قرطبہ کا قاضی

0

سوال 6 : اس ڈرامے کا خلاصہ اپنے الفاظ میں بیان کیجیے۔

تعارفِ سبق : سبق ”قرطبہ کا قاضی“ کے مصنف کا نام ”سید امتیاز علی تاج“ ہے۔ یہ سبق آپ کی کتاب ”قرطبہ کا قاضی اور دوسرے بابی کھیل“ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

تعارفِ مصنف :

امتیاز علی تاج کا جنم ۱۳ اکتوبر ۱۹۰۰ کو لاہور پنجاب میں ہوا۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے آنرز کیا اور پھر ایم اے انگریزی میں داخلہ لیا مگر امتحان نہ دے سکے۔ تاج کالج کے ذہین ترین طالب علم تھے۔ اپنے کالج کی ثقافتی و ادبی سرگرمیوں میں متحرک اور فعال رہتے تھے۔ ڈرامہ اور مشاعرہ سے انہیں خاص دل چسپی تھی۔ شاعری کا شوق بچپن سے تھا۔ غزلیں اور نظمیں کہتے تھے۔ تاج ایک اچھے افسانہ نگار بھی تھے۔ انہوں نے 17 سال کی عمر میں ’شمع اور پروانہ‘ کے عنوان سے پہلا افسانہ لکھا۔ تاج ایک عمدہ ترجمہ نگار بھی تھے۔ انہوں نے آسکر وائلڈ، گولڈ اسمتھ، ڈیم تر یوس، مدرس تیول، کرسٹین گیلرڈ وغیرہ کی کہانیوں کے ترجمے کیے ہیں۔ امتیاز علی تاج نے ۱۹ اپریل ۱۹۷۰کو دنیا فانی سے کوچ کیا۔ آپ کو لاہور میں مدفن کیا گیا۔

خلاصہ :

اس سبق میں مصنف زبیر اور اس کے والد کی کہانی بیان کررہے ہیں۔ زبیر کے والد قرطبہ کے قاضی ہیں۔ مصنف بتاتے ہیں کہ حلاوہ نے زبیر کو اس وقت سے دودھ پلانا اور سنبھالنا شروع کیا جب وہ صرف تین روز کا تھا۔ اس کی ماں اسے جنم دینے کے بعد اس دنیا سے چلی گئی تھی۔ حلاوہ نے زبیر کو ماں کا پیار، آغوش اور تحفظ دیا تھا اس وجہ سے حلاوہ کو زبیر سے اس قدر لگاؤ تھا۔ مصنف بتاتے ہیں کہ زبیر کے والد نے زبیر کو ایک قتل کی پاداش میں سزائے موت سنا دی تھی۔ عبداللہ (خانہ زاد) نے زبیر کو پھانسی کے پھندے سے بچاؤ کے لیے بہت سے جتن کیے۔ عبداللہ نے باقی لوگوں کے ساتھ مل کر غرناطہ کے ہر شہری سے یہ عہد لیا کہ وہ زبیر کو سولی چڑھانے کے لیے رضا مندی نہیں ظاہر کرے گا۔ شہر میں اس روز باہر سے آنے والے لوگوں کے لیے ضروری تھا کہ وہ قسم اٹھائیں کہ زبیر کا خون ان کے سر نہیں ہوگا۔
مصنف بتاتے ہیں کہ پورے شہر سے کوئی شخص بھی زبیر کو پھانسی دینے نہ آیا تو بالآخر زبیر کو پھانسی دینے کی خدمت خود اس کے باپ یعنی قاضی نے سر انجام دی۔

پھانسی کی سزا پر عمل درآمد کروانا قاضی کا فرض تھا اور یہ فرض اس نے بہت خوش اسلوبی سے ادا کیا اور اپنے ہاتھوں سے مجرم کو پھانسی دی، لیکن ساتھ ہی یہ بھی حقیقت تھی کہ قاضی نے اپنے اکلوتے بیٹے کو موت کی سزا دی تھی۔ ایک باپ کے لیے یہ صدمہ نا قابلِ برداشت تھا اور لاڈلے بیٹے کی موت کے بعد باپ زندہ رہنے کے قابل نہیں رہا تھا اس لیے پھانسی کی سزا پر عمل درآمد کے بعد قاضی نے اپنےکمرے کا دروازہ مقفل کرلیا تھا۔

اس ڈرامے کا سب سے اہم کردار خود قرطبہ کا قاضی ہی ہے۔ ایک طرف اس کے انصاف اور عدل کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنے سگے بیٹے زبیرکو ایک قتل کی پاداش میں موت کی سزا سنا دیتا ہے، یہاں تک کہ اہل خانہ ملازمین اور اہلِ شہر کے احتجاج اور ہڑتال کے باوجود بھی اپنے بیٹے کو سولی چڑھانے کا فریضہ بھی اپنے ہاتھوں سے انجام دیتا ہے، جبکہ دوسری جانب وہ ایک باپ کی صورت سامنے آتا ہے جو بیٹے کی موت کے غم میں نڈھال ہے۔ وہ اپنے بیٹے کی موت کے بعد لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ اپنے گھر تک پہنچتا ہے اور بیٹے کے سوگ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خود کو ایک کمرے میں بند کر لیتا ہے۔ اس کی شخصیت کے یہ دونوں پہلو انتہائی جاندار اور متاثر کرنے والے ہیں۔

سوال 1 : مختصر جواب دیجیے :

الف۔ حلاوہ (زبیر کی دایہ) کو زبیر کے ساتھ اس قدر لگاؤ کیوں تھا؟

جواب : حلاوہ نے زبیر کو اس وقت سے دودھ پلانا اور سنبھالنا شروع کیا جب وہ صرف تین روز کا تھا۔ اس کی ماں اسے جنم دینے کے بعد اس دنیا سے چلی گئی تھی۔ حلاوہ نے زبیر کو ماں کا پیار، آغوش اور تحفظ دیا تھا اس وجہ سے حلاوہ کو زبیر سے اس قدر لگاؤ تھا۔

ب۔ عبداللہ (خانہ زاد) نے زبیر کو پھانسی کے پھندے سے بچاؤ کے لیے کیا کیا جتن کیے؟

جواب : عبداللہ نے باقی لوگوں کے ساتھ مل کر غرناطہ کے ہر شہری سے یہ عہد لیا کہ وہ زبیر کو سولی چڑھانے کے لیے رضا مندی نہیں ظاہر کرے گا۔ شہر میں اس روز باہر سے آنے والے لوگوں کے لیے ضروری تھا کہ وہ قسم اٹھائیں کہ زبیر کا خون ان کے سر نہیں ہوگا۔

ج۔ زبیر نے کیا جرم کیا تھا جس کی پاداش میں اسے پھانسی کی سزا ملی؟

جواب : زبیر نے قتل کیا تھا لہذا اُسے اس جرم کی پاداش میں قاضی نے پھانسی کی سزا سنائی تھی۔

د۔ زبیر کو پھانسی دینے کی خدمت کے لیے قرطبہ کا کوئی فرد بھی کیوں میسر نہیں آرہا تھا؟

جواب : قرطبہ کے تمام لوگ زبیر کو پھانسی دینے کے حق میں نہ تھے اور جلاد سے لے کر عدالت کے افسران تک نے پھانسی کی اس سزا پر عمل در آمد کرنے سے معذرت کر لی تھی۔ زبیر کی جواں سال موت انھیں قبول نہیں تھی۔

ہ۔ بالآخر زبیر کو پھانسی دینے کی خدمت کس نے سر انجام دی؟

جواب : بالآخر زبیر کو پھانسی دینے کی خدمت خود اس کے باپ یعنی قاضی نے سر انجام دی۔

و۔ پھانسی کی سزا پر عمل درآمد کے بعد قاضی (یحٰیی بن منصور) نے اپنےکمرے کا دروازہ کیوں مقفل کرلیا

جواب : پھانسی کی سزا پر عمل درآمد کروانا قاضی کا فرض تھا اور یہ فرض اس نے بہت خوش اسلوبی سے ادا کیا اور اپنے ہاتھوں سے مجرم کو پھانسی دی، لیکن ساتھ ہی یہ بھی حقیقت تھی کہ قاضی نے اپنے اکلوتے بیٹے کو موت کی سزا دی تھی۔ ایک باپ کے لیے یہ صدمہ نا قابلِ برداشت تھا اور لاڈلے بیٹے کی موت کے بعد باپ زندہ رہنے کے قابل نہیں رہا تھا اس لیے پھانسی کی سزا پر عمل درآمد کے بعد قاضی نے اپنےکمرے کا دروازہ مقفل کرلیا تھا۔

سوال 2 : درج ذیل محاورات کا مفہوم واضح کیجیے :

کام تمام کرنا : شکاری نے بندوق سے شیر کا کام تمام کر دیا۔
دن تمام ہونا : اس مریض کی حالت دیکھ کر لگتا ہے کہ اس کے دن تمام ہو چکے ہیں۔
خون دوش پر ہونا : افغانی اور عراقی مسلمانوں کا خون یقیناً امریکہ کے دوش پر ہے۔
ہاتھ خون سے آلودہ کرنا : اسرائیلی یہودیوں اور بھارتی ہندوؤں کے ہاتھ نہتے کشمیریوں اور فلسطینیوں کے شہدا کے خون سے آلودہ ہیں۔
موت سے کھیلنا : ون ویلنگ کر نے والے نو جوان ڈرائیونگ نہیں کرتے ، موت سے کھیلتے ہیں۔
بت بنا کھڑا ہونا : اظہر تم یہاں بت بن کر کیوں کھڑے ہو بیٹھ جاؤ یا اپنے کام پر جاؤ۔
سناٹا چھا جانا : ہمارے اردو کے استاد جب بھی کلاس میں آتے ہیں اتنی بڑی کلاس میں سناٹا چھا جاتا ہے۔
آستین چڑھانا : ایوب کی کیا بات کرتے ہو، وہ تو بات بے بات آستین چڑھانے لگتا ہے۔

سوال3: درج ذیل حروف کو اپنے جملوں میں استعمال کیجیے :

ورنہ : کھانا کھا لو ورنہ بعد میں بھوک لگے گی۔
چاہے : ہر انسان کو چاہے وہ کوئی بھی ہو قانون پر عمل کرنا چاہیے۔
خواہ : تم خواہ مخواہ ہی پریشان ہورہے ہو۔
جبکہ : جبکہ تم چاہو تو باآسانی یہ کام کرسکتے ہو۔
اگر : اگر تم چاہو تو جماعت میں اول پوزیشن حاصل کرسکتے ہو۔
مگر : مگر تمھاری کام چور کی وجہ سے تم کامیاب نہیں ہوتے۔
کیونکہ : تمھارے نمبر کم اس لیے آئے ہیں کیونکہ تم پر وقت گھومتے پھرتے رہتے ہو۔
اگرچہ : اگرچہ تم چاہو تو ہر کام وقت پر کرسکتے ہو۔
لیکن : لیکن تم ایسا نہیں چاہتے ہو۔
چونکہ : چونکہ تم کام چور ہو۔
اس لیے کہ : اس لیے کہ تمھارے اندر سستی اور کاہلی پیدا ہوچکی ہے۔

سوال 4 : اس ڈرامے کے سب سے اہم کردار کا تجزیہ کیجیے۔

جواب : اس ڈرامے کا سب سے اہم کردار خود قرطبہ کا قاضی ہی ہے۔ ایک طرف اس کے انصاف اور عدل کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنے سگے بیٹے زبیرکو ایک قتل کی پاداش میں موت کی سزا سنا دیتا ہے، یہاں تک کہ اہل خانہ ملازمین اور اہلِ شہر کے احتجاج اور ہڑتال کے باوجود بھی اپنے بیٹے کو سولی چڑھانے کا فریضہ بھی اپنے ہاتھوں سے انجام دیتا ہے، جبکہ دوسری جانب وہ ایک باپ کی صورت سامنے آتا ہے جو بیٹے کی موت کے غم میں نڈھال ہے۔ وہ اپنے بیٹے کی موت کے بعد لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ اپنے گھر تک پہنچتا ہے اور بیٹے کے سوگ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خود کو ایک کمرے میں بند کر لیتا ہے۔ اس کی شخصیت کے یہ دونوں پہلو انتہائی جاندار اور متاثر کرنے والے ہیں۔

سوال 5 : سبق کے متن کو پیش نظر رکھ کر خالی جگہیں پر کیجیے :

الف۔ سارے۔۔۔۔۔میں ایک شخص نہیں جو کسی کے حکم سے بھی اسے سولی چڑھائے۔

٭ملک

٭شہر

٭قرطبہ ✓

ب۔ انھیں۔۔۔۔۔۔جو کہے گا وہ کر ڈالیں گے۔

٭حاکم
٭قاضی
٭قانون ✓

ج۔ آج کے دن اس کے ۔۔۔۔۔کی تعمیل نہ ہونے پائے گی۔

٭فرمان
٭فتوے ✓
٭کہے

د۔ہجوم میں سے ۔۔۔۔کا ایک دلدوز شور اٹھتا ہے۔

٭دیوانہ وار ہنسی
٭گریہ وبکا ✓
٭چیخوں

ہ۔ الٰہی! آج کا ۔۔۔۔۔۔یہ کیا دیکھ رہا ہے۔

٭آفتاب ✓
٭آسمان
٭زمانہ