اکبری کی حماقتیں

0

سوال 4 : اس سبق کا خلاصہ اپنے الفاظ میں بیان کیجیے :

تعارفِ سبق : سبق ”اکبری کی حماقتیں“ کے مصنف کا نام ”ڈپٹی نذیر احمد“ ہے۔ آپ اردو ادب کے پہلے ناول نگار ہیں۔ یہ سبق اردو ادب کے پہلے ناول ”مراۃ العروس“ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

تعارفِ مصنف :

شمس العلماء، خان بہادر مولانا نذیر احمد ضلع بجنور ہندوستان میں ۱۸۳۱ء میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں سے حاصل کی، پھر تعلیم کا شوق آپ کو دلی لے آیا۔ یہاں آپ مولوی عبدالخالق کے حلقہ درس میں داخل ہوئے۔ دلی کالج سے آپ نے ادب، عربی، فلسفہ اور ریاضی کی تعلیم حاصل کی اور آپ نے اپنی ذاتی محنت اور کوشش سے انگریزی کی تعلیم بھی حاصل کی۔ آپ نے ملازمت کا آغاز ضلع گجرات پنجاب سے مدرس کی حیثیت سے کیا۔ بعد میں ترقی کرکے انسپیکٹر مدارس ہوگئے، پھر تحصیلدار اور بعد ازاں افسر بندوبست ہوئے۔ اس کے بعد ریاست حیدرآباد چلے گئے۔ ریٹائر ہونے کے بعد آپ نے دلی میں آکر باقی زندگی تصنیف و تالیف میں بسر کی۔ نذیر احمد کو اردو کا پہلا ناول نگار کہا جاتا ہے۔ ڈپٹی نذیر احمد نے ساتھ ناول لکھے جن ”مراۃالعروس، بنات النعش، توبۃالنصوح، ابن الوقت“ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ آپ کا انتقال ۱۹۱۲ء میں ہوا۔

خلاصہ :

اس سبق میں مصنف بتاتے ہیں کہ اکبری ایک بدسلیقہ اور کم عقل لڑکی تھی جو سسرال سے الگ ہو کر اپنے خاوند کے ساتھ الگ گھر میں رہتی تھی۔ اسی زمانے میں ایک کٹنی کا بڑا چرچا تھا جو سادہ لوح خواتین کو اپنے جال میں پھانس کر فریب دیتی۔ اکبری کو خاوند نے تنبیہ کر رکھی تھی کہ گھر میں کسی نامعلوم عورت کو آنے کی اجازت نہ دینا۔

ایک دن کٹنی حجن کے روپ میں گلی میں آئی اور عورتوں کو تبرکات سے فریب دینے لگی۔ اکبری کم عقل تھی جس وجہ سے اس نے ملازمہ زلفن کو بھیج کر حجن کو گھر میں بلا لیا۔ حجن چونکہ جھانسا دینے میں یدطولیٰ رکھتی تھی، دیکھتے ہی اکبری کی سادہ لوحی پہچان گئی کہ یہ آسانی سے بہکاوے میں آجائے گی۔حجن نے اکبری کو چند چیزیں سستے داموں بیچ دیں اور تحفے بھی دے دیئے۔ اکبری اس کی نوازش پر پھولے نہ سمائی۔ حجن نے دو روپے والا ازار بند اسے 4 آنے میں فروخت کردیا۔

اکبری کے ہاں اولاد نہ تھی حجن نے اسےتعویذ لاکر دینے کا وعدہ کر دیا۔ پھر حجن نے بھوپال کی بلقیس جہاں بیگم کا سفر حج کا قصہ ایسے رقت انگیز پیرائے میں بیان کیا کہ اکبری کا دل پگھل گیا۔اکبری نے حجن سے خریدی ہوئی چیزیں شوہر کو نمائش کرکر کے دکھائیں۔ سستی چیزیں دیکھ کر محمد عاقل بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہا۔ اگلے روز حجن پھر آئی اور موتیوں کی ایک جوڑی لائی، اکبری کو وہ موتی بھاگئے۔ مگر قیمت نہ ہونے کی وجہ سے حجن نے اسے اکسایا تو اکبری لالچ میں زیوارات کا صندوقچہ اٹھا لائی۔

حجن نے زیورات دیکھے جو میلے ہو رہے تھے۔ چنانچہ اس نے اکبری کو زیوارت دھلوانے اور ڈورا ڈلوانے کا مشورہ دیا۔ اکبری نے شوہر کی مصروفیت کا شکوہ کیا تو حجن نے موقع کا فائدہ اٹھا کر اپنی خدمات پیش کر دیں۔ اکبری مان گئی اور احتیاطً زلفن کو ساتھ روانہ کیا۔ حجن زرا دیر چلنے کے بعد رکی اور ناک کی نکیل گھر رہ جانے کا عذر کرکے زلفن کو نکیل لانے کے لیے گھت بھیج دیا۔ زلفن جب گھر آئی تو اکبری اسے دیکھ کر حیرت کے سمندر میں ڈوب گئی۔ حجن اس دوران وہاں سے غائب ہو گئی ، اکبری نے زلفن کو ہر جگہ دوڑایا مگر معلوم ہوا کہ وہ تو محلے کے اور بھی کئی گھروں کو چکمہ دے کر فرار ہو چکی ہے۔

محمد عاقل کو معاملہ کی خبر ہوئی تو میاں بیوی میں خوب لڑائی ہوئی۔ اکبری کے جہیز کے کپڑے دیمک اور چوہوں کی نذر ہو گئے تھے۔ گھر کے قیمتی برتن چوری ہو چکے تھے۔ اس طرح محمد عاقل کا گھر اکبری کی بدسلیقی اور پھوہڑپن کی وجہ سے برباد ہو گیا۔

سوال 1 : مختصر جواب دیجیے :

الف۔ کٹنی نے اکبری کو پھانسنے کے لیے اسے کن کن تبرکات کی زیارت کروائی اور اکبری نے کن دو چیزوں کو پسند کیا؟

جواب : کٹنی نے اکبری کو پھانسنے کے لیے خاک شفا، مدینہ منورہ کی کھجوریں، تسبیح، خاک شفا، کوہ طور کا سرمہ، عقیق البحرم ، پنج سورہ اور خانہ کعبہ کے غلاف کا ٹکڑا دکھایا۔

ب۔ اکبری نے دوروپے والا ازار بند چار آنے میں خریدا تو محمد عاقل نے اسے کی حوصلہ افزائی کیوں کی؟

جواب : اکبری نے دو روپے والا ازار بند چار آنے میں خریدا تو محمد عاقل نے اس کی حوصلہ افزائی اس لیے کی کہ محمد عاقل لالچ میں آگیا تھا۔

ج۔ کٹنی نے اکبری سے اس کا سارا زیور کس بہانے سے ہتھیا لیا؟

جواب : کٹنی نے اکبری سے اس کا سارا زیور دھگدگی میں ڈور ڈلوانے اور اجلوانے کے بہانے ہتھیا لیا تھا۔

د۔ کٹنی نے زلفن کو کیا کہہ کر واپس گھر بھیج دیا؟

جواب : کٹنی نے زلفن کو یہ کہہ کر واپس بھیج دیا کہ اس کی ناک کی کیل پان دان کے ڈھکنے پر رہ گئی ہے وہ اسے اٹھا لائے۔

ہ۔ کٹنی نے اکبری کے علاوہ اور کس کس کو اپنے جال میں پھنسایا؟

جواب : کٹنی نے اکبری کے علاوہ احمد بخش خان کی بیوی اور میاں مسیتا کی بیٹی کو اپنے جال میں پھنسایا تھا۔

و۔ اکبری نے اپنے جہیز کے کپڑوں کا ستیاناس کیسے کیا؟

جواب : اکبری نے اپنے جہیز کے کپڑوں کا یوں ستیاناس کیا کہ اکبری نے جس کوٹھڑی میں اپنے جہیز کے کپڑے رکھے تھے وہ برسات میں وہیں پڑے رہے، اسے دیمک چاٹ گئی اور چوہوں نے کتر دیا۔

سوال 2 : کٹنی نے اکبری کو بھوپال کی بیگم کا جو خودساختہ واقعہ سنایا ، اسے اپنے الفاظ میں بیان کیجیے۔

جواب : کٹنی نے بتایا کہ بلقیس جہاں بیگم کو اللہ نے سب کچھ دے رکھا تھا۔ نوکر ، چاکر ،غلام، پالکی نالکی سب کچھ تھا۔ ایک تو اولاد کی طرف سے رنجیدہ رہتی تھی۔ بیگم کو فقیروں پر پرلے درجے کا اعتقاد تھا۔ ایک مرتبہ شاہ صاحب نے آنکھ اٹھا کر دیکھا، فرمایا کہ جامائی رات کو حکم ملے گا۔ بیگم کو خواب میں حکم ہوا کہ حج پر جاؤ اور مراد کا موتی سمندر سے نکال لاؤ۔ صبح کو اٹھ کر حج کی تیاریاں ہونے لگیں۔ پانسو مسکین بیگم نے اپنی طرف سے کرایہ دے کر ساتھ سوار کیے۔ مجھ سے خاص محبت کرتی تھیں۔ کوہ حبشہ کے مقام پر جہاز لنگر انداز کیا گیا اور پہاڑ پر موجود بزرگ کے پاس کشتی کے ذریعے گئے۔ شاہ صاحب نے نظر بھر کر دیکھا اور بات جان گئے ، بیگم کو بارہ لونگیں دیں اور کہا چلی جا، دلی آگرے کے لوگوں کے کام بنا۔ میرے ہوتے ہوئے بیگم صاحبہ کے چار بیٹے ہو چکے تھے۔

سوال 3 : آپ کے خیال میں اکبری سے کون کون سی حماقتیں سرزد ہوئیں؟َ

جواب : اکبری سے بے شمار حماقتیں سرزد ہوئیں۔
اکبری نے محمد عاقل کی تنبیہ کو ہوا میں اڑا دیا اور کٹنی کو گھر پیغام دے کر بلا لائی۔ اکبری نے حجن پر بہت جلدی بھروسا کر لیا جو بعد میں اس کے لیے گراں گزرا۔ اکبری نے زیورات حجن کے ہاتھ دے دیئے جو اس کی سب سے بڑی حماقت تھی۔

سوال 5 : جاہل اور کمزور ایمان کے لوگ عموماً توہم پرست ہوتے ہیں۔ سبق میں توہم پرستی کی چند مثالیں موجود ہیں۔ ان میں سے دو کی نشاندہی کیجیے اور انھیں اپنے الفاظ میں بیان کیجیے۔

جواب :
1 : تعویذ کی مدد سے اولاد کی بندش کو کھولنا۔
2 : لونگوں کے بدلے مرادیں پوری ہونا۔

سوال 6 : درج ذیل محاورات کو اپنے جملوں میں اس طرح استعمال کیجیے کہ ان کا مفہوم واضح ہو جائے:

ڈھب پر چڑھنا بس ایک بار وہ ڈھب پر چڑھ جائے پھر میں اس سے سارے راز اگلوا لوں گا۔
ریجھ جانا اسلم نوکری کے چکر میں اپنے باس کے سامنے ریجھ چکا ہے۔
آہ کھینچنا وہ حالتِ غم میں مسلسل آہ کھینچ رہے ہیں۔
لوٹ ہوجانا اسد اس پر لوٹ ہو گیا ہے ، ہر وقت اس کے گُن گاتا رہتا ہے۔
چاٹ لگنا اسے تو جیسے بنگالی کھانوں کی چاٹ لگ گئی ، اور کچھ کھاتا ہی نہیں۔
لٹو ہوجانا ان کی خوبصورتی دیکھ کر ہم بھی ان پر لٹو ہوگئے ۔
ماتھا ٹھنکنا آخر کار سب کے عجیب رویے دیکھ کر اس کا ماتھا ٹھنکنا شروع ہوگیا۔
سر کو پیٹنا حالتِ غم میں وہ متواتر سر کو پیٹتے اور سینہ کوبی کرتے رہے۔
گھر کو خاک سیاہ کرکے چھوڑنا چوری کی لت میں نوجوان نے گھر کو خاک سیاہ کرکے چھوڑ دیا۔
اڑا لینا وہ دن گئے جب خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے تھے۔

سوال 7 : درج ذیل جملوں کی وضاحت کیجیے :

الف۔حجن نے مزاج دار کو باتوں ہی باتوں میں تاڑ لیا کہ وہ عورت جلد ڈھب پر چڑھ جائے گی۔

جواب : حجن نے اکبری کی سادہ لوحی اور احمقانہ طبیعت کو پہچان کر سمجھ لیا کہ اس پر زیادہ کام نہیں کرنا پڑے گا، یہ بنی بنائی احمق ہے جو جلدی ہی اس کے جال میں پھنس جائے گی۔

ب۔ اپنے قد کے برابر ایک کلا وہ مجھ کو ناپ دو، میں تم کو ایک گنڈا بنوا لا دوں گی۔

جواب : حجن نے اس کے من میں یہ توہمات بھر دیں تھیں کہ اکبری کی اولاد بندش کی وجہ سے نہیں ہو رہی وہ اسے تعویذ لا کر دے گی۔

ج۔ ایک ہی برس میں ہاتھ کان سے ننگی رہ گئی۔

جواب : ابھی اکبری کی شادی کو ایک برس گزرا تھا کہ اس کے کپڑے چوہے کتر گئے اور دیمک کی نذر ہو گئے ، اس کے سارے زیوارت حجن ٹھگ کر لے گئی تھی اس لیے اب وہ کانوں اور ہاتھوں میں زیور پہننے سے محروم تھی۔

د۔ کہیں کی بہتی بہاتی مہینے بھر سے کرائے پر آکر رہی تھی۔

جواب : کٹنی کے بارے میں جب معلومات حاصل کی تو پتہ چلا کہ وہ تو ایک مہینہ پہلے ہی یہاں رہنے آئی تھی۔

ہ۔ حجن کا سراغ نہ ملا پر نہ ملا۔

جواب : حجن جب اکبری کے زیورات اور محلہ کی باقی عورتوں کو ٹھگ کر غائب ہوئی تو چاروں طرف ڈھونڈنے کے باوجود حجن کا کوئی نشان نہ ملا۔

سوال 8 : درج ذیل اقتباسات کی سیاق و سباق کے حوالے سے تشریح کیجیے :

  • الف : طمع ایسی چیز ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حجن کوئی ٹھگنی نہ ہو۔

سیاق و سباق :

مصنف نذیر احمد بتاتے ہیں کہ اکبری ایک احمق اور پھوہڑ لڑکی ہے جو ایک کٹنی کو حجن سمجھ کر اس کے جال میں پھنس گئی۔ کٹنی جب حجن کے بھیس میں گلی میں آئی تو محمد عاقل کی تنبیہ کو پس پشت ڈال کر اسے گھر میں داخل کر لیا۔ حجن نے مزاج دار کو دیکھتے ہی احمق اور کم عقل سمجھ لیا تھا۔ حجن نے من گھڑت کہانی سنا کر اسے توہمات میں الجھا دیا۔

مصنف نے آگے لکھا ہے کہ اکبری کو ایک دن دھوکا دے کر کٹنی نے اس کا زیور ہتھیا لیا اور وہاں سے غائب ہو گئی۔ اکبری کی نانی کے اکبری سے بےجا لاڈ پیار نے اسے بگاڑ دیا تھا ، جس وجہ سے وہ گھر داری نہ سیکھ سکی جس کے نتیجہ میں وہ بےوقوف ایک ہی سال میں ہاتھ کان سے ننگی ہو گئی اور گھر کا مال خاک میں ملا دیا۔

تشریح :

ڈپٹی نذیر احمد اردو ادب میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ ان کے ناول اصلاحی پہلو کی وجہ سے نمایاں ہیں۔ مصنف ڈپٹی نذیر احمد لکھتے ہیں کہ اکبری خاصی احمق اور پھوہڑ تھی۔ شادی کے چند ہفتوں میں سسرال سے لڑ جھگڑ کر اپنے شوہر کے ساتھ الگ گرائے کے گھر میں رہنے لگی۔ اسی زمانے میں ایک کٹنی کی ڈکیتیوں کی خبریں گردش کررہی تھیں۔ محمد عاقل نے اکبری کو تنبیہ کی کہ گھر میں کسی نامعلوم عورت کو داخل نہ ہونے دینا۔

ایک دن وہی مشہور کٹنی حجن کے روپ میں گلی میں آئی تو لوگوں کو تبرکات دکھا دکھا کر بہلانے لگی۔ اکبری تک جب حجن کا چرچا پہنچا تو اس نے اپنی ملازمہ زلفن کو بھیج کر اسے گھر بلا لیا۔ حجن نے پہلے ہی دیکھ کر سمجھ لیا کہ اکبری نہایت احمق اور پوہڑ ہے۔ حجن نے اسے پہلے سستے داموں چیزیں فروخت کرکے اپنے جال میں پھنسایا۔ حجن نے اسے تحفے بھی دیئے جس سے اکبری اس کی اور گرویدہ ہو گئی۔ حجن نے اکبری سے اس کی اولاد کے متعلق پوچھا اور پھر ایک من گھڑت واقعہ اسے سنایا۔ اکبری کی اس وقت انگیز واقعہ سننے کے بعد حجن سے عقیدت اور بڑھ گئی۔ حجن نے اکبری کو لونگ دیئے اور کچھ عمل کرنے کو کہا جس سے شوہر کی محبت کا حصول متوقع تھا۔

اکبری نے سستی چیزیں جو خریدی تھیں محمد عاقل کو دیکھائیں جو طمع کی زد میں آگیا تھا۔عاقل سمجھ دار اور دانا شخص تھا مگر وقتی طور پر اپنے فائدے کو دیکھ کر خوش ہو گیا تھا۔حجن کہہ گئی تھی وہ آج کے بعد سب سے پہلے سامان اکبری کو فروخت کرے گی، اسی فائدے کو دیکھتے ہوئے محمد عاقل نے رضا مندی کا اظہار کیا کہ سامان ضرور دیکھنا چاہئے۔ حالانکہ عقل مندی کا تقاضا تھا وہ اس سامان کو واپس کروا دیتا۔ کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ چوری کا مال ہو بعد میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے اور اسے یہ بھی احتیاط کرنی چاہیے تھی کہ حجن کوئی ٹھنگنی نہ ہو۔

  • ب۔ اکبری کو نانی کے لاڈ پیار نے ۔۔۔۔۔۔ ہاتھ کان سے ننگی رہ گئی۔

سیاق و سباق :

مصنف نذیر احمد بتاتے ہیں کہ اکبری ایک احمق اور پھوہڑ لڑکی ہے جو ایک کٹنی کو حجن سمجھ کر اس کے جال میں پھنس گئی۔ کٹنی جب حجن کے بھیس میں گلی میں آئی تو محمد عاقل کی تنبیہ کو پس پشت ڈال کر اسے گھر میں داخل کر لیا۔ حجن نے مزاج دار کو دیکھتے ہی احمق اور کم عقل سمجھ لیا تھا۔ حجن نے من گھڑت کہانی سنا کر اسے توہمات میں الجھا دیا۔

مصنف نے آگے لکھا ہے کہ اکبری کو ایک دن دھوکا دے کر کٹنی نے اس کا زیور ہتھیا لیا اور وہاں سے غائب ہو گئی۔ اکبری کی نانی کے اکبری سے بےجا لاڈ پیار نے اسے بگاڑ دیا تھا ، جس وجہ سے وہ گھر داری نہ سیکھ سکی جس کے نتیجہ میں وہ بےوقوف ایک ہی سال میں ہاتھ کان سے ننگی ہو گئی اور گھر کا مال خاک میں ملا دیا۔

تشریح :

یہ ناول مصنف ڈپٹی نذیر احمد نے عورتوں کے امور خانہ اور حسن اتنظامی کی اصلاح کے لیے لکھا ہے۔ اکبری اور اصغری دو بہنیں تھیں۔ اکبری مزاج کی پھوہڑ اور نہایت احمق تھی۔ شادی کے بعد اکبری نے اپنے مزاج کے مطابق لڑائی جھگڑے کرکے سسرال سے علیحدگی اختیار کر لی۔ وہ گھرداری نہ جانتی تھی نہ کسی ہنر میں اسے کوئی مہارت حاصل تھی۔ اس کی احمقانہ حرکات نے اس کا گھر برباد کر دیا۔ اکبری کی اس حالت کی ذمہ دار اس کی نانی تھی جن کے لاڈ پیار کی وجہ سے اس کی پرورش میں کمیاں رہ گئیں۔

انسان کے بچپن سے ہی اس کی شخصیت کی بنیاد رکھی جاتی ہے ۔ماں کی گود کی اول درس گاہ ہے چونکہ اکبری کی تربیت اس کی نانی نے کر رکھی تھی لہذا اس کی گھر کی بربادی کی ذمہ دار بھی اکبری کی نانی تھی جنھوں نے اسے سلیقہ اور ہنر نہ سکھایا تھا۔ جب اکبری اپنے شوہر کے ساتھ سسرال سے الگ ہو کر کرائے کے گھر میں آبسی تو اس کے پاس روزمرہ کی تمام اشیاء تھیں۔

گھر داری نہ دیکھنے کی وجہ سے اس کے جہیز کے سارے کپڑے دیمک اور چوہوں کی نذر ہو گئے۔ اس کے برتن عدم توجہ کی وجہ سے چوری ہوتے گئے اور اس کی اپنی حماقتوں کی وجہ سے اس کے زیوارت کٹنی لے اڑی۔ گھر کو بسانا اور اجاڑنا عورت کے ہاتھ میں ہوتا ہے اس لیے والدین کو چاہئے وہ اپنی بچیوں کی تربیت ایسی کریں کہ کل کو بیٹیاں اپنے گھر برباد کرنے کی وجہ نہ بنیں۔