیں کہ ان انکھیوں نے اپنی تکلیفوں اور صحبتوں پر اتنا پانی بہایا ہے کہ اب یہ مانند ابر ہوگئی ہیں تو اب یہ ایک عالم سیراب کرسکتی ہیں۔ اس شعر میں ان لوگوں کی طرف اشارہ ہے جو اپنی مشکلات اور تنگیوں کا رونا ہر جگہ روتے رہتے ہیں۔

پھر گئی سوئے اسیران قفس باد صبا
خبر آمد ایام بہاراں لے کر۔

تشریح : اس شعر میں شاعر نے دکھوں میں گھیرے انسان کوسوئے اسیران قفس کہا ہے یعنی دکھوں کی قید میں مقید انسان۔ شاعر کہتے ہیں کہ انسان اپنی تکلیفوں سے نڈھال ہوکر اپنی زندگی سے مایوس ہونے لگتا ہے اور وہ خود کو پنجرے میں قید محسوس کرتا ہے جہاں اس کو ہر موسم خزاں کی طرح ویران لگتا ہے۔ اور اس کی زندگی میں امید کی کوئی کرن پیدا ہوجائے تو وہ بہار کی رت کی طرح حسین لگتی ہے۔ اس شعر میں شاعر نے بلبل کی مثال دی ہے جیسے وہ خزاں میں رنجیدہ ہوتا ہے اور اسی کو اپنی زندگی سمجھنے لگتا ہے مگر بہار کا آغاز اس کی زندگی میں نئے رنگ نئی امید پیدا کردیتا ہے۔

مصحفی گوشہ عزلت کو سمجھ تخت شہی
کیا کرے گا تو عبث ملک سلیماں لے کر۔

تشریح : اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ انسان اپنی زندگی کا سب سے بڑا شعار دولت کو سمجھتا ہے اور اور اس دولت کے سامنے اسے دنیا کی بیش قیمتی چیز بھی بیکار نظر آتی ہے۔ جبکہ متقی انسان ان سب آسائشوں سے قطع نظر صرف رب کا قرب ، قناعت پسندی کو اہم جان کر زندگی گزارتا ہے۔ شاعر کہتے ہیں کہ یہ گوشہ نشینی یہ تنہائی اس بادشاہت اور عیش عشرت سے کہیں زیادہ بہتر ہے جو کبھی بھی ختم ہو سکتی ہے۔ جس کا اختتام مقرر ہے ۔جیسے حضرت سلیمان علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے ویسی سلطنت پر بادشاہت عطا فرمائی تھی ۔ مگر اس کی بھی ایک مدت معین تھی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کو اللہ نے انسان ،حیوان، جنات ، چرند پرند تمام مخلوقات پر بادشاہت عطا کی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سوال نمبر ۱ : مصحفی کی دونوں غزلوں میں قافیے اور ردیف کی نشان دہی کیجیے۔

جواب : غزل کے مطلع کے دونوں مصرعوں اور باقی ہر شعر کے دوسرے مصرعے کے آخر میں آنے والے ہم آواز الفاظ قافیہ کہلاتے ہیں اور قافیہ کے بعد دہرایا جانے والا ایک لفظ ردیف کہلاتا ہے۔ مصحفی کی پہلی غزل کے قافیے اندوہ گیں، قریں، آستیں، حزیں، وہیں ،زیرِ زمیں، یقیں، کہیں اور نہیں ہے۔ جب کہ ردیف ”رہا“ ہے۔
دوسری غزل کے قافیے : شاداں ، ارماں ، گریباں ، تاباں ، گریاں، بہاراں اور سلیماں ہے۔ ردیف : ”لے کر“ ہے۔

سوال نمبر ۲ : چند جملوں میں وضاحت کیجیے۔

الف: دنیا میں اندوہ گیں رہنے کا مفہوم کیا ہے؟

جواب: دنیا میں اندوہ گیں رہنے کا مطلب ہے، دکھوں اور پریشانیوں میں زندگی گزارنا، خواہشات کے برعکس جینا۔

ب : چمن میں خندۂ گل سے حزیں رہنے سے کیا مراد ہے؟

جواب : حساس انسان جب کسی دکھ میں مبتلا ہو تو ارد گرد دانستی مسکراتی زندگی کو دیکھ کر اس کا افسردہ ہو جانا قدرتی بات ہے۔ شاعر باغ میں پھول کے کھلنے کو اس کے قہقہے سے تعبیر کرتا ہے جس سے شاعر کا دل دکھتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے شاید ، یہ پھول میرے غموں کا مذاق اڑارہا ہے۔

ج : خلق کو تادم آخرمر نے کا یقین کیوں نہ آیا؟

جواب : اس لیے کسی کو شاعر کے مرنے کا یقین نہیں تھا کیونکہ شاعر نے موت کو اس جرات مندی اور مردانگی سے قبول کیا تھا کہ آ خر تک اس کے چہرے پر موت کا خوف یا احساس نمایاں نہیں ہوا تھا۔

د : قافلے میں کون آ گے نکل گیا تھا اور کون پیچھے رہا؟

جواب : تیز چلنے والے مسافر تو آ گے نکل گئے لیکن شاعر اپنی سست رفتاری کی وجہ سے پیچھے رہ گیا اور یوں قافلے کے لیے شرمندگی کا باعث بنا۔

ہ : شاعر کے خیال میں لالہ وگل کے گریباں ثابت کیوں نہیں ہیں؟

جواب : شاعر کے خیال میں باغ میں جو پھول یہاں کھلتا ہے، وہ مارے دیوانگی کے اپنا گریباں چاک کر لیتا ہے اور پھولوں کی پتیاں بکھر جاتی ہیں۔

و : مہ تاباں کا زیر زمیں چلے جانے سے شاعر کی کیا مراد ہے؟

جواب : اس سے شاعر کی مراد خوب صورت لوگوں کی موت واقع ہونا ہے۔

سوال نمبر ۳: درج ذیل تراکیب کے معنی لکھیے۔

اندوہ گیں : غم زدہ
سرِ آستیں : آستیں کا سر
خندہ گل : پھول کا کھلنا، پھول کی ہنسی
تادم آخر : آخری وقت تک ، مرتے دم تک
دل شاداں : خوش دلی ، ہنستا کھیلتا دل
اسیران قفس : پردہ چاک

سوال نمبر ۶ : مندرجہ ذیل الفاظ وتراکیب کو اپنے جملوں میں اس طرح استعمال کیجیے کہ ان کی تذکیر وتانیث واضح ہو جائے :

دنیا : یہ دنیا بہت بڑی ہے۔
غم : اس دنیا میں ہر انسان غم زدہ ہے۔
مزاج : یہاں ہر کسی کا مزاج دوسرے سے مختلف ہے۔
چمن : یہ چمن مجھے بہت پسند ہے۔
خلق : یہ خلق اللہ تعالیٰ کی تخلیق ہے۔
قافلہ : شاعر اپنے قافلے سے بچھڑ گیا۔
گریباں : احمد کے قیمض کا گریباں چاک ہوگیا تھا۔
آمد : مجھے اس آمد کی خبر ہوجاتی ہے۔