مناقبِ عمر بن عبدالعزیزؓ

0
  • سبق : مناقبِ عمر بن عبدالعزیزؓ
  • مصنف : علامہ شبلی نعمانی
  • ماخوذ از : مقالاتِ شبلی ، جلد چہارم

حوالہ سبق :

یہ جملہ ہماری بارہویں جماعت کی کتاب کے سبق ”مناقبِ عمر بن عبدالعزیزؓ“ سے لیا گیا ہے۔ اس سبق کے مصنف کا نام ”علامہ شبلی نعمانی“ ہے۔ یہ سبق محمد حسین آزاد کی کتاب ” مقالاتِ شبلی ، جلد چہارم “ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

سیاق و سبق :

اس سبق کے مصنف علامہ شبلی نعمانی مشہور محدث اور عالم دین گزرے ہیں۔ انھوں نے سیدنا عمر فاروق اور عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حالات زندگی پر “سیرت العمرین” کتاب لکھی ہے ۔اس کتاب میں ان کے حالات زندگی میں عدل اور انصاف کا نمایاں پہلو بتایا گیا ہے۔
مصنف بتاتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز کے وصال کے بعد ان کی ملکیت میں سترہ دینار تھے۔ کفن دفن کے معاملات کے بعد دس دینار بچے جو لواحقین میں تقسیم ہوئے۔ مصنف نے لکھا ہے کہ آپ کی حکومت اسلامی طزر حکومت کا بہترین نمونہ ہے۔ یہ سبق آپ کی کتاب ”مقالاتِ شبلی ، جلد چہارم“ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

خلاصہ :

اس سبق میں مصنف لکھتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز کی خدمت میں ایک شخص آیا جس نے اپنی جاگیر کا حق مانگا۔ آپ نے تفتیش کی جس پر معلوم ہوا کہ یہ ناحق زمین ہتھالی گئی ہے۔ جس پر عیسائی نے انصاف طلب کیا اور اللہ کی تحریر قرآن مجید کے مطابق فیصلہ چاہا۔ آپ نے انصاف فرمایا اور عیسائی کو جاگیر واپس دلوا دی۔

مصنف لکھتے ہیں کہ وہ اپنے معاملات میں خدا کا خوف رکھتے تھے۔ ایک بار ان کے خاندان والوں نے آپ کی پھوپھی ام عمر کو سفارش کی غرض سے بھیجا جس پر آپ نے فرمایا :
”عمر قیامت کےعلاوہ کسی دن سے نہیں ڈرتا۔“
جاگیر کا معاملہ علماء کی ہدایت پر حل کیا اور آپ ہمیشہ اپنے ساتھ دو راست باز رکھتے تھے، جو آپ کی اصلاح کا کام انجام دیتے تھے۔

مصنف بتاتے ہیں کہ آپ نے انصاف کے معاملہ میں اپنے خاندان والوں کو بھی مستثنٰی نہ کیا، ابن سلیمان سے بھی عدل کی بنا کر جاگیر لے لی تھی۔آپ سب لوگوں کو ترجیح دیتے تھے اور لوگوں میں آزادی اظہار رائے کو عام کرنا چاہتے تھے۔

آپ کی منصفانہ طبیعت ہی تھی کہ آپ نے اپنے مدفن کی زمین خود پسند کی اور عیسائی کو اس کی رقم ادا کی۔ آپ نے اپنے خلافت کے دور میں اسلام کا نظام نافذ کرنے کی بھرپور کوشش کی جس کا صلہ دنیا و آخرت دونوں میں آپ کو ملے گا۔

مصنف علامہ شبلی نعمانی عمر بن عبدالعزیز کی عادت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ آپ قرآن و حدیث کے پیروکار تھے۔ جہاں بھی فیصلہ کیا غیر جانبداری سے کسی کا ڈر دل میں لائے بغیر کیا۔جتنے فیصلے کیے وہ قرآن و حضور اطہرﷺ کی حیات مبارکہ کی روشنی میں کیے۔

مصنف لکھتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز کا نظام حکومت جمہوری تھا جس میں بادشاہ کے مزاج و منشا کی پرواہ کیے بغیر لوگ بے باکی سے ہر بات کہہ سکتے تھے۔ رعایا کو آزادی رائے اظہار کا پورا پورا حق تھا۔ ان کی تعلیم مساوات کی تعلیم تھی جو کہ اسلام کا حسن ہے۔ آپ کے حسن سلوک سے غیر مسلم بھی متاثر تھے۔ وہ خود بھی لوگوں سے حسن سلوک فرماتے اور اس کی دعوت بھی دیتے تھے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز عام لوگوں میں اٹھتے بیٹھتے، عام سا لباس زیب تن کرتے اور وہیں عام مسلمانوں میں بیٹھ کر سادہ کھانا کھاتے تھے۔

سوال 1 : مندرجہ ذیل جملوں کی وضاحت کیجیے (جواب تین سطروں سے زیادہ نہ ہو) :

الف : “مذہبی حیثیت سے ان کو ‘عمر ثانی رض’ کا لقب دیا گیا ہے۔”

وضاحت : مذہبی حیثیت سے ان کو ‘عمر ثانی’ کا لقب اس لیے دیا گیا کہ وہ انتہائی متقی اور انصاف پسند تھے۔ عمر بن عبدالعزیز کے غیر مذہب لوگوں سے معاملات اسلام کا اصل روپ دکھاتا تھا۔ جس کی وجہ سے لوگ ان سے کافی متاثر ہوتے تھے اور اسی لیے ان کو عمر ثانی کا لقب دیا گیا۔

ب : “ان کا ایک کارنامہ جو نہایت قابلِ قدر ہے، سلاطین بنی امیہ کی ناجائز کارروائیوں کا مٹانا تھا۔”

وضاحت : عمر بن عبدالعزیز سے قبل جو سلاطین بنی امیہ نے لوگوں کی جاگیر سے ناحق آپس میں تقسیم کر رکھا تھا۔ اقرابا پروری کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو ان کی حق تلفی ہوئی جس کا مداوا عمر بن عبدالعزیز نے تخت سنبھالتے ہی کیا۔ لوگوں کو ان کی زمینیں واپس کروائیں جو کہ ان کا قابلِ قدر کارنامہ ہے۔

ج : “لوگ نہایت بےباکی سے ان کے اقوال و افعال پر نکتہ چینی کرتے تھے۔”

وضاحت : عمر بن عبدالعزیز سے قبل سلاطین بنی امیہ نے لوگوں سے اظہار رائے کا حق چھین رکھا تھا۔ عمر بن عبدالعزیز نے آکر روایت شکنی کی، انھوں نے اپنے ساتھ دو راست باز شخص مقرر کر رکھے تھے جو ان کی کسی قسم کی غلطی پر ٹوک دیتے۔ اس طرح لوگوں میں یہ حوصلہ پیدا ہو گیا اور وہ آپ پر بےباکی سے نکتہ چینی کرنے لگے۔

د : “عمر بن عبدالعزیز کی حکومت و سلطنت کا اصل اصول مساوات اور جمہوریت تھا۔”

وضاحت : عمر بن عبدالعزیز کا نظامِ حکومت مثالی تھا جو اسلام کا طرز حکومت ہے۔ انھوں نے ہر عام و خاص کو برابری کا درجہ دیا۔ سب لوگوں کو یکساں حقوق اور ترجیح دی جو کہ ایک اسلامی جمہوری نظام کی آئینہ دار ہے۔

سوال 2 : درج ذیل محاورات کو اپنے جملوں میں استعمال کیجیے :

خدا لگتی کہنا میں تو خدا لگتی کہوں گا سارا قصور اکبر کا ہے۔
دست بردار ہونا ہمیں آپسی لڑائیوں سے دست بردار ہو کر بھائی چارے کی مثال قائم کرنی چاہئے۔
روک ٹوک کرنا نوجوانوں پر زیادہ روک ٹوک کرنا بھی کسی مسئلہ کا حل نہیں۔
زبان بند ہونا صدمہ کی حالت میں زبان بند ہونا عام بات ہے۔
نکتہ چینی کرنا کبڈی کے میدان میں شائقین کم اور نکتہ چینی کرنے والے زیادہ ہوتے ہیں۔
دست و بازو ہونا بڑھاپے کی حالت میں اولاد کا دست و بازو ہونا ہی ہزار نعمت ہے۔

سوال 3 : سبق کے حوالے سے لفظ کی مدد سے خالی جگہ پر کیجیے :

الف۔ عمر بن عبدالعزیز مذہب کی ۔۔۔۔۔۔ تھے۔

  • ٭عملی تصویر
  • ٭مجسم تصویر (✓)
  • ٭مکمل تصویر

ب۔ دو نہایت ۔۔۔۔۔۔ شخص اس کام پر مقرر کیے۔

  • ٭متدین اور راست باز (✓)
  • ٭نیک اور پارسا
  • ٭پڑھے لکھے

ج۔ امیر المومنین! میں خدا کی تحریر ۔۔۔۔۔ کے مطابق فیصلہ چاہتا ہوں۔

  • ٭انجیل
  • ٭توریت
  • ٭قرآن مجید (✓)

د۔ عمر بن عبدالعزیز نے جب وفات پائی تو کل ۔۔۔۔۔۔دینار چھوڑے۔

  • ٭سترہ (✓)
  • ٭ستر
  • ٭سترہ ہزار

ہ۔ عمر بن عبدالعزیز نے کہا، میں قیامت کے سوا اور کسی ۔۔۔۔۔ سے نہیں ڈرتا۔

  • ٭دن (✓)
  • ٭شخص
  • ٭بات

سوال 4 : سیاق و سباق کے حوالے سے مندرجہ ذیل اقتباسات کی تشریح کیجیے :

الف۔ ان کا ایک اور کارنامہ ۔۔۔۔۔۔ اس کی کچھ پروا نہ تھی۔

حوالہ سبق :

یہ جملہ ہماری بارہویں جماعت کی کتاب کے سبق ”مناقبِ عمر بن عبدالعزیزؓ“ سے لیا گیا ہے۔ اس سبق کے مصنف کا نام ”علامہ شبلی نعمانی“ ہے۔ یہ سبق محمد حسین آزاد کی کتاب ” مقالاتِ شبلی ، جلد چہارم “ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

سیاق و سبق :

اس سبق کے مصنف علامہ شبلی نعمانی مشہور محدث اور عالم دین گزرے ہیں۔ انھوں نے سیدنا عمر فاروق اور عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حالات زندگی پر “سیرت العمرین” کتاب لکھی ہے ۔اس کتاب میں ان کے حالات زندگی میں عدل اور انصاف کا نمایاں پہلو بتایا گیا ہے۔
مصنف بتاتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز کے وصال کے بعد ان کی ملکیت میں سترہ دینار تھے۔ کفن دفن کے معاملات کے بعد دس دینار بچے جو لواحقین میں تقسیم ہوئے۔ مصنف نے لکھا ہے کہ آپ کی حکومت اسلامی طزر حکومت کا بہترین نمونہ ہے۔ یہ سبق آپ کی کتاب ”مقالاتِ شبلی ، جلد چہارم“ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

تشریح :

حضرت عمر بن عبدالعزیز آٹھویں امیہ خلیفہ تھے۔ بنو امیہ قریش کے قبیلوں میں سے ایک بڑا قبیلہ ہے۔ بنو امیہ کی داغ بیل حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ڈالی وہ اسلام کے پہلے بادشاہ تھے جن کے بعد خلافت ملوکیت میں بدل گئی اور کافی وقت تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ امیہ کےتمام سلاطین کی تعداد چودہ ہے۔ اموی سلاطین نے اقتدار حاصل کرنے کے بعد لوگوں کی جاگیریں جو کاشت کاری کے لیے تھیں پر قبضہ کرنا چروع کر دیا جو اپنے خاندان کے لوگوں میں تقسیم کر دیں۔ جیسے تیموری سلاطین کی غفلت اور باقاعدہ اصولوں کی پاسداری نہ کرنے پر حکومت چھن گئی ایسے ہی اموی سلاطین سے خلاف شریعت کام کرنے سے حکومت چھین گئی۔

حضرت عمر بن عبدالعزیز کا خلافت کے منصب پر بیٹھتے ہی تھا کہ انصاف کا بول بالا ہو گیا۔ چاروں اور ان کے منصفانہ طبیعت کی دھوم مچ گئی۔ آپ نے لوگوں کو ان کی جاگیزیں واپس کیں۔ اس فیصلہ کرنے میں نا صرف حکم دیا بلکہ اس پر عمل درآمد بھی کروایا آپ نے اپنے گھر والوں کا ڈر بھی اپنے دل سے بالکل نکال دیا تھا۔ آپ خلافت سے پہلے نہایت خوش لباس تھے۔ مگر منصب خلافت پر فائز ہوتے ہی آپ نے سادہ زندگی اختیار کر لی۔ آپ کے اسلامی اصولوں کو راسخ کرنے کے ان اقدام کو دیکھ کر بنو امیہ آپ کے دشمن کے طور پر سامنے آئی جو قومی مفادات پر ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے تھے۔ تاریخ نے یہ منظر اپنے صفحات پر محفوظ رکھا ہے کہ خلیفہ عمر بن عبدالعزیز نے تمام جاگیروں کی سندیں لوگوں کے سامنے کتر کتر کر پھینک دیں۔

ب۔ بنوامیہ کے دفتر اعمال میں۔۔۔۔۔نکتہ چینی کرتے تھے۔

حوالہ سبق :

یہ جملہ ہماری بارہویں جماعت کی کتاب کے سبق ”مناقبِ عمر بن عبدالعزیزؓ“ سے لیا گیا ہے۔ اس سبق کے مصنف کا نام ”علامہ شبلی نعمانی“ ہے۔ یہ سبق محمد حسین آزاد کی کتاب ” مقالاتِ شبلی ، جلد چہارم “ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

سیاق و سبق :

اس سبق کے مصنف علامہ شبلی نعمانی مشہور محدث اور عالم دین گزرے ہیں۔ انھوں نے سیدنا عمر فاروق اور عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حالات زندگی پر “سیرت العمرین” کتاب لکھی ہے ۔اس کتاب میں ان کے حالات زندگی میں عدل اور انصاف کا نمایاں پہلو بتایا گیا ہے۔
مصنف بتاتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز کے وصال کے بعد ان کی ملکیت میں سترہ دینار تھے۔ کفن دفن کے معاملات کے بعد دس دینار بچے جو لواحقین میں تقسیم ہوئے۔ مصنف نے لکھا ہے کہ آپ کی حکومت اسلامی طزر حکومت کا بہترین نمونہ ہے۔ یہ سبق آپ کی کتاب ”مقالاتِ شبلی ، جلد چہارم“ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

تشریح :

حضرت عمر بن عبدالعزیز آٹھویں امیہ خلیفہ تھے۔ بنو امیہ قریش کے قبیلوں میں سے ایک بڑا قبیلہ ہے۔ بنو امیہ کی داغ بیل حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ڈالی وہ اسلام کے پہلے بادشاہ تھے جن کے بعد خلافت ملوکیت میں بدل گئی اور کافی وقت تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ پھر بعد وقت بعد عمر بن عبدالعزیز جیسی شخصیت نے تخت سنبھالا اور سلطنت کو اسلامی قوانین پر چلانے کی بھرپور کوشش کی جس میں وہ بہت حد تک کامیاب بھی ہوئے۔ سلاطین امیہ جو آمریت اور ملوکیت کے طرز کی حکومتیں کرتے تھے انھوں نے خلافت کے پاکیزہ ادارے کو بادشاہت میں تبدیل کرکے ہر غیر شریعت کام کو اپنایا۔ لوگوں سے ان کی زمینیں چھین لیتے اور حق تلفی کرتے حق گوئی پر سختی سے پابندی لگا رکھی تھی۔ یہی اسباب امیہ سلاطین کی پستی کا سبب بنے۔ پھر عمر بن عبدالعزیز جیسے نڈر خلیفہ نے تحت سنبھالا اور سارے غیر شریعی کاموں سے روک دیا۔ لوگوں کو ان کی زمینیں واپس کروائی ان کو آزادی اظہار رائے کی مکمل آزادی دی اور مملکت کو اسلامی اصولوں پر چلایا۔ جس سے لوگوں میں حوصلہ پیدا ہوا اور وہ کوئی بات کہتے جھجھکتے نہیں تھے۔ یہ صحیح معنوں میں اسلامی جمہوریت کا آغاز تھا۔ آپ کی بدولت اس جمہوری نظام کو تقویت ملی۔

ج۔ عمر بن عبدالعزیز کی حکومت ۔۔۔۔۔ عام مسلمانوں کے ساتھ کھا لیتے تھے۔

حوالہ سبق :

یہ جملہ ہماری بارہویں جماعت کی کتاب کے سبق ”مناقبِ عمر بن عبدالعزیزؓ“ سے لیا گیا ہے۔ اس سبق کے مصنف کا نام ”علامہ شبلی نعمانی“ ہے۔ یہ سبق محمد حسین آزاد کی کتاب ” مقالاتِ شبلی ، جلد چہارم “ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

سیاق و سبق :

اس سبق کے مصنف علامہ شبلی نعمانی مشہور محدث اور عالم دین گزرے ہیں۔ انھوں نے سیدنا عمر فاروق اور عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حالات زندگی پر “سیرت العمرین” کتاب لکھی ہے ۔اس کتاب میں ان کے حالات زندگی میں عدل اور انصاف کا نمایاں پہلو بتایا گیا ہے۔
مصنف بتاتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز کے وصال کے بعد ان کی ملکیت میں سترہ دینار تھے۔ کفن دفن کے معاملات کے بعد دس دینار بچے جو لواحقین میں تقسیم ہوئے۔ مصنف نے لکھا ہے کہ آپ کی حکومت اسلامی طزر حکومت کا بہترین نمونہ ہے۔ یہ سبق آپ کی کتاب ”مقالاتِ شبلی ، جلد چہارم“ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

تشریح :

مصنف علامہ شبلی نعمانی عمر بن عبدالعزیز کی عادت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ آپ قرآن و حدیث کے پیروکار تھے۔ جہاں بھی فیصلہ کیا غیر جانبداری سے کسی کا ڈر دل میں لائے بغیر کیا۔جتنے فیصلے کیے وہ قرآن و حضور اطہرﷺ کی حیات مبارکہ کی روشنی میں کیے۔

مصنف لکھتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز کا نظام حکومت جمہوری تھا جس میں بادشاہ کے مزاج و منشا کی پرواہ کیے بغیر لوگ بے باکی سے ہر بات کہہ سکتے تھے۔ رعایا کو آزادی رائے اظہار کا پورا پورا حق تھا۔ ان کی تعلیم مساوات کی تعلیم تھی جو کہ اسلام کا حسن ہے۔ آپ کے حسن سلوک سے غیر مسلم بھی متاثر تھے۔ وہ خود بھی لوگوں سے حسن سلوک فرماتے اور اس کی دعوت بھی دیتے تھے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز عام لوگوں میں اٹھتے بیٹھتے، عام سا لباس زیب تن کرتے اور وہیں عام مسلمانوں میں بیٹھ کر سادہ کھانا کھاتے تھے۔