کام مردوں کے جو ہیں، سو وہی کر جاتے ہیں تشریح

0

شاعر : خواجہ میر درد۔
ماخوذ از : دیوانِ درد

تعارفِ غزل :

یہ شعر ہماری درسی کتاب کی غزل سے لیا گیا ہے۔ اس غزل کے شاعر کا نام خواجہ میر درد ہے۔ یہ غزل کتاب دیوانِ درد سے ماخوذ کی گئی ہے۔

تعارفِ شاعر :

خواجہ میر درد ؔ کو اردو میں صوفیانہ شاعری کا امام کہا جاتا ہے۔ دردؔ اور تصوف ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم بن کر رہ گئے ہیں۔ دردؔ کے کلام میں تصوف کے مسائل اور صوفیانہ حسّیت کے حامل اشعار کی کثرت ہے لیکن انہیں محض اک صوفی شاعر کہنا ان کی شاعری کے ساتھ نا انصافی ہے۔ میر تقی میرؔ نے، جو اپنے سوا کم ہی کسی کو خاطر میں لاتے تھے، انہیں ریختہ کا “زور آور” شاعر کہتے ہوئے انہیں “خوش بہار گلستان، سخن” قرار دیا۔

(غزل نمبر ۱)

کام مردوں کے جو ہیں، سو وہی کر جاتے ہیں
جان سے اپنی جو کوئی کہ گزر جاتے ہیں

تشریح :یہ غزل شاعر میر درد نے لکھی ہے۔ میر درد اس شعر میں کہتے ہیں کہ مردان حق کہلانے کے مستحق صرف وہی لوگ ہیں جو خداوند تعالیٰ کی راہ میں بے خطر جان کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔دنیا میں بڑے بڑے انقلاب ایسے ہی لوگوں نے برپا کیے جن کے اندر خدا تعالیٰ کی راہ میں چلنے کا حوصلہ ہو۔ یہ لوگ روایت شکن ہوتے ہیں اور ہواؤں کا رخ بدلنے کی قوت رکھتے ہیں۔ ایسے حق پرستوں کو دنیا عزت و تعظیم کی نگاہ سے دیکھتی اور وہ کامیابی بھی حاصل کرتے ہیں۔ میر درد یہاں اسلامی جہاد کا تصور بیان کرتے ہوئے شہادت کے پسِ منظر میں کہہ رہے ہیں کہ سید قطب، سلطان ٹیپو اور شاہ اسماعیل شہید ایسے لوگوں نے ہواؤں کا رخ بدلا۔ یہ عظیم لوگ عالی شان کارنامے کر گئے ہیں اور اپنی زندگی کو بامقصد بنا گئے۔ شہادت کا جام نوش کرنے والے یہ لوگ ہمیشہ کے لیےجاویداں ہو گئے ہیں۔

موت! کیا آکے فقیروں سے تجھے لینا ہے
مرنے سے آگے ہی، یہ لوگ تو مر جاتے ہیں

تشریح : یہ غزل شاعر میر درد نے لکھی ہے۔ میر درد اس شعر میں کہتے ہیں کہ جو لوگ اپنے نفس کو اپنی موت سے پہلے مار دیتے ہیں وہی لوگ کامیابی دوام پاتے ہیں۔ جو لوگ اپنی خواہشات راہ خدا میں قربان کر دیتے ہیں ان کے حصے میں موت سے پہلے آگہی آجاتی ہے۔ پھر جب موت ایسے لوگوں کے سامنے آتی ہے تو ان کے دل میں سوائے شہادت کے کوئی تمنا نہیں ہوتی۔ وہ اپنی زندگی میں ہی اپنی خواہشات مار کر راہ خدا پر چلتے ہیں اس لیے ان کو موت نہیں مارتی بلکہ وہ مر کر امر ہو جاتے ہیں۔ جو زندگی میں ایسے جیا کہ اس کا نفس اس کے قابو میں رہا ، اس کی خؤاہشات بھی نہ ہونے کے برابر تھیں ایسے لوگوں کو موت کیا مارے گی۔

دیدوادید جو ہو جائے، غنیمت سمجھو
جوں شرر ورنہ ہم اے اہل نظر جاتے ہیں

تشریح :یہ غزل شاعر میر درد نے لکھی ہے۔ آپ نے اپنے والد کے بعد سجادہ نشینی اختیار کی تو زندگی کو یکسر بدل دیا۔ اس شر میں وہ اپنی آرزو خدا تعالیٰ کے حضور پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے اللہ! تو ہمارا رب ہے تیری قدرت زمین و آسمان پر ہے۔ تو ہمیں ہر وقت دیکھتا ہے سنتا ہے ہماری دعاؤں کو سنتا ہے ہماری پکار کو سنتا ہے ہمیں راہ دکھاتا ہے مگر میری خواہش ہے کہ جیسے تو ہمیں دیکھتا ہے میں بھی تمہیں ایسے ہی دیکھوں۔ وہ خدا تعالیٰ کی دید کو اپنی زندگی کا حاصل کہتے ہیں۔ ہر انسان کا کوئی نہ کوئی مقصد حیات ہوتا ہے ویسے شاعر کا مقصد بھی رب تعالیٰ کی معرفت و رضا ہے۔

بے ہنر، دشمنی اہل ہنر سے، آکر
منہ پہ چڑھتے تو ہیں، پر جی سے اتر جاتے ہیں

تشریح : یہ غزل شاعر میر درد نے لکھی ہے۔ میر درد اس شعر میں کہتے ہیں کہ جس دور میں ملکی حالات بہتر نہیں تھے ، مغلوں کی سلطنت زوال پزیر تھی، دلی لوٹ مار کا شکار ہو گیا تھا۔ کبھی نادر شاہ تو کبھی احمد شاہ ابدالی حملہ کرتا تھا تو ان جنگوں میں ان بےہنر لوگوں نے دہلی کو جس طرح تباہ کیا وہ سب تاریخ کا حصہ ہے۔ اس تباہی کا قصہ باقی شعراء کرام کے یہاں بھی پایا جاتا ہے۔ وہ اس شعر میں گریا کرتےہوئے کہتے ہیں کہ کیسے بے ہنر لوگوں نے ہنر مندوں کے شہر کو تباہ کر دیا۔ تباہ کرنے والے اہل علم نہ تھے مگر دہلی اہل علم کا گڑھ تھا یہ مقابلہ کس طور ہوا کہ اہل علم کا شہر تباہ کر دیا گیا۔ لوٹ مار کا عمل ماضی کی بری یادیں ہیں وہ کسی طور انسان پر اچھا تاثر نہیں چھوڑ سکتا۔ ان لوٹ مار کرنے والوں سے کسی کو ہمدردی نہیں، تاریخ بھی انھیں برے لفظوں میں یاد کرے گی مگر اہل ہنر و اہل علم کو تاریخ حسین الفاظ سے لکھے گی۔

ہم کس راہ سے واقف نہیں، جوں نورِ نظر
رہنما تو ہی تو ہوتا ہے، جدھر جاتے ہیں

تشریح : یہ غزل شاعر میر درد نے لکھی ہے۔ میر درد اس شعر میں کہتے ہیں کہ ہماری آنکھیں جو منظر ہمیں دکھاتی ہیں ہم وہی دیکھ سکتے ہیں جو مناظر آنکھوں سے اوجھل ہو جاتا ہیں وہ ہم نہیں دیکھ سکتے۔ بے نور انسان راستے سے واقف نہیں ہوتے وہ تو راستا کیا راستے کے نشان کو بھی نہیں دیکھ سکتے۔ ہم بھی کوئی قدم اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف نہیں اٹھا سکتے بلکہ جب تک ہمیں خداوند تعالیٰ کی جانب سے راستہ دکھایا نہ جائے ہم راستے کا تعین نہیں کر سکتے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں راضی بارضا رہنا چاہیے۔ ہماری زندگی میں خداوند تعالیٰ نے جو بڑے مقصد لکھے ہیں وہ شاید ہمیں معلوم نہ ہوں مگر اللہ ان سے واقف ہے۔

آہ! معلوم نہیں، ساتھ سے اپنے شب و روز
لوگ جاتے ہیں چلے، سو یہ کدھر جاتے ہیں

تشریح : یہ غزل شاعر میر درد نے لکھی ہے۔ میر درد اس شعر میں کہتے ہیں کہ کائنات میں انسان کا مقام ہے کیا ، مرنے کے بعد کیا ہوگا؟ یہ ایسے موضوعات ہیں جو ازل سے فلسفہ، صوفیہ اور مفکرین کے زیرِ بحث رہے ہیں۔ انسان کا دنیا میں آنے سے پھر چلے جانے کا سلسلہ ازل سے جاری ہے اور ابد تک رہے گا۔ معلوم حقائق کے باوجود میر درد ایک عمومی سوال اٹھارہے ہیں کہ انسان چار دن کی زندگی کے بعد کہاں چلا جاتا ہے؟ انسان کی منزل کیا ہے؟ تجسس اور تحقیق کا یہ رجحان درد کے ہاں عام ہے۔ چشم تصور سے دیکھیں کہ کروڑوں انسان ازل کے اندھیروں سے نکل آرہے ہیں۔ کچھ دیر یہ قافلہ روشنی میں رہتے ہیں اور پھر ابد کے اندھیروں میں گم ہو رہے ہیں۔ شاعر بھی اسی سوال کو اٹھاتے ہیں کہ ہر روز سیکڑوں لوگ ہمارے درمیان سے چلے جاتے ہیں تو فرشتے انھیں کہاں لے جاتے ہیں۔

تا قیامت نہیں مٹنے کا دل عالم سے
درد ہم اپنے عوض چھوڑے اثر جاتے ہیں

تشریح :یہ غزل شاعر میر درد نے لکھی ہے۔ میر درد اس شعر میں اپنے شاعرانہ اوصاف کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ شاعرانہ خوبی ہے کہ میں اس دنیا سے رخصت ہو جاؤں گا تو اگرچہ میرا جسد خاکی نظر نہیں آئے گا مگر میرا کلام جو میں اس دنیا میں چھوڑ کر جا رہا ہوں وہ نظر آتا رہے گا۔ جو لوگ فن کار ہوں یا ذہین ان کی خدمات کی وجہ سے لوگ انھیں دنیا میں چند دہائیوں تک تو یاد رکھیں گے مگر دنیا سے جانے کے بعد ان کی شہرت ماند پڑھنے لگے گی۔ لوگ اسے یاد رکھتے ہیں جو دین و مذہب کی خدمت کرے، اسے صدیوں نہ بھلایا جائے گا۔ وہ اس مادی دنیا میں زرپرستوں سے کہتے ہیں کہ یہ دنیا دھوکا ہے یہ جلد ختم ہو جائے گی۔ اصل خدمت تو اپنے فن کا مظاہرہ کرنا ہے جو بعد مرگ یاد رکھا جائے گا۔